وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا

June 22, 2022

میری نظر میں دنیا کی سب سے حسین اور طاقتور شے سچائی ہے۔ سیاستدانوں کی دانشوروانہ تقریروں کے سامنے توتلی زبان میں بولا جانے والا معصوم بچوں کا سچ دلوں پر زیادہ اثر کرتا ہے:

سارے شہر میں صرف یہی تو سچے لگتے ہیں

چھوٹے چھوٹے بچے مجھ کو اچھے لگتے ہیں

میں نے شاعری کا آغاز بچپن میں کیا تھا میری شاعری دانشوروں کی آوازوں کے درمیان ایک معصوم بچے کی آواز کی طرح تھی جو اہل دل تھے وہ میری شاعری سے متاثر ہورہے اور میری حوصلہ افزائی بھی کررہے تھے میں نے آج تک اپنے اندر کے بچے کو مرنے نہیں دیا، مجھے ڈر ہے جس دن وہ مر جائے گا تو میرے لہجے کی سادگی اور بے ساختہ پن بھی مرجائے گا میری شاعری میرے اندر کی سچائی ہے میری تخلیقی تنہائی جس کا تحفظ کرتی ہے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میری ساری زندگی بس اتنی سی ہے:

کتنی مختصر عارف میری بھی کہانی ہے

کھوگیا ہے اک بچہ رات کے اندھیرے میں

اس رات کے اندھیرےمیں جگنو تتلی اور پھولوں کے خواب لئے اپنی زندگی کےتجربوں اور مشاہدوں کو شعروں کا روپ دیتا ہوں میری ذات اور کائنات کے دکھ اب ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہیں کیونکہ میں نے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں کے ساتھ مطالعے کو بھی اپنی سوچ کی بنیاد بنایا ہے۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کی حقیقتوں کودیکھا اور محسوس کیا ہے

یہ ٹھیک ہے کہ ہر اک شے نہیں پسند تمہیں

مگر نگاہ میں ذوق مشاہدہ رکھو

شاید اسی سچائی کے سبب اس شہر کے اہم لکھنے والوں نے میرے ابتدائی دور سے ہی میری حوصلہ افزائی کی ان لوگوں کے ذکر کے بغیر میرا اور میری شاعری کا ذکر ادھورا سمجھا جائے گا۔ میری حوصلہ افزائی کرنے والے ایک اہل دل تھے اطہر نفیس وہ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی۔ روزنامہ جنگ میں میرا کلام سب سے پہلے انہوں نے ہی شائع کیا تھا اطہر نفیس کی محبتوں اور شفقتوں کا ایک واقعہ میں کبھی نہیں بھول سکتا اس دور میں لانڈھی میں بڑے یادگار طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے جن میں عزیز حمیدی، جوہر سعیدی اور عاشق کیرانوی کی محبتیں میری شرکت کا سبب تھیں وہ مشاعرے مہینوں ادبی حلقے میں موضوع گفتگو بناکرتے تھے کہ کس شاعر نے مصرع پر کیا گراں لگائی، کن کن شعرا کے مصرعے آپس میں ٹکرائے۔

ان مشاعروں میں شاعر کی انفرادیت بھی سامنے آجاتی تھی ایک مشاعرے میں مصرعہ طرح دی گئی ’’ خشک پتا ہوں میں اپنی شاخ سے ٹوٹا ہوا‘‘ مشاعرہ ہفتے کی رات کو ہوا کرتا تھا جو اکثر فجر تک جاری رہتا میں نے اس طرح میں غزل کہی اور سب سے پہلے اطہر نفیس کو دکھائی اور کہا کہ غزل اسی اتوار کو شائع کردیں کیونکہ ہفتے کی رات مشاعرے کے بعدصبح لوگوں تک میری غزل پہنچ جائے اور انہیں پتہ چل جائے کہ طرحی مشاعرے میں بھی میری غزل سب سے الگ تھی۔

اطہر نفیس نے کہا کہ لاپی تو تیار ہے لیکن پھر بھی میں کچھ کرتا ہوں اس مشاعرے میں سب سے کامیاب غزل تو بزرگ شاعر بے چین بھرتپوری کی تھی انہوں نے مصرعہ پرگرہ تو نہیں لگائی تھی پھر بھی وہ اس مشاعرے کے کامیاب شاعر تھے ان کی غزل کا مطلع مجھے اب بھی یاد ہے:

تھک کے آخر سوگیا میں حال دل کہتا ہوا

وہ یہی کہتے رہے پھر کیا ہوا پھر کیا ہوا

میں نے مصرعہ پر گرہ لگائی تھی جو کچھ یوں تھی

کون جانے اب کہاں پہنچوں گا میں اڑتا ہوا

خشک پتا ہوں میں اپنی شاخ سے ٹوٹا ہوا

اس مشاعرے میں زیادہ تر بزرگ شعرا تھے نوجوانوں میں میرے علاوہ سلیم کوثر تھا اس نے بھی اچھی غزل کہی تھی لیکن نہ جانے کیوں اس نے وہ غزل پھر کسی مشاعرے میں پڑھی نہ کہیں شائع کروائی اور نہ ہی اپنے کسی مجموعے میں شامل کی۔ میری غزل دوسرے دن جنگ میں شائع ہوئی بعد میں مصرعہ طرح والا شعر نکال کرمیں نے وہ غزل اپنے مجموعے میں بھی شائع کی۔مشہور موسیقار ناشاد کے صاحبزادے شاہد ناشاد نے اس کی دھن بنائی اور گلوکار شبیر حسین نے اسے گایا جس کا مطلع تھا:

چھوڑ اب ماضی کے قصے جو ہوا اچھا ہوا

میں تجھے اپنا سمجھتا تھا بڑا دھوکہ ہوا

اطہر نفیس کوبھی یہ غزل بہت پسند تھی کیونکہ وہ بھی اہل دل تھے اور ہجروفراق کے کرب سے بھی آشنا تھے ان کی شاعری دل کے نازک جذبوں کی شاعری تھی اسی لئے تو انہوں نے کہا تھا کہ:

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال سنائیں کیا

فریدہ خانم نے ان کے دل کی آواز میں اپنی سریلی آواز ملاکر اس غزل کو دوآتشہ کردیا۔ اطہر نفیس کا تعلق علی گڑھ سے تھا وہ علی گڑھ تہذیب کے نمائندہ تھے۔ ہجرت کے دکھ کے ساتھ انہوں نے وہ دکھ بھی سہا تھا جس کا اظہار ان کی شاعری میں ہوتا ہے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی ساری زندگی اپنے دکھوں اور اپنی شاعری کے ساتھ گزاردی اس اکیلے پن کا اظہار ان کے اس شعر میں ملتا ہے:

اکیلا ہوں بھری دنیا میں یارو

یہ میرے عہد کا اک سانحہ ہے

ان کا یہ شعر تو مجھے اپنے مزاج کے قریب محسوس ہوتا ہے شاید اسی لئے مجھے بھی بہت پسند ہے:

بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن

جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے

اطہر نفیس21 نومبر 1980 کو ہم سے بچھڑگئے ان کا صرف ایک شعری مجموعہ کلام، کے نام سے1975میں احمد ندیم قاسمی نے شائع کیا تھا جس کی تعارفی تقریب غالب لائبریری میں منعقد ہوئی تھی اطہر نفیس آج ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی شاعری آج بھی ہمارے دلوں میں بسیرا کرتی ہےذیل میں ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

خود اپنے ہی باطن سے ابھرتا ہے وہ موسم

جورنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر

……٭…٭…٭……

اطہر تم نے عشق کیا ہے کچھ تم ہی کہو کیا حال ہوا

کوئی نیا احساس ملایا سب جیسا احوال ہوا

……٭…٭…٭……

بہت مشہور تھے زندہ دلی میں

مگر دیکھو کہ اب کیا ہوگئے