سابق حکومت کا بوجھ

May 21, 2022

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
کیونکہ عمران خان حکومت کو بہت تیزی سے فارغ کردیا گیا۔ لہٰذا اپنی مدت مکمل کرنے کے لیے اس کے دلائل مطلوبہ جگہوں پر جگہ نہ بناسکے۔ پچھلے چند ماہ میں اہم اداروں اور سیاسی حکومت کے درمیان چپقلش تو دکھائی دیتی رہی مگر طرفین نے صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ احساس نہ ہونے دیا کہ کسی ایک طرف سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ حکومت کیوں اور کس طرح گئی، اس کی نقشہ کشی سابق وزیراعظم نے کردی بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ انہوں نے اپنی حکومت گرنے کی نہ صرف ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرلی ہے بلکہ یہ تاثر دیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ مواقع پر مقتدرہ کو ممکنہ سازش کی موجودگی سے آگاہ کرتے رہے اور ان کے معتمد وزراء بھی اس معاملے کا حصہ رہے، تاہم عمران خان کی اس گفتگو کا تاحال کوئی جواب نہیں آیا، یہاں بھی مداخلت اور سازش کو جانچنے کے لیے وہی پیمانہ استعمال کیا گیا ہے جو امریکن مداخلت یا سازش کو سچ جاننے کے لیے آج کی حکومت کررہی ہے، پی ٹی آئی کے ملک بھر میں عظیم الشان جلسے یہ ثابت کررہے ہیں کہ عوام کا ایک بہت بڑا ہجوم حکومت گرانے پر اعلیٰ قائدین کا بیانیہ سچ تسلیم کررہے ہیں، جب اس پر تمام کو اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے حوالے سے امریکن مراسلہ مداخلت کا مرتکب ہوا ہے تو ایک بڑی قوت کی طرف سے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے اس عمل کو رد کرنا ایک خودار قوم کے لیے ضروری ہے۔ چہ جائیکہ اس پر عوام میں کوئی بات ہی نہ کی جائے، جیسا کہ پی ڈی ایم حکومت کررہی ہے، اس لیے پی ٹی آئی کا احتجاج بجا ہے اور دیگر جماعتوں کی خاموشی امریکی مدد سے اقتدار میں آنے کا ایک ذریعہ تھا جسے بخوشی قبول کرلیا گیا ہے اور اب حکومت کو اپنے وعدے کہ ہم مہنگائی کم کرکے دکھائیں گے اور افراط زر کو کنٹرول کرلیں گے، پورے کرنے چاہئیں، ناکامی کی صورت میں انتخابات کی طرف بڑھنا ہی عقلمندی ہے، ورنہ لوگ پی ٹی آئی کا بیانیہ کہ پچھلے ایک سال پر پھیلی اپوزیشن کارروائی کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح عمران خان حکومت گرا دی جائے، دل و جان سے تسلیم کرلیں گے۔ یہ بیانیہ پی ٹی آئی قیادت اپنے ساتھ چلنے والے ہجوم کے دلوں میں بٹھا چکی ہے، منطقی طور پر بھی عدم اعتماد کے فوری بعد نئے انتخابات کے لیے اعلان ہوجانا چاہئے تھا، اگرچہ انتخابات منعقد کروانے میں کئی مشکلات ہیں مگر جب تمام لوگ انتخابات کے لیے تیار ہوجائیں تو اتفاق رائے سے مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اسمبلی میں اپوزیشن موجود ہی نہیں، حقیقت میں 14جماعتوں کا یہ اکٹھ پی ٹی آئی کی نسبت انتخابات کے لیے زیادہ تیار ہے، کیونکہ وہ عمران ہٹائو مہم پر کئی ماہ سے جلسے اور مارچ کرتے چلے آرہے ہیں اور اس تجربہ کار ٹیم کے لیے کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنا آسان ہے، خواہ وہ عمران خان کی نالائقیوں کا بوجھ ہی کیوں نہ ہو۔ عمران خان کی جتنی زیادہ نااہلیاں ہوں گی، موجودہ حکومت کے لیے اتنا ہی بہتر ہے، کیا پی ٹی آئی اتنی نااہل تھی کہ اس کا بوجھ لوگ اٹھانے لیے تیار نہیں، مانگے تانگے اسمبلی ممبران کی مدد سے بننے والی سابقہ حکومت کبھی یہ تاثر دینے میں کامیاب نہ ہوسکی کہ وہ ایک مضبوط حکومت ہے، جس کا مکمل کنٹرول وزیراعظم کے پاس تھا، دوسری طرف سابق وزیراعظم مضبوط اعصاب کے شخص ہیں جو دائیں بائیں سے ہونے والی مداخلت سے سمجھوتہ کرتے آگے بڑھتے رہے۔ اپنی زبان کو دانتوں تلے دبائے رکھتے ہوئے انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ وہ ان توقعات پر پورے اتر سکیں جو قوم کے ایک بہت بڑے حصہ نے ان سے جوڑ رکھی ہیں، انہوں نے اپنے منصب سے جڑے معاملات نمٹانے میں جس محنت اور لگن سے کام کاج کی بنیادیں رکھ دی ہیں آنے والے وقتوں میں شاید ہی ایسی مثالیں مل پائیں گی، عمران خان کام کے دھنی ہیں اور انہوں نے اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے نبھائی ہے۔ اپنے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم رکھنا، بڑی طاقتوں سے غیر ضروری طور پر نہ الجھنا (جب تک کہ ملک کو مجبور نہ کردیا گیا ہو) معقول سطح کی کامیاب صنعتی اور زرعی پالیسیاں اور صوبوں میں پائیدار حکومتیں جہاں نہ ہی فارورڈ بلاک بنے اور نہ ہی آئے دن وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے، عمران خان کی حکومت کی ایسی کامیابیاں ہیں جن کا بوجھ اٹھانا کئی دوسری جماعتوں کے لیے ضرور مشکل ہوگا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ گزر گیا ہے مگر 14 جماعتوں کی یہ حکومت تاحال اپنے پائوں نہیں جما سکی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد اس حکومت کا آئینی جواز مزید شک و شبہ کا شکار ہوگیا ہے۔ اس لیے وزیراعظم کو بغیر وقت ضائع کئے اسمبلی توڑ کر عبوری حکومت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنی چاہئے جو تین ماہ میں انتخابات کرا دے اور ملک ایک سمت کی طرف لگ جائے، ہر تین سال بعد حکومتیں تبدیل کرنے سے جمہوریت کو نقصان اور اسٹیبلشمنٹ اور فارغ ہوتے سیاستدانوں کے درمیان بداعتمادیاں پیدا ہوتی ہیں جو ملک کی سیاست کے لیے اچھی نہیں ، ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کے ڈیرے جہاں چاہے ہوں بالآخر سیاست پاکستان ہی میں کرنی ہے، سیاسی دوریاں دشمنیوں میں نہیں بدلنی چاہئیں، آج کے نازک حالات میں نظام کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار میں بیٹھے حکمران اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار کے ساتھ نہ لگائیں بلکہ ایک دوسرے کو راہ دینے سے معاملات کے حل میں آسانیاں پیدا ہوں گی، اس ہفتہ کے اختتام تک اگر حکومت نئے انتخابات کے حوالے سے کوئی معقول اعلان نہیں کرتی کہ الیکشن کب ہوں گے تو عمران خان کی متوقع کال کا وقت مزید قریب آجائے گا۔ حکومت یقیناً پی ٹی آئی مارچ کی تفصیلات سے آگاہ ہوگی، لوگوں کے ایک بڑے اجتماع کو ایک جگہ بٹھائے رکھنا بھی ممکن نہیں اور عمران خان کے لیے اپنی بات منوائے بغیر اسلام آباد سے منتشر ہوجانا بھی ممکن نہیں، حکومت کی عددی اکثریت اور اس کی آئینی نوعیت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں،ان حالات میں پاکستان کے مفاد میں ہے کہ حکومت انتخابات کا ایک قابل قبول فارمولا قوم کے سامنے رکھ دے تاکہ ملک انتشار سے بچ جائے۔ میانہ رو اقدامات قوم پسند کرے گی اور اس کا فائدہ سب کو ہوگا۔