خدمتِ خلق اور مظلوموں کی دادرسی

May 20, 2022

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اسلام اللہ تعالیٰ کا عظیم دین ہے ، یہ کوئی نیا دین نہیں ، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام ہی کے وقت سے یہ دین چلا آرہا ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے اسی نظامِ حیات اور طریقۂ زندگی کو پسند فرمایا ہے ، قرآن کا ارشاد ہے : اللہ کے نزدیک جو دین معتبر و مقبول ہے ،وہ صرف اسلام ہے ۔ (سورۂ آل عمران: ۱۹) اس دین کو آخری اور مکمل صورت میں محمد رسول اللہ ﷺپر نازل فرمایا گیا ، اب جو لوگ اس سچے دین پر ایمان لے آئیں ،وہ سب گویا ایک خاندان کے افراد ہیں اور ایمان کے رشتے نے ان کو جوڑ رکھا ہے۔

یہ ایک آفاقی اور عالمگیر خاندان ہے ، جیسے پانی کے ایک قطرے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ، ہوا اُسے اُڑا لے جاتی ہے اور دُھوپ اُسے لمحوں میں جلا کر رکھ دیتی ہے ، لیکن یہی قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے تو وہ سمندر کی وسعت و طاقت کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور ایک ناقابل تسخیر طاقت قرار پاتا ہے ، اسی طرح جب کوئی انسان ایمان لاتا ہے ، تو وہ سمندر سے بھی زیادہ وسیع اور طاقتور خاندان کا ایک حصہ بن جاتا ہے ، علاقے اور جغرافیائی سرحدیں ، برادریاں اور زبانیں یہ سب انسانی تقسیم کا باعث ہیں ، اسلام کی نگاہ میں پوری انسانیت صرف دو گروہ میں بٹی ہوئی ہے : ایک وہ جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ابدی سچائی پر یقین رکھتا ہو ، یہ قرآن کی زبان میں مسلم ہے ، دوسرے وہ جو اس سچائی کے منکر ہیں ، جنہیں قرآن کافر سے تعبیر کرتا ہے ۔

رسول اللہ ﷺنے باہمی رشتۂ محبت کو کس خوبصورتی کے ساتھ بیان فرمایا ، آپ ﷺنے فرمایا :تم اہل ایمان کو باہمی رحم دلی او رمحبت و مودت میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے کہ اگر ایک عضو کو بھی تکلیف ہو تو اس کے لئے پورا جسم بےخوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔( بخاری ، عن نعمان بن بشیر ، حدیث نمبر : ۶۰۱۱)

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر اس کو عملی مثال کے ذریعے سمجھایا : ’’المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً ‘‘ ۔(بخاری ، حدیث نمبر : ۶۲۰۶)یہ درد و محبت کا رشتہ ہے ، دنیا میں کہیں کسی مسلمان پر کوئی آزمائش آئے ، ہرمسلمان کو اس پر تڑپ اُٹھنا چاہئے ، ایک مسلمان کو کوئی زخم لگے تو دوسرا اپنے سینے پر اس کی کسک محسوس کرے ، ایک مسلمان پر کوئی پتھر پھینکا جائے ، تو دوسرے کو اپنے کلیجے پر اس کی چوٹ محسوس ہو۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا : جس نے کسی مسلمان سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دُور کیا تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں مصیبت کو دُور فرمائے گا ، جس نے کسی تنگ دست پر آسانی پیدا کی ، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے ساتھ آسانی فرمائے گا ، جو کسی مسلمان کی غلطی کو چھپائے اللہ دنیا و آخرت میں اس کی ستاری فرمائےگا ، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد کی طرف متوجہ رہتا ہے۔(ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۴۹۴۶)

رسول اللہ ﷺنے حاجت مندوں کی اعانت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے، جسے سن کر ہر شخص کا دل پسیج جائے ، آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائےگا ، اے ابن آدم ! میں بیمار ہوا تونے میری عیادت نہیں کی ، بندہ عرض کرے گا ، پرور دگار ! میں کیسے آپ کی عیادت کر سکتا تھا ، آپ تو خود سارے جہان کے رب ہیں ، ارشاد ہوگا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا ، تونے اس کی عیادت نہیں کی ، اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے، پھر ارشاد ہوگا : اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا اور تونے مجھے نہیں کھلا یا ، بندہ عرض کرےگا : میرے پرور دگار ! آپ تو تمام عالم کے رب ہیں ، آپ کو میں کیوں کر کھانا کھلاتا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرا فلاں بندہ تجھ سے کھانے کا طلب گار ہوا تھا ،تو نے اسے نہیں کھلایا ، اگر تو اسے کھلاتا تو مجھے وہاں موجود پاتا ، پھر اللہ فرمائے گا : اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا اور تونے مجھے نہیں دیا ، بندہ ملتجی ہوگا ! میرے پروردگار ! آپ تو کائنات کے رب ہیں ، میں آپ کو کس طرح پلاتا ، فرمانِ باری ہوگا ، تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا ، تونے اسے پانی نہیں دیا ، اگر تو اسے پلاتا تو مجھے وہاں موجود پاتا۔( مسلم ، حدیث نمبر : ۶۵۵۶) — گویا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی مدد کرنا براہِ راست اُسے اللہ کے حضور پہنچانا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں مخلوق کی خدمت اور بندوں کی حاجت روائی کی کیا اہمیت ہے ؟

انسان کو سب سے زیادہ فکر اور خواہش درازیٔ عمر اور خوش معاشی کی ہوتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں وسعت اور عمر میں برکت ہو تو اسے صلہ رحمی کرنا چاہئے ۔( بخاری ، حدیث نمبر : ۵۹۷۵)جو لوگ آخرت کی زندگی اور اللہ تعالیٰ کے نظامِ غیبی پر یقین رکھتے ہیں ، ان کے لئے یہ یقیناً مژدہ ٔجانفزا ہے۔

ایک اہم مسئلہ یتیم ہونے والے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی کفالت کا ہے، اس سلسلے میں بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ مسلمان حسب ِاستطاعت ایک دو بچوں کی کفالت قبول کرلے اور اپنے خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے ان کی پرورش کرے، خاص کر جو لوگ صاحب اولاد نہیں ہیں ، ان کے لئے یہ نہایت ہی بہتر صورت ہے ، یہ ایک دو یتیم لڑکے یا لڑکی کی کفالت انشاء اللہ ان کے لئے برکت ہی ثابت ہوگی اور رسول اللہ ﷺ کی وہ سنت بھی ادا ہو سکے گی ، جو یتیم کی کفالت کے سلسلے میں آپ ﷺنے قائم فرمائی تھی ، کئی ازواجِ مطہراتؓ جو آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں ، وہ اپنے ساتھ یتیم بچوں کو بھی لے کر آئیںاور آپ ﷺ نے انھیں بوجھ نہیں، بلکہ اللہ کی ایک نعمت سمجھ کر قبول فرمایا، آپ ﷺنے اپنی انگشت ِشہادت اوردرمیانی انگلی کو ملا کر فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ۔(بخاری ، حدیث نمبر : ۶۰۰۰۵) مومن کے لئے یہ کس قدر مسرور کن خوشخبری ہے ! اور جو لوگ دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت سے محروم ہیں ، ان کے لئے آخرت میں اس سعادت کو حاصل کرنے کا کتنا آسان نسخہ ہے ! — یتیموں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا سے محروم بچو ںکے لئے یتیم خانے بھی قائم کرنے ہوں گے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیاں اجتماعی کفالت کے زیر سایہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔

اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے سلسلے میں ایسی بات ارشاد فرمائی ہے کہ جو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کو بھی پگھلا کر رکھ دے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لوگوں کو یہ سوچ کر ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انھیں اپنے بچوں کے بارے میں کیسے کچھ اندیشے ہوتے ، اس لئے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور درست بات کہنا چاہئے ۔ (سورۃ النساء : ۹۰) — کیسی چونکا دینے والی بات ہے ، کسی کو یہ خبر نہیں کہ اس کے بچوں کی پرورش اس کے ہاتھوں ہوگی ، یا وہ انھیں چھوڑ کر دنیا سے گزر جائے گا اور اگر وہ انھیں چھوڑ کر دنیا سے بلا لیا جائے تو اپنے بے سہارا بچوں کے بارے میں اس کے کیا جذبات واحساسات ہوں گے ؟