کارل مارکس اور مزدور تحریکیں

May 26, 2022

تحریر:پرویز فتح ..... لیڈز
جنوب مغربی جرمنی کے شہر ٹریر میں 5مئی 1818ء کو پیدا ہونے والے کارل مارکس کے والد ہینرک مارکس ایک وکیل تھے، جنہوں نے یہودی عقیدے کو ترک کر کے عیسائیت اختیار کرلی تھی، کیونکہ اس زمانے میں جرمن حکومت نے یہودیوں پر قانون کے شعبے میں درس و تدریس پر پابندی عائد کررکھی تھی۔ مارکس کا خاندان دولت مند نہ ہونے کے باوجود آرام دہ زندگی گزار رہا تھا اور والدین کی خواہش کے مطابق مارکس نے بون یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ مارکس کی معاشی اور سماجی مسائل سے بھرپور لگن نہ صرف جرمنی کے عوام کی تکلیف دہ بد حالی اور محرومی دیکھ کر جاگی تھی، بلکہ نہایت ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک، برطانیہ اور فرانس کے حالات و واقعات سے بھی اُبھری تھی۔ 1930ء کے آخر میں برطانیہ کے محنت کشوں میں انقلابی تحریک کی لہر اور 1831ء اور 1834ء کی فرانس میں لیونیس سلک ورکرز کی بغاوتوں جیسے واقعات نے 1842ء میں اپنے نکتہ عروج پر پہنچ کر بھرپُور سیاسی کردار ادا کیا۔ اسی وقت سے یورپ کے نہایت ترقی یافتہ ملکوں میں بورژوازی اور پر ولتاریہ، یعنی محنت کشوں میں طبقاتی کشمکش کا واضع اجرا ہو گیا۔ نئے طبقہ یعنی پرولتاریہ کی جدوجہد میں شمولیت نے مارکس کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ نسبتاً نئے سماجی و معاشی مسائل میں گہری دلچسپی لے۔ یوں اُس کی دلچسپی سوشلسٹ ادب میں بڑھی جو ان دنوں برطانیہ اور فرانس میں شائع ہوتا تھا۔ ری انشے زیؤنگ میں کام کرنے، زندگی سے بیباکانہ نپٹنے، جرمنی کے عوام الناس کی مساعی دیکھنے اور دوسرے ملکوں میں چلنے والی مزدور تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کی وجہ سے نو جوان مارکس پر والہانہ اثرات مرتب ہوئے۔ کارل مارکس اور مارکسزم کی آمد انسانیت کی تاریخ میں ایک انقلابی دور ہے۔ مارکسزم نے انسانی تاریخ کی ایک فلسفیانہ تفہیم اور انسانوں کو استحصال کی زنجیروں سے آزاد کرانے اور ضروری انسانی قدروں کا ادراک کرنے کا عملی طریقہ فراہم کیا۔ مارکس نے جدلیاتی مادیت کی روشنی میں تاریخ اور اس کی تبدیلی کے عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے معاشی استحصال اور قدرِ زائد کے بارے میں پائے جانے والے غلط تصورات اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غیر انسانی رویوں کی واضع نشان دہی کی، اور اُس نے نہ صرف اس کا وسیع تر تجزیہ کیا، بلکہ انسانوں کو معاشی غلامی اور استحصال سے نجات دلانے کا قابلِ عمل طریقہ بھی بتایا۔ مارکسزم کا جامع دائرہ کار، جو نہ صرف پیداوار کی مادیت پسند بنیادوں پر محیط ہے، بلکہ زندگی کی دیگر باریک جہتوں کو بھی سمیٹتا ہے، اور اسے انسانی شعور کے سماجی، معاشی اور ثقافتی پہلوؤں کو سمجھنے اور تبدیل کرنے کا ایک جامع طریقہ بناتا ہے۔ اِس لیے مارکسزم کو زندگی کی معاشی جہتوں کے محض مطالعہ تک محدود کرنا، یا صرف معیشت کے مطالعہ تک محدُود کرنے کا تصور صریحا´غلط ہے۔ بلاشعبہ مارکس نے زندگی کے باریک پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا، جیسے جمالیات، اخلاقیات، موسیقی، وغیرہ۔ مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب داس کیپیٹل کی پہلی جلد 14ستمبر 1867ء کو شائع کی، جس میں انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور اس نظام کی اپنی تباہی کی طرف لامحدود رجحانات کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا۔ داس کیپیٹل کی جلد دوم 1885ء میں اور جلد سوم 1894ء میں شائع ہوئی، جنہیں فریڈرک اینگلز نے مارکس کے مرتب کردہ نوٹس کی بنیاد پر شائع کیا تھا۔ مارکس نے اپنے مادی نکتۂ نظر کی اساس پر اس خیال کو فروغ دیا کہ نظریہ عوام کو اسی وقت اپنی گرفت میں لے سکتا ہے، جب وہ ان کی واقعی ضروریات اور بنیادی تضادات کی عکاسی کرے۔ اس نے ثابت کیا کہ محنت کش ایک ایسا طبقہ ہے جو اپنی صورتِ حال کی بنا پر ترقی پسند فلسفے کے انقلابی نظریہ کا علمبردار ہو سکتا ہے، اور اسے ہونا بھی چاہیے۔ مارکس کہتا تھا کہ جیسا کہ فلسفہ پرولتاریہ، یعنی مزدور طبقے کے وجود میں اپنا مادی ہتھیار پا لیتا ہے، اسی طرح مزدور طبقے کو فلسفے میں اپنا روحانی ہتھیار مل جاتا ہے۔ اس طرح مارکس نے مزدور طبقے کے عالمی تاریخی کردار کا عظیم خیال پہلی بار تشکیل دیا۔ انسانیت کی فلاح کی آواز جو مارکس نے اس وقت اُٹھائی جب ابھی وہ سکول کا طالب علم تھا، اب اُس آواز نے نہایت مستحکم سرگرم اور انقلابی کردار کا روپ دھار لیا تھا۔ اِس طرح مارکس کے نزدیک انسانیت کی خدمت کا مقصد مزدور طبقے کی خدمت قرار پایا، جو نہایت ترقی یافتہ اور اصولی طور پر انقلابی طبقہ تھا، جو خود کو اور تمام بنی نوعِ انسان کو جبر اور استحصال سے نجات دلانے کا اہل تھا۔ مارکس کو اِس بات سے پوری آگاہی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کے طرز زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ مارکس جب یہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام متوسط طبقے کو ایک ایسی صورتحال کی جانب دھکیل دے گا جہاں وہ سخت دباؤ کے شکار مزدور طبقے کی طرح کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ مارکس نے جو پیش گوئی کی تھی ہم آج کے دور میں پاکستان اور دیگر ممالک میں ایسی ہی صورتحال سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج اکیسیویں صدی کے مارکیٹ اکانومی کی بنیاد پر چلنے والے معاشروں میں بھی، جہاں بڑہتی ہوئی معاشی عدم مساوات نے عام لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، مارکس کا فلسفہ اور تجزیے قابلِ عمل سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپیٹل اِس وقت دُنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کُتب میں شامل ہے، اور جب بھی دُنیا میں معاشی بحران ابھرتا ہے، یہ کتاب شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے۔ مارکس نے جہاں جاگیرداری کی غلامی کے سلسلے میں انسانوں پر سرمایہ داری کے آزادانہ اثرات کو تسلیم کیا، وہیں اس نے استحصالی سرمایہ دارانہ ڈھانچے اور اس سے انسانوں کو پہنچنے والے لامتناہی مصائب کا گہرا تجزیہ کیا ہے۔ آج کے گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھنوّر میں پھنسے معاشروں میں مارکسی تصورات کی متحرک نوعیت اور ان کا جدلیاتی کردار انسانیت کے لیے دیرپا اہمیت کا حامل ہے۔ آج سرمایہ دارانہ معیشت اور مارکیٹ اکانومی کی استحصالی قوتیں زمین کے وجود کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ سرمایہ داری، جس کا مارکس نے تجزیہ کیا تھا، آج کرونی کیپٹلزم میں تبدیل ہو چکا ہے، جو مزید استحصال کا باعث بن رہا ہے اور سنگین غیر انسانی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مارکس نے سرمایہ داری کی تباہ کن نوعیت کے بارے میں پیشن گوئی کی اور اس نے سائنسی سوشلزم کو متبادل کے طور پر پیش کیا، جِس کا ادراک کرنا ھر ملک کے معروضی حالات کے مطابق وہاں کی انقلابی قوتوں، دانشوروں اور محنت کش طبقات کا کام ہے۔ مارکس کو برِصغیر پر برطانو ی سامراج کے نوآبادیاتی تسلط اور جبر و استحصال کا پوری طرح احساس تھا جِس سے یہاں کے عوام کی اکثریت غربت، افلاس اور بھوک کا شکار ہو چکی تھی۔ جب 1857ء میں برِصغیر میں برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت ہوئی، جِسے ہم 1857ء کی جنگِ آزادی کہتے ہیں، اور یہاں کے عوام آزادی کے حصول کے لیے برطانو ی سامراج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے، تو مارکس نے یہاں کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق اور اُن کے تحفظ کے لیے بھرپُور آواز اُٹھائی۔ برِصغیر پر برطانوی نوآبادیاتی تسلط کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ برِصغیر کے عوام اُس وقت تک اپنی آزادی کا حصول اور غر بت اور افلاس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوں گے جب تک کہ برطانیہ میں محنت کشوں کا راج قائم نہیں ہو جاتا، یا پھر ایسا وقت نہیں آ جاتا کہ یہاں کے عوام خود اتنے باشعور اور طاقتور ہو جائیں کہ وہ نوآبادیاتی غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کے لیے ا تا ر پھینکیں۔ مارکس کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی معاشی نظام اور اُس کے ذرائع پیداوار سماجی ترقی دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو معاشرہ ایک جموُد کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ جموُد ایک بحران کو جنم دیتا ہے جو سماجوں میں بغاوتیں پیدا کرتا ہے۔ یہیں سے وہ انقلاب ابھرتے ہیں جو اُس معاشرے کی معاشی، سماجی اور اقتصادی بنیادوں کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے نیم آزاد ممالک میں، جہاں سامراج کا جدید نوآبادیاتی تسلط اپنی پوری قوت سے مسلط ہو، اور عوام پر مسلط کیا گیا جاگیردارانہ معاشی ڈہانچہ اور بیوروکریسی اُس کی مضبوط اتحادی بنی ہوئی ہو، وہاں قومی آزادی کے تکمیل اور سماجی برابری و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ہی وہ بنیادی نقطہ ہے، جِس پر ایک موثر انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ ایسی ملک گیر عوامی تحریک وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی جدوجہد کو مضبوط بنیادیں فراہم کر سکتی ہے۔ یہاں ایک ایسے فلسفہ اور عمل کی ضرورت ہے جو لوگوں کو قومیت، مذہب، زبان، نسل یا اس طرح کے کسی بھی ابتدائی زمرے کے خطوط پر تقسیم نہ کرے۔ دہشت گردی اور دائیں بازو کی قدامت پسندی، فاشزم کی ابھرتی ہوئی نئی شکلیں، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی ہمیں قرون وسطیٰ کے تاریک دور میں واپس لے جانے کے خطرات ظاہر کرتی ہیں۔ آج کے انقلابیوں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لینن، ماؤ، ہوچن منہ اور کاسترو جیسے مارکسسٹ انقلابیوں نے مارکس کے نظریات کو اپنے معاشروں کے اُن حالات میں ڈھال لیا تھا، جو ان کے انقلابات کی ضروریات کے لیے بہترین تھے۔ مارکسی اصولوں کا اطلاق ہر جگہ یکساں نہیں ہو سکتا، کیونکہ مارکسزم، یا سائنسی سوشلزم بذات خود ایک متحرک قوت ہے، جو جگہ اور حالات کے مطابق اطلاق میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔