مجھے آزادی چاہئے

May 27, 2022

نشان دہی…خالد بلوچ
آزادی کا ایک خواب حضرت علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور لاتعداد قربانیوں اور بھاری قیمت کے عوض1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آگیا، گویا آزادی کا سورج طلوع ہوا اور پاکستان کا وجود کرۂ ارض پر نمودار ہوگیا، انسانی لاشوں سے سرخ زمین، ابلتا ہوا ہوا جابجا خون اور اس خون سے نہلائی ہوئی ارض وطن جس کے ماتھے پر سبز پرچم لہرا دیا گیا، لاشوں سے لدی ٹرینیں خاک اور خون میں لتھڑی ’’ادھ جلی‘‘ تعفن زدہ لیکن ان تعفن زدہ لاشوں سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھولے بھی، گویا دھرتی کو گویا معطر کررہے تھے۔ مائیں، جوان بیٹوں، بیٹیوں کو پیچھے بہت پیچھے چھوڑ آئی تھیں، گویا کون پہنچا اور کون بچھڑ گیا اس آزادی کے سفر میں، سعادت منٹو کا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ یاد آجاتا ہے، رہی آزادی کے سفر میں ایک نوجوان خوبرو خوبصورت دراز قد لڑکی جوکہ اپنی جوانی کی پہلی سیڑھی بھی مشکل سے چڑھی ہوگی، آزادی کے اس قافلے سے بچھڑ گئی اور سکھوں کے ایک جتھے کے ہتھے چڑھ گئی اور سکھوں کی کرپانوں نے اس کے معصوم اور نازک بدن میں ہزاروں دراڑیں ڈال دیں، آواز آئی بلونت کور دروازہ کھول جلدی ، دروازہ کھلتا ہے اور بلونت کور اپنے کھسم سے پوچھتی ہے یہ کون ہے جسے کاندھوں میں اٹھایا ہوا ہے، سکھ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ یہ موسلی ہمارے ہتھے چڑھ گئی تھی اور دیکھ اپنی آخری سانسوں میں ہے، وہ اسے چارپائی پر لٹا دیتا ہے اور پھر اپنی کرپان اس کے ابھرے ہوئے پستانوں کے بیچ اتار دیتا ہے اور شاید اس کی نفرت کی آگ کا الائو ابھی بھی ٹھنڈا نہ ہوا ہوگا، اس نے اس کے خون آلودہ کپڑوں کو اس کے ٹھنڈے اور مردہ جسم سے آزاد کردیا اور وہ بھوکے گدھ کی طرح اس کے بدن کو نوچنے لگا، وہ ایک مردہ جسم سے جنسی لذتیں حاصل کررہا تھا کہ بلونت کور چونکہ ایک عورت تھی اور حوا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے بھیانک جنسی کھیل اسے منظور نہیں تھا پھر بلونت کور نے اپنے خاوند ہی کی کرپان اس کے بدن میں اتارکر اسے بھی ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کردیا۔ ذرا ایک لمحہ کے لیے سوچیں اور محسوس کریں کہ کتنی قربانیوں کے بعد پاکستان کو حاصل کیا گیا ، یہ تو دھرتی کی بیٹی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے اور بدقسمت وقت کہ ہم آزاد ہوکر بھی غلامی درغلامی میں دھنستے چلے گئے اور معلوم ہوا کہ ہم پہلے برطانوی راج کے غلام تھے اور اب امریکی غلام بن چکے ہیں ،پہلے سنتے تھے کہ22خاندانوں کے ہاتھ پوری قوم یرغمال بنالی گئی ہے اور بس ان ہی کا راج چل رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عمر کا آدھا حصہ مارشل لاء کھا گیا اور آدھا حصہ امریکن غلاموں، مطلب سیاست دانوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا، اس ملک کے ساتھ باریاں لی گئیں،ایک بار ایک مرد مجاہد ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں پاکستان کو غلامی سے آزاد کروانے کے لیے میدان عمل میں اترا، وہ قوم کے پائوں سے غلام کی زنجیریں اتروانا چاہتا تھا، وہ آزادی کا متوالا تھا اور پھر کیا ہوا، اسے اس کو سزا دی گئی اور اس کا جوڈیشل قتل کروا دیا گیا،وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گیا پھر میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کردیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو شہید کرواکر بھٹو خاندان کو ہمیشہ کے لیے اقتدار سے باہر کردیا گیا اور پیپلز پارٹی کی باگ ڈور آصف علی زرداری کے ہاتھوں سونپ دی گئی۔ ادھر ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا سورج جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں غروب ہوگیا اور ضیاء الحق پاکستان پر امریکن آشیرباد سے قابض ہوگیا اور ضیاء الحق نے جہاں امریکن غلاموں کی ایک فوج سویلین شکل میں پیدا کی۔ وہاں میاں نوازشریف جیسے کردار کو بھی پیدا کیا، ضیاء الحق کے بعد پاکستان کوباضابطہ امریکن غلامی دھکیل دیا گیا اور پھر پاکستان کو فٹ بال بنادیا گیا۔ پیپلز پارٹی آصف زرداری کی حکومت اور اگلی باری ن لیگ میاں نوازشریف دونوں امریکن غلام، اس طرح پاکستان کی قوم ان کے اور امریکن آقائوں کے عذاب بھگتتی رہی، قوم کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی اور دونوں سیاست دانوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا، بھاری ڈالرز کے عوض ڈرون حملوں کے علاوہ پاکستان کے فوجی اڈوں کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا، ڈرون حملوں سے سیکڑوں بے گناہوں کو قتل کیا جاتا رہا اور پاکستان کو امریکن آگ میں جھونک دیا گیا جس سے تقریباً80 ہزار سے زیادہ پاکستان کے فوجی اور سویلینزکی جانیں گئیں اور اربوں ڈالرز پاکستان کے اس میں جھونکے گئے۔ لوڈشیڈنگ، خارجہ پالیسی، بھوک، تنگدستی، بیماری، جہالت اور بیروزگاری پاکستانی غلام قوم کا مقدر بن گئی، کوئی راستہ نہیں بچا تو پاکستان کے کرکٹر عمران خان نے سیاست میں انٹری ڈالی اور ان کی22سالہ جدوجہد کے بعد2018ء میں پاکستان کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں آگیا مگر پاکستان کی دونوں بڑی جماعتیں اور مولانا فضل الرحمن جن کی شہرت کوئی اچھی نہیں ہے اور وہ مذہبی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہیں، ان سمیت پاکستان کی چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتوں جن پر نیب میں کیسزز چل رہے تھے، وہ اکٹھے ہوکر PDM کےنام سےوزیراعظم عمران خان کے خلاف صف آرا ہوگئے اور ساڑھے تین سال تک پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ان کے خلاف تحریک جاری رہی جب کہ وزیراعظم عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح امریکن تسلط سے نکلنے اور ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی کی بات کی تو امریکن حکومت نے ان کی حکومت کو گرانے کی سازش کا آغاز کردیا، امریکہ نے پاکستان کے سیاست دانوں اور اداروں، میڈیا کے ذریعے پاکستان میں عدم اعتماد لانے کا منصونہ بنایا، اس کی دوسری وجہ عمران خان کا دورہ روس تھا۔اس طرح اپریل2022ء کے پہلے ہفتے میں امریکن سازش کامیاب ہوگئی اور بدقسمتی وقت پاکستان ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگیا اور موجودہ وزیراعظم جوکہ خود بھی اربوں کے مبینہ فراڈ میں ملوث ہے اور ضمانت پر ہیں، نے پوری قوم کو پیغام دیا کہ آپ بھکاری قوم ہیں او ربھکاریوں اور غلاموں کی کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ گویا پیغام تھا کہ امریکن غلامی ہی پاکستان کے مفاد میں ہے، بہرحال اس طرح پاکستان آج پھر ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جس کا ہر راستہ غلامی یا پھر فوجی انقلاب کی طرف جاتا نظر آرہا ہے ایک بار پھر پاکستان کے عوام اور امریکن غلام آمنے سامنے کھڑے ہیں، کیا ہوگا، ادارے جیت جائیں گے، امریکہ جیت جائے گا یا پھر پاکستان کے عوام چوک چوراہے پر بے بسی کی تصویر بنے کہہ رہے ہوں گے کہ مجھے کسی دشمن سے نہیں، اپنوں سے بچالو، میرے پائوں میں پڑی ان زنجیروں کو کون اتارے گا، 75سال بعد ایک بار پھر وہ آزادی کا خواب دیکھ رہی ہوگی، کیا ہمیں پھر آزاد ہونا ہے، امریکہ سے یا پھر امریکی گماشتوں سے لیکن کب ایسا ہوگا، اور کون کرے گا۔