منو بھائی... مشہور کالم نویس، شاعر اور ڈرامہ نگار

February 06, 2022

6فروری 1933ء کو وزیرآباد میں پیدا ہونے والے منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ وہ صحافی، کالم نویس، شاعر اور پاکستان کے عظیم مصنف تھے۔ انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز اخبار میں مترجم کے طور پر کیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ ڈرامہ نگار بن گئے۔ ڈرامہ نگار کے طور پر، منو بھائی کا سب سے مشہور ٹی وی ڈرامہ ’سونا چندی‘ ہے، جو 1982ء میں ریلیز ہوا تھا۔

اس ڈرامے میں گائوں سے تعلق رکھنے والے دو کردار شہر والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ ساتھ اس میں خاتون کو مرد پر حاوی دکھایا گیا، جوکہ اس زمانے میں خلاف معمول بات تھی۔ انہوں نےآشیانہ اوردشت جیسے جاندار ڈرامے بھی لکھے جبکہ ایک ماحولیاتی دستاویزی فلم میں بھی حصہ ڈالا۔ وہ پاکستان کے سب سے نمایاں اور مستقل مزاج مصنفین میں سے ایک رہے ہیں۔

منو بھائی اپنی صحافتی زندگی کے آغاز میں کافی عرصہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے ، اسی لیے سماج کا کوئی بھی پہلو ان سے دامن نہ بچا سکا۔ منو بھائی نے تمثیل نگاری کا فن کسی سے نہیں بلکہ اپنے اردگرد چلتے پھرتے کرداروں سے سیکھا۔

اسی لئے ان کے ڈراموں کے کردار آج بھی دیکھنے والوںکے ذہن کے دریچوں میں موجود ہیں۔ منو بھائی کو ہم اپنے معاشرے کا ضمیر بھی کہتے تھے، کیونکہ وہ نہ صرف اپنے کالموںکے ذریعے سماج میںپائی جانے والی برائیوںپر لعنت ملامت کرتے تھے بلکہ اپنے ڈراموں سے معاشرے کی زبوں حالی کو بھی سامنے لاتے تھے ۔

ڈرامہ سیریل سونا چاند ی کے علاوہ طویل دورانئے کے کھیل ’’خوبصورت‘‘ اور ’’گمشدہ ‘‘ آج بھی لوگوںکو یاد ہیں۔ سلسلے وا ر کھیل ’’ آشیانہ ‘‘ میں وہ خاندانی اقدار سے جڑے مسائل کو سامنے لائے تو مشہور ڈرامہ ’’دشت ‘‘ کے ذریعے انھوں نے بلوچستان کی صحرائی ثقافت کو اپنے قلم کی زینت بنایا۔ اس کے علاوہ منو بھائی نے مشہور ڈارمہ ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی دی، یہ ڈرامہ دیہاتی منظر نگاری اور کردار نگاری کے حوالے سے ایک سنگ میل گردانا جاتاہے۔

ایک بار ٹی وی پروڈیوسر عارف وقار نے منو بھائی سے ایک سلسلہ وار کھیل لکھنے کی فرمائش تو وہ فوراً مان گئے لیکن ساتھ ہی کچھ شرائط بھی رکھ دیںکہ اس ڈرامے میں کوئی گلیمر نہیںہوگا، نہ ہی محل نما گھریا بنگلہ، نہ لمبی لمبی کاریں اور نہ منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے والے الٹراماڈرن کردار بلکہ یہ کہانی گلی محلے کے حقیقی کرداروں کی زبانی پیش کی جائے گی۔ اس کےبعد ناظرین منو بھائی کے لکھےپنجابی کھیل ’’کی جاناں میںکون‘‘ کو دیکھ کر اش اش کر اُٹھے۔

ابتدائی زندگی اور کیریئر

منو بھائی کے دادا میاں غلام حیدر قریشی مسجد کے امام تھے اور گزر بسر کے لیے کتابت اور کتابوں کی جِلد سازی کیا کرتے تھے۔ منوبھائی نے اپنے دادا سے ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنوں، مرزا صاحباں، الف لیلیٰ کی کہانیاں اور یوسف زلیخا کے قصے سنے، غالباً اسی نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارا۔ منوبھائی کے والد عظیم قریشی پاکستان ریلوے میںملازم تھے۔ پنجابی کے مشہور شاعر شریف کنجاہی منو بھائی کے ماموں تھے۔

انھوں نے عام بچوں کی نسبت بڑی عمر میں بولنا شروع کیا اور بولنے کے دوران لکنت بھی ہوتی تھی۔ اپنی شخصیت میں موجود اس خلا کو پُر کرنے کے لیے منوبھائی نے دوستوں میں خاموش رہنے کے بجائے زیادہ بولنا شروع کردیا۔ وہ اپنے دوستوں کو یہ موقع ہی نہیں دیتے تھے کہ وہ ان پر ہنسیں بلکہ وہ انہیں اپنی چرب زبانی کے زور تلے دبائے رکھتے تھے۔ وہ شعر اور لطیفے یاد کرکے اپنے دوستوں کی محفل میں سناتے اور انہیں محظوظ کرتے تھے۔

1947ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد منو بھائی نے گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک ) کا رُخ کیا۔ وہاں انہیں غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے اساتذہ کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ یہیں سے انہوں نے پنجابی شاعری میں طبع آزمائی شروع کی ۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد منوبھائی نے 1950ء کی دہائی کے اواخر میں راولپنڈی کے ایک اخبار میں50روپے ماہوار پر ملازمت اختیار کی اور اسی اخبار میں’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے نام سے کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ معروف شاعرودانشور احمد ندیم قاسمی نے انہیں قلمی نام ’’منو بھائی‘ ‘ عطا کیا تھا، جس سے وہ ساری زندگی معروف رہے۔ قاسمی صاحب کے زیر سایہ منو بھائی نے صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ ’’ گریبان ‘‘ کے نام سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔

مختلف اخبارات میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے بعد منو بھائی جنگ لاہور سے وابستہ ہوئے اور تادم مرگ جنگ میں ’’ گریبان ‘‘ کے نام سے کالم لکھتے رہے۔ غربت، عدم مساوات، خواتین کا استحصال، عام آدمی کے مسائل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری منو بھائی کے کالموں کے موضوعات رہے۔ انھیں ڈرامہ نویسی کی جانب لانے والے اسلم اظہر تھے ، جن کے لیے انھوں نے 1965ء میں جنگ کے موضوع پر ڈرا مہ ’’ پل شیر خان‘‘ لکھا تھا۔

انسانیت کی خدمت

انسانیت سے محبت کرنے والے منوبھائی نے تھیلے سیمیا، ہیمو فیلیا اور بلڈ کینسر جیسے امراض میں بچوں کے لیے اپنی زندگی کا آخری حصہ وقف کر رکھا تھا۔ انھوں نے تھیلے سیمیا اور ہیموفیلیا میں مبتلا بچوں کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا جو آج بھی اس بیماری میں مبتلا بچوں کی نگہداشت کررہا ہے۔

کالم نگاری و شاعری

منو بھائی علمی، ادبی اور تخلیقی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک سچے، کھرے اور سادہ انسان بھی تھے۔ وہ یاروںکے یار اور دوسروں سے محبت کرنے والے تھے۔ سماج کا درد رکھنے والے منو بھائی نے روزنامہ جنگ میںاپنےفکاہیہ کالم ’’گریبان‘‘ کے ذریعےمعاشرے کی برائیوں اور لوگوںکے رویّوں پر اپنی روایتی شگفتگی سے طنز کے تیر برسائے۔ کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ انھوںنے اپنےاردگرد جو کچھ دیکھا اسے پنجابی شاعری میںسمودیا۔

ان کی نظم ’’ اجے قیامت نئیں آئی ‘‘ میںاپنے ارد گرد ہونےو الی اَنہونیوںپر منو بھائی کے مخصوص انداز میںطنز اور نشتر برستے محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ دراصل منو بھائی اس دشت کی سیاحی میں طویل جدوجہد اور سیاست کے گہرے مشاہدات کو اپنی شاعری ، کالم نگاری اور تمثیل نگاری میں شامل کیے بغیر نہ رہ سکے، اسی لئے ان کا لکھا معتبر ٹھہرا۔ انہوں نے غیر ملکی شاعری کے تراجم کو بھی اپنی مہارت سے حسن بخشا۔

تصانیف

ان کی مشہور تصانیف میں’’اجے قیامت نئیں آئی ( پنجابی شاعری کا مجموعہ)، جنگل اداس ہے ( منتخب کالموںکا مجموعہ)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں اور انسانی منظر نامہ ( تراجم ) شامل ہیں۔ 2007ء میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ منو بھائی 19جنوری 2018ء کو لاہور میں 84سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انھیں ان کی نمایاں ادبی خدمات پر 23 مارچ 2018ء کو بعد از مرگ ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔

نمونہ کلام

اوہ وی خوب دیہاڑے سن

بھکھ لگدی سی

منگ لیندے ساں

مل جاندا سی

کھا لیندے ساں

نئیں سی ملدا

تے رو پیندے ساں

روندے روندے سو رہندے ساں

ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں

بھکھ لگدی اے

منگ نئیں سکدے

ملدا اے تے

کھا نئیں سکدے

نئیں ملدا تے

رو نئیں سکدے

نہ روئیے تے

سو نئیں سکدے