• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:پرویز فتح ۔ ۔۔لیڈز


گلاسگو کے نامور ترقی پسند شاعر اور انقلابی رہنما امتیاز علی گوہر سے میرے بہت سے تعلق اور رشتے ہیں، امتیاز ایک ترقی پسند شاعر ہے، ادب اور کالم نگاری سے مجھے بھی لگاؤ ہے۔ امتیاز اور میں دونوں ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دوُر افتادہ دیہاتوں میں پیدہ ہوئے اور پرورش پائی ہے۔ امتیاز کے والد چوہدری محمد ابراہیم اور میرے والد کامریڈ چوہدری فتح محمد نے ساری زندگی پاکستان کے مظلوم، محکوم اور پِسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے اُنہیں سیاسی شعور دینے، کسان تحریکوں میں منظم کرنے، محلات اور ڈرائنگ روموں کی سیاست کو ملک کے گلی کوُچوں اور دُور دراز دیہاتوں تک پہنچانے میں صرف کر دی اور اپنی آخری سانس تک ایک پُر عزم انقلابی کے طور پر اپنے نظریات پر کاربند رہے۔ دونوں کا نظریاتی اور سیاسی رشتہ تو قیام پاکستان کے چند روز بعد ہی ہو گیا تھا، جب کامریڈ چوہدری فتح محمد، ڈاکٹر محمد عبداللہ، چوہدری محمد شریف، کامریڈ برکت علی ، چوہدری فرزند علی اور پاکستان کسان کمیٹی کے دیگر سرکردہ کارکن امتیاز کے گاؤں ممتاز مارکسی دانشور چوہدری سردار علی کے ہاں جایا کرتے تھے اور انہی کے گھر کے باہر گلی میں علاقہ کے کسانوں کے جلسے کیا کرتے تھے۔ وہ آپس میں ایک اچھے دوست، ساتھی اور کامریڈ بن گئے اور اُن کی سیاسی جدوجہد کی داستانیں سات دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ امتیاز اور میں نہ صرف اپنے والدین کی لیگسی کو جاری رکھنے میں سرگرم رہتے ہیں، بلکہ ہمہ وقت اپنے قلم سے، عمل سے، آواز سے اور وجود سے ترقی پسند سوچ کی ترویج اور انقلابی تحریکوں کو جلا بخشنے کے لیے محوِ عمل رہتے ہیں۔ یوں تو امتیاز کی شاعری کی کتابیں پہلے بھی پڑھ رکھی تھیں، لیکن اُنہوں نے اُس روز اپنی پنجابی اور اُردو شاعری کی چاروں کتابیں محبت بھرے قلمات لکھ کر ہمارے لیے رکھی ہوئی تھیں۔ اُن کی پہلی کتاب لمحوں کا سفر 2010 میں شائع ہوئی، پھر زیرِ لب 2012 میں، پنجابی شاعری کا مجموعہ ʼواجʼ 2016 میں اور میرے گُمان میں 2119 میں شائع ہوئیں۔ اِس طرح امتیاز علی گوہؔر بیک وقت نہ صرف اُردو اور پیجابی کے شاعر بن کر ایک مدلل اور انسانیت سے محبت کرنے والے انسان بن گئے، بلکہ اپنے ترقی پسند رحجانات کے باعث ملک کے مظلوم، محکوم، پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم ترقی پسند آواز کے طور پر نمودار ہو گئے۔ واپسی پر اُن کی کتابوں کو دوبارہ پڑہنا تو فرض ہو گیا تھا، اِس لیے سوچا کہ کیوں نہ اِن کا ریویو کر دوں اور حسب معمول اپنی بات بھی کہہ دوں، جیسے فہمیدہ ریاض جی نے کہا تھا "یہ وقت نہیں پھر آئے گا، تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہو گا دیکھا جائے گا"۔ ترقی پسندی اور ترقی پسند تحریک کی کہانی سماجی ارتقاء کی کہانی کا اہم جُزو ہے۔ سماجی زندگی کے آغازِ سفر سے اِس کہانی کی ابتدا ہوتی ہے۔ زمانہ قدیم کا اِنسان جنگلوں اور غاروں سے نکل کر جب کھیتی باڑی کے دور میں داخل ہوا اور ایک طویل عرصہ تک اجتماعی سماجی زندگی یا ابتدائی اشتراکی عہد میں زندگی کی ارتقائی منازل طے کر رہا تھا تو اُس کا یہ عرصہ حیات ہزاروں سالوں پر محیط رہا۔ سماجی زندگی کی اِنہی ارتقائی منازل کے دوران نجی ملکیت نے جنم لیا، تو غیر طبقاتی سماج طبقاتی معاشرے میں تبدیل ہو گیا۔حاکم و محکوم، آقا اور غلام، ظالم اور مظلوم کے تصورات متشکل ہوئے اور یہیں سے طبقاتی کشمکش اور چھنے ہوئے حقوق کے حصول کی اُس طویل جدوجہد کا آغاز ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ ترقی پسند ادب پرانی وضع، پرانے انداز، دقیانوسی خیالات، رویوں اور طریقوں کو رد کر کے نئے اصول، قاعدے، اسلوب، طرز اور رجحانات کو ترتیب دیتا، اختیار کرتا اور قبول کرتا ہے۔ یہ ادب تہذیب و ثقافت کے نظریہ ارتقا، فہم و ادراک اور معاشرے کے اثرات سے نشوونما پاتا ہے۔ ترقی پسند شاعری کے بارے میں روبینہ جیلانی جی نے لکھا تھا کہ یہ انسانی رنگ ڈھنگ، حالات و واقعات، طور طریقے، دکھ سکھ اور حکمت عملی پر مبنی ہے، اور یہ سماجی مساوات پر مبنی ایک ترقی یافتہ معاشرے کی ترجمانی کرتی ہے۔ ترقی پسند شاعری تصوراتی، فرضی اور غیر حقیقی نہیں ہوتی، بلکہ یہ ادب کے ذریعے عوامی خدمت کرتی ہے اور حقائق بیان کرتی ہے، لوگوں کا حوصلہ بلند کرتی ہے اور زندگی کا مقصد قابل بیان تصورات اور تذکروں سے کرتی ہے۔ ترقی پسند ادب اور شاعری معاشرے میں تشدد، دنگا فساد، آمرانہ سوچ، جبراً اطاعت، سیاسی قبضے، سماجی استحصال، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کے رد عمل کے نتیجے میں لکھی جاتی ہے۔ یہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے جزبے کو ابھارتی ہے اور انسانوں میں اُن کے بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی پیدہ کرتی ہے۔ امتیاز علی گوہؔر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہتر مستقبل، ہزاروں خواہشات اور آنکھوں میں حسین خواب سجائے اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر 1985ء میں اسکاٹ لینڈ کے خوبصورت شہر گلاسگو میں آباد تو ہو گئے مگر اپنے وطن، اُس کی مٹی، اُس کے کھیت کھلیان، علم و ادب، تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت، وہاں کے عوام اور اُن کے دُکھ درد سے اُنہیں آج بھی اتنا ہی پیار ہے جتنا پاکستان میں رہتے ہوئے تھا۔ اُن کے خیال میں مرکزی ادبی دہارے سے دور رہنا ایک لکھاری کے لیے سزا سے کم نہیں ہوتا اور ایسے میں کچھ تخلیق کرنا ایک ادبی جہاد ہے، جو کہ وہ اور اُن جیسے دیگر لکھاری بیرونِ ملک رہتے ہوئے کر رہے ہیں۔ امتیاز سکاٹ لینڈ کی مختلف ادبی تنظیموں سے منسلک ہیں جن میں کلچر ایشیاء سکاٹ لینڈ، گلاسگو قلم قبیلہ اور سب رنگ گلاسگو شامل ہیں۔ وہ یورپ کی سب سے بڑی ادبی تنظیم یورپین لٹریری سرکل کے بھی ممبر ہیں۔ امتیاز کو اپنی ماں بولی سے بہت پیار ہے، اِس لیے انہوں نے اپنی شاعری کے خوبصورت رنگ پنجابی میں بھی خوب بکھیرے ہیں۔ امتیاز کی شاعری میں توازن اور اعتدال کی کیفیت ملتی ہے۔ اُن کی شاعری میں آپ کو رومانوی پہلو بھی عیاں نظر آئے گا اور بیک وقت ترقی پسند رحجانات س بھی متاثر نظر آئیں گے، جس کا وہ کھلا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ترقی پسند خیالات اُنہیں ورثے میں ملے ہیں اور اس پر اُنہیں فخر بھی ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے وقت ہی غلط ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ وہ جاگیردار، قبائیلی سردار اور خوانین جو قیامِ پاکستان سے قبل انگریز سامراج کے نمک خوار تھے اور اُنہوں نے اپنے وطن،اِس کے عوام اور اِس کی مٹی سے غداری کے صلے میں انگریز سامراج سے بڑی بڑی جاگیریں حاصل کیں تھیں، انہوں نے پہلے مسلم لیگ پر قبضہ کر لیا اور پھر ملکی بیوروکریسی کے ساتھ ساز باز کر کے قائد اعظم محمد علی جناح کو ملکی منظرنامے سے غائب کر دیا۔ پھر اُنہی جاگیردار طبقے نے اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر اِس دہرتی کی حقیقی شناخت کو ترک کروایا اور مذہب کی شناخت اپنا کر سماجی ڈہانچے کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ پھر ملک کے رجعتی عناصر کے ساتھ اتحاد کر کے جاگیردار، بیوروکریسی اور ملاٌ کی ایسی مضبوط تکون بن ڈالی اور اُس نے حکمران طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے لوگوں کو اتنا مذہبی بنایا کہ وہ محرومیوں کو قسمت اور ریاستی ظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کر لیں، اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا گناہ سمجھیں، غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا دن معین سمجھ کر چپ رہیں۔ عام عوام ترقی اور آگے بڑہنے کی لگن دل سے نکال دیں اور دُنیا کو کتے کی ہڈی کہہ کر سوئے رہیں۔ اُن کے ایسے خیالات کی جھلک اُن کی شاعری میں کثرت سے ملتی ہے۔ امتیاز مادی چیزوں کو اُن کی حقیقی شکل اور پسِ منظر میں جانچتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے بزنس کے مصروف اوقات میں بھی وقت نکال کر ادبی اور تخلیقی کام جاری و ساری رکھتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے موضوعات کو مسلسل وسعت دے رہے ہیں اور اُن کے کلام میں سماجی استحصال، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کے خلاف عوامی شعُور اجاگر کرنے کا عنصر غالب آ رہا ہے۔ اُن کے لیے یہ یقیناً فخر کی بات ہے کہ وہ بیک وقت اپنے وطن کی قومی زبان ʼاُردوʼ اور ماں بولی ʼپنجابیʼ میں شعر لکھتے ہیں اور اُن کی دونوں زبانوں میں شاعری کی کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔ وہ اپنے ادبی سفر کو جاری رکھنے، دوسروں سے سیکھنے، بہت سے دیگر موضوعات کو شاعری کی زبان میں قلم بند کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ اُن کی شاعری میں روانگی اور ادبی سفر میں مسلسل گہرائی آ رہی ہے اور وہ بڑے محطاط انداز میں نفاست اور بہتری کی جانب گامزن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی شاعری کا رُخ رومانیت سے ترقی پسندی کی جانب گامزن ہے جو کہ اُنہیں وراثت میں ملا تھا۔ اُن کے والد محترم کو میں ہی نہیں بلکہ سب ترقی پسند سیاسی کارکن چاچا ابراہیم کے نام سے یاد کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ امتیاز کو اب بھی ایسا لگتا ہے کہ آج بھی وہ شاید یہیں کہی ہیں، کیونکہ محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں کے درد کو محسوس کرنے اور ان کی آواز بننے کے جس مشن کی انہوں نے پچاس کی دہائی میں ابتدا کی تھی، وہ خود بھی اسی پر کاربند ہیں۔ امتیاز سمجھتے ہیں کہ موجودہ سماجی نظام اِس ملک کا فرسودہ جاگیرداری نظام ہے جو انگریز سامراج نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پیدا کیا اور جِس کے نتیجے میں جاگیردار، وڈہیرے، سردار، خوانین ملکی معیشت اور سماجی زندگی پر قابض ہیں اور کروڑوں محنت کرنے والے لوگ اُن کی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اُنہوں نے ملکی بیوروکریسی کے ساتھ اتحاد کر کے مذہب کو ہتھیار بنا لیا ہے۔ یہی نظام ہے جس نے ہمارے دیہی محنت کشوں کو غربت سے دوچار کیا ہوا ہے اور شہر میں بسنے والے مزدوروں اور چھوٹے کاروباری لوگوں کو کنگال کر دیا ہے۔ اِیسے نظام کے بطن سے جہالت اور پسماندگی ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ اُس لیے آج ایک ایسی تحریک پیدا کرنے کے ضرورت ہے جو شہری اور دیہی محنت کشوں، نچلے اور درمیانے طبقے کے عوام، خواتین اور مذہبی اقلیتوں، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنیرز، ادیبوں، صحافیوں اور کاروباری طبقات کے مفادات کا تحفظ کرے اور اُن سب کا ملک کے جمہوری سیاسی عمل میں حصہ یقینی بنائے۔ یہی تحریک قومی خودمختاری کی ضامن ہو سکتی ہے اور ہمارے ملک کو گلوبلائزیشن کی سامراجی قوتوں سے بچانے اور ایک نئی دینا کی تخلیق کا حصہ بنا سکتی ہے۔ امتیاز اپنے شعری مجموعے ʼمیرے گُمان میںʼ میں لکھتے ہیں: ۔ سنا ہے دُشمنِ جاں پھر نیا شب خون مارے گا چلو جو سو گئے ہیں ہم اُنہیں جھنجھوڑ دیتے ہیں۔

تازہ ترین