اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین نے کبھی قرضہ معاف نہیں کروایا،سرکاری حیثیت میں ڈائریکٹر ہونے کی صورت میں جہانگیر ترین کوڈیفالٹر کہنا درست نہیں، پرانا خط کمپیوٹر کی غلطی کی وجہ سے جاری ہوا۔
جہانگیر ترین نے بینک سے قرضے معاف نہ کروانے کے ثبوت پیش کر دیے،ان کا کہناتھاکہ شریف برادران جھوٹ بول رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے الیکشن کمیشن کو لکھے وضاحتی خط میں کہا کہ جہانگیر ترین سرکاری حیثیت میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا کے ڈائریکٹر تھے،سرکاری حیثیت میں ڈائریکٹر ہونے کی صورت میں جہانگیر ترین کو’ڈیفالٹر‘ کہنا درست نہیں۔
اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کو مارچ 2013 کو لکھا گیا پرانا خط کمپیوٹر کی غلطی کی وجہ سے جاری ہوا، کمپیوٹرائزڈ نظام سرکاری اور غیر سرکاری ڈائریکٹرز میں تفریق نہیں کرسکا۔
یہ وضاحت ا سٹیٹ بینک کی جانب سے 1 اپریل 2013 کو الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کے حوالے سے کی گئی ہے، 5اپریل 2013 کو ایک نجی بینک نے بھی جہانگیر ترین کی درخواست پر وضاحتی خط جاری کیا تھا۔
خط کے مطابق ایک کروڑ 90 لاکھ روپے سے زائد کا قرضہ جہانگیر ترین کے فخری پلپ ملز کے ڈائریکٹر بننے سے پہلے کا تھا، قرضے کی سیٹلمنٹ بھی جہانگیر ترین کے ڈائریکٹر بننے سے قبل کی گئی۔نجی بینک کےخط کی کاپی چیف الیکشن کمشنر اور این اے 154 اور پی پی 211 کے ریٹرننگ افسر کو بھجوائی گئی تھی۔
گزشتہ روز حکومتی ذرائع کی جانب سے جہانگیرترین کے 5کروڑ روپے قرض کو معاف کرانے کے حوالے سے خط جاری کیا گیا تھا، جس کے بعد جہانگیر ترین کی جانب سے اس خبر کی تردید کی گئی اورجہانگیر ترین کی جانب سے اسٹیٹ بینک اور نجی بینک کے وضاحتی خطوط جاری کئے گئے ۔