چاند سی ماہ طلعت، اردو کے چاند گوپی چند

June 26, 2022

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
جون 2006ء کی عالمی اردو کانفرنس ہمارے ذہن پر اور دل کے نہاںخانوںمیںاجالے کی طرح ہے اسے ہم ماضی بعید اور ماضی قریب میںنہیں دیکھتے،زندگی کے حسین واقعات و یاد کی طرحخوشگوار شاندار قیمتی اثاثے کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ عالمی اردو کانفرنس یوں تو امریکہ و کینیڈا میں 2004ء اور 2005ء میںہو چکی تھی مگر 2006ء میںکانفرنس کے کرتا دھرتائوں نے رضا علی عابدی کے بھرپور تعاون سے یہ لندن میں منعقدکی۔ بی بی سی اردو سروس کے منجھے ہوئے براڈکاسٹر، کئی کتابوںکے تخلیق کار، بچوں اور بڑوں کے عظیم ادب نواز اور ایک چلتے پھرتے ادبی اکیڈمی سی حیثیت کے حامل رضا علی عابدی ہوں اور پھر کوئی کانفرنس ان کے نام سے اور کام سے نا سجے اور نا جمے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ شخصیت بھرپور ہو تو کسی بھی کام میں رتی بھربھی جھول آجائے ! یہ تو ہو نہیںسکتا۔ آپ سوچ رہے ہوںگے کہ عالمی اردو کانفرنس کا اتنا ذکرکیوں؟ وہ یوں کہ اسی کانفرنس میں رضا علی عابدی صاحب کی بدولت ہی ہم ناچیز کو عظیم ہستیوں کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ کونسی ایسی ہستی نہ تھی جنہیںہم خواب میںبھی دیدار کا تصور کرتے۔ وہ وقت دیدنی تھاجب عظیم ہستیوں کے تعارف نے ہم پر سراسیمگی کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک سے ایک معتبر نام اور ہماری حیراں سی چشم کہ حیرت کدے میںپتلیاں گھماتی رہیں ، کبھی اس ہستی کا نام سن کر گھومتی کبھی دوسری ہستی پر جا ٹھہرتی۔ گوپی چند نارنگ، ظفر اقبال،افتخار عارف، اصغر ندیم سید، ناش مرزا، قاسم پیرزادہ، پروفیسرفتحمحمد ملک، عبدالجلیل پٹھان، ابوالکلام قاسمی، ڈیوڈ میتھیوز، قمر علی عباسی، نیلوفرعباسی، مظفر ممتاز، ف س اعجاز، ہمایوں ظفرزیدی، اکبر حیدرآبادی، شکیلہ رفیق، سید ذوالفقار حسین، ڈاکٹر طارق محمود، صغیر جعفری، نگار مرزا، وکیل انصار، فاروق سالک، باسط کانپوری، نجمہ عثمان، سوہن راہی، پروین لاشاری، عقیل دانش، صفی صدیقی، ارمان نجمی، ضیا الدین شکیب، افتخار قریشی، قیصر زیدی، عذرا رسول، ڈاکٹر جاوید شیخ، انجم خلیل، سید نسیم اختر، مصطفیٰ شہاب اور ماہ طلعت بھی تھیں۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ماہ طلعت جمعرات 23 جون کی صبح آٹھ بجے دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔ اس سے پچھلی جمعرات 16 جون کو ٹھیک آٹھ دن پہلے ہی گوپی چند نارنگ بھی ایک طویل عہد گزار کے آنجہانی ہوئے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جون 2006ء کی عالمی اردو کانفرنس کی اہمیت ہمارے دماغ پر کیوںچھائی رہتی ہے کہ اسی کانفرنس میںآنکھوں دیکھی ہستیاں جنہیںہم عقیدت و احترام سے نظر و تصور میں بٹھائے رکھتے تھے وہی ہستیاں داغ جدائی دے رہی ہیں کہ ہم فلک شگاف آہ و بکاہ سے بھی انہیں واپس نہیں لاسکتے۔ عالمی اردو کانفرنس میںشریک اعلیٰ ادبی شخصیات سے ملنے کی بے قراری نے ہمیں رت جگے میںمبتلا رکھا، بے چین رات طویل تھی صبح کی کرن پھوٹ کر نہ دے رہی تھی۔ آخر وہ وقت بھی آیا جب سبھی سے تعارف ہوا اور اس نمایاں تعارف ماہ طلعت،ماہ سیما، ماہ لقا، ماہ جبیں، رفیقہ حیات، رضا علی عابدی کابھی تھا جتنے بھی چاند سے چہرے کے ہم نے قصیدے پڑھے ہیں ماہ طلعت ان کے مطابق تھیں۔ چاند سی کشادہ پیشانی کہ یہ ذہانت کی علامت ہے وہ واقعی گفتگو میںکھرا، سچالہجہ رکھتی تھیں۔بقول رضا علی عابدی کہ وہ میری زندگی میںبہار و سرشاری لائیں، ساٹھ برس کا ساتھ تھا دونوںکا یعنی خوشگوار زندگی کا ایک عہد تسلسل اختتام پذیر ہوا۔ ہم سب ماہ طلعت کی اچانک بیماری سے ہی پریشان تھے کہ معلوم ہوا کہ ان کے پاس دن تھوڑے ہیں اور دنیا کو الوداع کہا چاہتی ہیں پھر وہ چلی گئیں۔
احمد علی برقی اعظمی نے ماہ طلعت کیلئے کلام لکھ کر رضاعلی عابدی سے تعزیت کی کہ
ماہ طلعت اس جہان آب و گل سے چل بسیں
کرب تنہائی اے عابدی ہیں اشکبار
ان کی رحلت سے یکایک آگئی فصل خزاں
ان کے باغ زندگی میںا ن کے دم سے تھی بہار
صرف برقی ہی نہیں سوزدوروںسے غمزدہ
فرط غم سے ہیں سبھی احباب ان کے سوگوار
جیسا کہ ہم نے بتایا کہ ماہ طلعت اور گوپی چند نارنگ کی موت ایک ہفتے کے وقفے سے ہوئی، رضا علی عابدی اپنے قریبی دوست گوپی چند نارنگ کے افسوس سے نا نکل پائے کہ ان کی رفیقہ حیات کے غم نے آلیا۔ یہ اتفاق در اتفاق اب سے نہیں جون 2006ء سے ہے۔ جون ہی میں دونوں کی اموات آگے پیچھے ہوئیں اور ہم بھی اسی کانفرنس میںجہاںسبھی سے متعارف ہوئے وہیں ان دونہایت عظیم ومحترم ہستیوں سے بھی جون ہی میں ملاقات کئے تھے۔ ایک مرتبہ اردو کانفرنس کے علاوہ ہماری ملاقات گلشن کھنہ آنجہانی کے گھر ہوئی ہم نے فوراً سے پہلے انٹرویو کا وقت مانگ لیا آپ نے نظر میںرکھا اوروقت ملتے ہی ہم سے گفتگو کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ہمارا پہلا سوال تھا ’’آپ نا ہوتے تو اردو ادب کوعظیم ادبی شخصیت نا ملتی‘‘، تو نارنگ صاحب کاجواب عاجزانہ تھاکہ ’’یہ کہیئے اگر اردو ادب کا سہارا نا ہوتا تو میںبھی گوپی چند نارنگ ناہوتا، میںاردو سے ہوں اردو مجھ سے نہیں‘‘، انٹرویو کی خوبصورتی خوبصورت بات پر ختم ہو تو کشش رکھتی ہے پھر باقی باتیں تو ا ن کی ادبی تعریف پر ختم اور ادبی کارکردگی اور خدمات گنوانے میں صرف ہوتی ہے کہ گوپی چند نارنگ اردوادب کےچاندتھے یہ بات ہم نے انہیں دوران انٹرویو کہی تھی تواس عظیم ہستی کاجواب پھرعاجزانہ تھا کہ ’’گوپی چند نارنگ اردو کاچاند نہیں، اردوتنقید نگار ہے‘‘۔ یہ سچ ہے کہ گوپی چندنارنگ صاحب نے ادبی تنقید کو نئی جہت، نئی ادبی نظرو فلسفوں سے روشناس کیا۔ آپ نے نئے تنقیدی نظریئے سے ادب کے نئے راستے دکھائے ہیں جو تخلیق کیلئے معاون ہیں۔ خود نارنگ صاحب کو بھی ممتازترین نقاد میں شامل کرتے ہیں۔ ادبی ہستیاں موت کےبعد عروج اسی لئے رکھتی ہیں کہ انکے کام انہیں زندہ رکھتے ہیں۔