پاکستان کی حکومتیں اوردرباری

January 26, 2022

تحریر:ایم اسلم چغتائی ۔لندن
پرانے بادشاہی دور کی درباری حکومتیں آج بھی کئی ممالک میں کئی شکلوں میں کہیں جمہوری نظام میں کہیں آمرانہ نظام میں کہیں فوجی اور کہیں بادشاہی اور خاندانی نظام کی شکل میں موجود ہیں۔ایسی حکومتوں اور ریاستوں نے خود حکمرانوں اور ملک وقوم کو ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے اور ملک تباہ ہوئے، وطن عزیز پاکستان کی مختصر تاریخ کے تین مقبول اور منتخب وزرائے اعظم کا ذکر کیا جائے تو ان میں ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان کے نام سامنے آتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ایک ذہین اور قابل شخص تھے، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ان کا اہم کردار تھا، وہ جنرل محمد ایوب خان کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے، پاکستان، چین کی لازوال دوستی میں ذوالفقار علی بھٹوکا کردار اہم ہے۔1971ء مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ ملک کی باگ ڈور سنبھالی، ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء اپنی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی بنیاد ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ پر رکھی اور عوام میں مقبولیت حاصل کی، انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی مگر ان کے اردگر وہی وڈیرے، جاگیردار موقع پرست اور مطلب پرست ساتھی، سیاست دان جمع ہوتے ہوگئے اور ’’سب اچھا ہے‘‘ ’’جی حضور‘‘ کہنے والی درباری سیاست شروع ہوگئی، ذوالفقار علی بھٹو کی جنرل ضیاءالحق کو آرمی چیف بنانے کی غلطی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی،د جنرل ضیاء الحق نے میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرکے مارشل لاء نافذ کردیا اور ان کو نظر بند کردیا اور قتل کے کیس میں ملوث کردیا ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے اس مشکل ترین وقت میں ان کے ’’درباری‘‘ ساتھی کوئی تحریک نہ چلاسکے ،ان کے ساتھی اپنی اپنی جان بچانے کی خاطر ادھر ادھر ہوگئے اور اپنے لیڈر کو چھوڑ دیا اور آخر کار ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر لٹک گئے ۔نوازشریف جنرل ضیاء الحق کے دور میں سامنے آئے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے پھر 1990ء میں وزیراعظم کے عہدے پر فائض ہوگئے ان کے دور اقتدار میں بد عنوانی اور لوٹا کریسی بڑھی، درباری، خوش آمدی سیاست نواز شریف کے دور میں جاری رہی۔ نوازشریف کے بڑے کاموں میں موٹروے اور سڑکیں بنانا اور سی پیک کو آگے بڑھانا شامل ہیں، نوازشریف تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے اپنی سیاسی غلطیوں اور کرپشن کے علاوہ یہ بھی مطلب پرست اور موقع پرست چاپلوسی کرنے والےساتھیوں کے چنگل میں پھنس گئے جنہوں نے ان سے بھی کئی غلطیاں کروائیں اور مشکل وقت میں چھوڑ کر محفوظ ’’گھونسلوں‘‘ میں چھپ گئے اور پرویز مشرف کے ساتھ ہو کر اس کے گیت گانے لگے اور آج موجود حکومت میں وزارت کے مزے لے رہے ہیں، نوازشریف کرپشن کیس میں مجرم قرار دیئےجاچکے ہیں، نوازشریف پر پرویز مشرف دور میں بھی گرفتاری کے بعد جان بچا کر ملک سے معاہدہ کرکے بھاگنے کاالزام لگا، آج کل لندن میں اپنے ’’شاہی محل‘‘ میں مقیم ہیں، اپنا علاج کرانے تھوڑے عرصہ کیلئے لندن آئے مگر آج تیسرا سال شروع ہے۔موجودہ حکومت کے وزیراعظم عمران خان کرکٹ کے کھیل سے معروف ہوئے اور پاکستان کو عالمی کپ بھی دلوایا، زیادہ عرصہ یورپ میں گزارا اور عالمی شہرت پائی، پاکستان میں کینسر کا اسپتال، اور یونیورسٹیاں بنوائیں۔1996ء اپنی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی اور اپنے رفاعی کاموں کے ساتھ ساتھ سیاست میں بڑی جدوجہد کی، مضبوط اپوزیشن بنا کر کامیاب جلسے، جلوس کئے اور دھرنہ دیا، تبدیلی لانے اور بڑے کام کرنے کے نعرے دیئے، آخر کار عمران خان کی جدوجہد سیاست میں رنگ لائی اور 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی الیکشن جیت گئی اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، پی ٹی آئی حکومت کا چھوتھا سال شروع ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہیلتھ کارڈ، احساس پروگرام اور غریبوں کیلئے ہائوسنگ اسکیمیں جیسے بڑے کام شروع کئے ہیں مگر عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، اپوزیشن کی جانب سے کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں، روپے کی قیمت گر چکی ہے، افراط زر بڑھ گیا ہے، وزیراعظم عمران خان کی حب الوطنی اور نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا مگر ان کی اور ان کی ٹیم کی ناتجربہ کاری ملک وقوم کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہے، اس جماعت کے اکثر وزیر ومشیر نااہل ہیں اور سارا زور اپوزیشن کیخلاف لگا رہے ہیں، پچھلی حکومتوں کو روتے رہتے ہیں، یہ وزیر اور مشیر پچھلی حکومتوں کے وزراء اور مشیروں کی طرح درباری، چاپلوسی کرنے والی، ’’سب اچھا ہے‘‘ کہنے والی راہ پر گامزن ہیں جس کی وجہ سے وزیراعظم اور حکومت کےگرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، اپوزیشن بڑے جلسے، جلوسوں اور لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔پاکستان کے وزراء اعظم کو ان کی اپنی غلطیوں، ناکامیوں کے علاوہ ان کے درباریوں اور ’’سب اچھا ہے‘‘ کہنے والے اور اندھیرے میں رکھنے والے وزیروں، مشیروں نے ہمیشہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، شاید ہمارے وزرائے اعظم ایسے ہی وزیروں اور مشیروں کو پسند کرتے ہیں،اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے ملک اور قوم پر رحم کریں مل کر ملک کے حالات کو نیک نیتی سے ٹھیک کریں وگرنہ ایسا نہ ہو، خدا نہ کرے ہو کہ آپ کا انجام بھی پچھلے سیاستدانوں اور حکمرانوں جیسا ہو، زبانی ترقی اور کامیابی کے دعوے کرنے کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔