دنیا کے 90 ملکوں میں سزائے موت ختم

January 28, 2022

دنیا بھر میں سزائے موت کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے 70سےزائد ممالک نے ایک قرارداد کے مسودے پر دستخط کیے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کئی ممالک سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ مجرم کو سزائے موت دینے سے دنیا میں جرائم ختم نہیں کیے جاسکتے۔

امریکی میگزین فارن پالیسی نے سزائے موت اور پھانسی دینے کے حوالے سے ایک مضمون سپرد قلم کیا ہے جس میں دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک کی ایک فہرست ترتیب دی ہے اور اِس فہرست کے مطابق ، کشور حسین شادباد اپنے شہریوں کو پھانسی دینے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبرپر پاکستان ہی کا دوست ملک چین ہے جس میں گزشتہ برس ایک ہزار دس افراد کو سزائے موت دی گئی ، دوسرے نمبر پر ایران ہے جہاں 177افراد کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔ چوتھے نمبر پر عراق کا نام آتا ہے جس میں 65افراد کو پھانسی دی گئی۔ عراق نے 2004 میں سزائے موت پر پابندی لگا دی تھی لیکن اس کے بعد لگ بھگ 270افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، پانچویں نمبر پر خود امریکہ کا نام ہے جہاں 53 افراد کو موت کی وادی میں دھکا دیا گیا۔ امریکہ میں پھانسی کی سزا مختلف ریاستوں میں صرف قاتلوں کو دی جاتی ہے لیکن کچھ ریاستوں میں جرائم پر بھی پھانسی دی جاسکتی ہے۔ ادھر پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ پاکستان میں پھانسی کی سزا کی موجودگی میں ممکن نہیں کہ برطانیہ میں سزائے موت نہیں ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ برطانیہ سے پاکستان کے حوالے کیے جانے والے لوگوں کو سزائے موت دی جائے۔

پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ متعدد بین الاقوامی ادارے سزائے موت کو ختم کرنے کے سلسلے میں کوششوں کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ دنیا کے 90ملکوں میں موت کی سزا کو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ لگ بھگ اتنے ہی ملکوں میں ابھی تک مجرموں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں ان قیدیوں کی تعداد 15ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جنہیں گزشتہ بارہ برس کے دوران موت کی سزا سنائی گئی جبکہ صرف پنجاب میں ایسے قیدیوں کی تعداد آٹھ ہزارکے قریب ہے سب سے زیادہ پھانسیاں صوبہ پنجاب میں دی گئیں۔ اس وقت مملکتِ خداداد کی جیلوں میں قید پھانسی کے منتظر قیدیوں میں 42عورتیں اور تین بچے بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور ایران کے بعد پاکستان سب سے زیادہ موت کی سزائیں دینے والا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان میں 2004میں 41افراد کو سزائےموت سنائی گئی اور 15کو پھانسی دی گئی جبکہ 2005میں 481لوگوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور 52قیدیوں کو پھانسی دی گئی۔ 2006میں 448افراد موت کی سزا کے ’’حقدار‘‘ ٹھہرے جبکہ 82کو پھانسی دی گئی۔ 2007 میں پہلے نو ماہ کے دوران کم از کم 109افراد کو پھانسی کے پھندے میں جکڑا گیا جبکہ پورے ایک سال میں 113افراد پھانسی کے پھندے میں جھول گئے۔ 2006 میں صدر پاکستان نے 257رحم کی اپیلوں کو نمٹایا اور صرف ایک شخص کی رحم کی اپیل منظور ہوئی اور وہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری مرزا طاہر محمود تھا پاکستان بھر میں 184خواتین کو موت کی سزا سنائی جاچکی ہے جن میں 2007تک 9خواتین کی سزا پر عمل درآمد بھی ہوچکا ہے۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ایک قیدی ذوالفقار علی کی سزائےموت پرعملدرآمد 8اکتوبر کے دن عین وقت پر صدر زرداری کے حکم پر روک دیا گیا۔ اس بات سے عندیہ ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سزائے موت کے قانون کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی اپنی کوششوں میں سنجیدہ تھی۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایسے جرائم میں اضافہ ہوا تھا جن کی سزا موت ہے اور مشرف کے عہد میں ہی زیادہ تر پھانسی کے قیدیوں کی سزا پر عملدرآمد ہوا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 21جون 2008کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں سزائے موت کے قانون کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان قابلِ تعریف اور حوصلہ افزا تھا لیکن شاید مذہبی شدت پسند تنظیموں کی مخالفت کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور ہنوز قانون کی تسلیم شدہ اور تحریری شکل میں موجود بنیادی خامیوں کے ہوتے ہوئے بھی سزائے موت کے فیصلے سنائے جارہے ہیں اور اس امر کا قوی امکان موجود ہے کہ مقدمات میں منصفانہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی اور وسیع پیمانے پر سزائے موت کے اطلاق نے قانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے کی بجائے اسے کافی حد تک کمزور کیا ہے لیکن ایک خبر جسے ہم امید کی کرن قرار دے سکتے ہیں وہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا ایک بیان ہے جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت سزائے موت کے قیدیوں کی سزا عمرقید میں تبدیل کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔

میں وزیر داخلہ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اس زیر غور معاملہ کو جاننے سے پہلے قانونی شکل دے دیجئے کہ بعض کال کوٹھڑیوں میں دس سے بارہ قیدیوں کو مبینہ طور پر ایک چار ضرب تین میٹر کی کوٹھری میں بند کیا گیا ہے جو صرف ایک قیدی کے لیے بنائی گئی تھی۔ سزائے موت پر عملدرآمد کے انتظار میں بہت سے قیدی 25 سے30 سال سے اپنی ’’موت کے منتظر‘‘ ہیں جن میں سے بعض تو سو برس کی عمر کو چھونے والے ہیں۔

سب سے دلچسپ یہی غم ہے میری بستی کا

موت پس ماندہ علاقوں میں دوا لگتی ہے