صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، صدارتی نظام پر سنجیدہ بحث

January 23, 2022

اسلام آباد(فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) صدارتی نظام کے نفاذ سے متعلق بحث بتدریج ایک سنجیدہ موضوع کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اب بحث میں یہ حوالہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ ماضی میں جو مارشل لا لگے ان سے ملک اور قوم کو کیا فوائد اور کیا نقصانات ہوئے اس موضوع پر ہونے والی بحث کیوں شروع ہوئی آغاز کس نے کیا اور کون اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اس حوالے سے تجزئیے اور تبصرے اب غیر ملکی میڈیا میں بھی پڑھنے اور سننے میں آ رہے ہیں کیونکہ کسی بھی ملک میں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہو اس میں پارلیمانی اور سیاسی نظام کی عوامی طاقت محض چند افراد کی دسترس میں منتقلی کے عمل میں پڑوسی ممالک سے لیکر بڑی طاقتوں تک کی دلچسپی فکر مندی کے ساتھ ایک لازمی امر ہے اس موضوع کے حوالے سے ہونے والی قیاس آرائیوں اور خبروں میں تیزی کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے اس ضمن میں ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘کا طرز عمل بھی ہے۔

گوکہ گزشتہ روزبھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ملتان میں میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہناتھا کہ،ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی خبریں محض قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں جبکہ وفاقی وزیر حماد اظہر کا لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ صدارتی نظام سے متعلق بحث نئی نہیں ہے بلکہ کافی عرصے سے چل رہی ہے اور آئندہ بھی چلتی رہے گی گوکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مہم کے پیچھے حکومت کا کوئی کردار نہیں لیکن اگلی ہی سانس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ملک میں جو بھی نظام ہوگا وہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا‘‘۔

حکومتی ترجمانوں اور نمائندوں کے اس غیر واضح طرز عمل سے اپوزیشن کے بعض حلقوں اور غیر جانبدار مبصرین کے ان خدشات کو تقویت پہنچتی ہے کہ ’’اگر ساری دال کالی نہ بھی سہی لیکن دال میں کچھ کالا ضرور ہے‘‘وطن عزیز میں صدارتی نظام کا تجربہ چار مرتبہ کیا جا چکا ہے جس کی پہل فیلڈ مارشل ایوب خان نے کی تھی اور جو ایک مکمل صدارتی نظام تھا باقی ادوار مارشل لا کے تھے۔

جن میں باوردی جنرل یحیٰی خان،جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی مارشل لا نافذ کیا (ذوالفقار علی بھٹو بھی کچھ عرصے کیلئے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے)ظاہر ہے کہ باوردی شخص جب ملک میں مارشل لا نافذ کرتا ہے تو اختیارات کی تمام مرکزیت فرد واحد کے پاس ہوتی ہے اسی طرح صدارتی نظام میں بھی ایک ہی شخص ساری کمان اور طاقت کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔

اپوزیشن کے حلقوں کے ساتھ ساتھ بعض غیر جانبدار مبصرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی خبروں اور بالخصوص’’سوشل میڈیا پر جس زور شور سے یہ مہم چلائی جا رہی ہے اگر اس میں حکومت کی ایما نہ سہی لیکن رضا مندی ضرور شامل ہے اور اپنے اس موقف کے حق میں یہ مبصرین وزیراعظم عمران خان ان بیانات کی بھی یاددہانی کراتے ہیں جن میں وہ بار بار اعلاینہ طور پر مجبوری اور بے بے بسی کے انداز میں یہ کہہ چکے ہیں

’’ہم کیا کریں، ہم کس طرح پالیسیاں چلائیں، ہمیں تو اپنے اتحادیوں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے، دو تہائی تو دور کی بات ہمارے پاس تو سادہ اکثریت بھی نہیں ہے اگر کوئی ایسا نظام ہو جہاں حکومت کے سربراہ کے پاس اختیارات ہوں تو وہاں کام موثر انداز میں ہو سکتا ہے‘‘۔

یہ مبصرین ان بیانات کو وزیراعظم کی جانب سے ایک طرف تو ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف گڈ گورننس کے فقدان کے باعث حکومت کی نااہلی کا جواز پیش کرتے ہیں جو ملک کی اپوزیشن ان کی حکومت پر مسلسل پیش آنے والے بعض واقعات کے حوالے سے عائد کرتی ہے۔

تاہم یہ بات طے ہے کہ اگر خواہش ہو تو ملک میں صدارتی نظام نافذ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کیونکہ اپوزیشن بہت مضبوط ہے سیاسی طاقتیں اس خواہش کو حقیقت کی شکل دینے کے عمل میں بھرپور مزاحمت کریں گی جس کے نتائج بہرحال اچھے نہیں ہونگے۔