ماضی خوبصورت، حال پریشان، مستقبل خدا جانے

July 15, 2022

شہر کراچی کے پُرانے نام کئی تھے مثلاً کرنجی، کروچی، کرواچی پھر انگریز جب یہاں آئے تو انہوں نے نیا مخفّف بنایا اور اس شہر کا نام کراچی رکھا۔ تقسیم کے بعد چونکہ یہ پاکستان کا دارالخلافہ تھا تو اس کے القاب مشہور ہوئے جیسے عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، غریب پرور، منی پاکستان وغیرہ۔ کراچی کا فی الفور رقبہ تین ہزار آٹھ سو مربع کلومیٹر ہے۔

آبادی سرکاری طور پر ایک کروڑ بائیس لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ نفوس سے زائد بتائی جاتی ہے۔ سال 2018ء کی سرکاری رائے شماری میں کچھ انتظامی کوتاہیاں سرزَد ہوئیں جس کے ثبوت شہریوں نے متعلقہ حکام کو پیش کر دیئے ہیں۔

کراچی کی بندرگاہ اور میلوں طویل ساحلی پٹی قدرتی طور پر محفوظ اور خوبصورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی چودہ برس تک پاکستان کا دارالخلافہ رہا۔ پھر اسلام آباد کو یہ اسٹیٹس دے دیا گیا تب سے یہ سندھ کا دارالخلافہ ہے۔

جو بھی سہی کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، ملک کا معاشی حب ہے، یہاں ملک کے گوشہ گوشہ کے لوگ آباد ہیں نیز غیرملکی بھی نمایاں ہیں۔ موسم کے اعتبار سے یو معتدل آب و ہوا کا شہر ہے۔ آج کل گلوبل وارمنگ کے اَثرات اس شہر پر بھی نمایاں ہیں، گرمی کا موسم شدّت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال بحرِ ہند سے اُٹھنے والی گرم ہوائوں نے ہیٹ ویو سے قیامت ڈھائی تھی۔

کراچی شہر بتدریج بڑھتا رہا، آبادی میں اضافہ عمل میں آتا رہا مگر شہر کے گوناگوں مسائل کو حل کرنے کی کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ قیام پاکستان کے اوّلین برسوں میں کراچی کی شاہراہیں اور سڑکیں تعمیر ہوئیں ان کا بہائو مغرب سے مشرق کی طرف رکھا گیا۔ جیسے ایم اے جناح روڈ، نشتر روڈ، شاہراۂ لیاقت، چندریگر روڈ اور شاہراۂ فیصل یا شاہراۂ پاکستان ٹاور سے سہراب گوٹھ تک۔ صبح یک طرفہ اور شام یک طرفہ بہاؤ ہوتا ہے۔

ابتدا ہی سے کراچی کا ’’لے آئوٹ پلان‘‘ اور منصوبہ بندی میں بڑے سقّم نمایاں تھے، مزید بڑھ گئے ہیں۔ جیسے متوسط طبقے اور دُوسرے درجہ کے متوسط طبقے کی رہائشی آبادیاں شہر میں اور محنت کشوں کی بڑی بڑی آبادیاں شہر کے اطراف میں بسائی گئی ہیں مثلاً کورنگی، لانڈھی، اورنگی، ملیر، ڈرگ کالونی وغیرہ۔ اس لے آئوٹ کے سقّم کی وجہ سے کراچی میں ابتدا سے تاحال ٹریفک کا مسئلہ ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ کہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا نے اس شہر کو یرغمال بنا لیا۔

سرکاری ٹرانسپورٹ کو پوری منصوبہ سازی کے ساتھ ختم کیا، لوکل ٹرینیں چلنے نہیں دیں، یہ تلخ حقیقت ہے، اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کی، اُوپری سطح سے نچلی سطح تک کراچی میں انتظامیہ نے ٹرانسپورٹرز سے مک مکا نبھایا اور سرکاری ٹرانسپورٹ کو سڑکوں پر آنے سے روکے رکھا۔ اس کرپشن کی دیمک نے شہریوں کو قدم قدم پر دُکھ اور مصائب سے دوچار کیا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کراچی کی آبادی دو لاکھ کے قریب تھی۔

بعداَز تقسیم ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد نے کراچی کو اپنا وطن بنایا۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب، صوبہ سرحد کے محنت کشوں کی نمایاں تعداد نے بھی اس شہر کا رُخ کرنا شروع کیا۔ ایسے میں شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی اور سہولتوں کا فقدان رہا۔ بجائے اس کے کہ شہر کے مسائل حل کرتے طالع آزمائوں نے نوآبادیاتی دور کی ظالمانہ روش اختیار کی کہ عوام کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑا دو تا کہ وہ اس میں اُلجھے رہیں۔

کراچی شہر میں یہ امکانی قوت ہے کہ وہ اتنے شدید صدمات برداشت کرنے کے باوجود سانس لے رہا ہے حالانکہ ایک دور میں شہر کراچی ملک کی سیاست کا گہوارہ تھا۔ علم و اَدب کا مرکز تھا، طلبہ تحریکوں کا ہراول دستہ تھا، ملک میں جمہوری تحریکوں کا میدان خصوصی تھا۔ پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں کراچی بتدریج ترقّی کرتا جنوبی ایشیا کا ٹیکسٹائل مصنوعات، چمڑے کے سامان، قالین بافی، سرامک، مشینری اور جدید فرنیچر کا اہم مرکز بن چکا تھا۔ پلاسٹک کی مصنوعات بھی کراچی کے باہر بہت مقبول تھیں۔ کپڑا یہاں سے بھارت اسمگل ہوتا تھا اور وہاں پاکستانی کپڑے اور دیگر مصنوعات کی بڑی مانگ تھی۔

سنگاپور اور جنوبی کوریا کے صنعتکار یہاں آ کر معلوم کرتے تھے کہ کراچی میں صنعتوں نے اتنی جلدی کیسے ترقّی کرلی۔ یہ تمام حقائق ریکارڈ پر ہیں۔ ہم کراچی کے ہر عشرے کے حالات اور واقعات پر توجہ مبذول کریں اور جائزہ لیں تو 1957ء تک کا دور افراتفری، مہاجرین کی آمد اور آبادکاری کے مسائل کا دور تھا۔ بعدازاں 1967ء کا دور کراچی میں بتدریج صنعتی ترقّی کا دور تھا۔ اس دور میں ایوب خان کا مارشل لاء نافذ ہو چکا تھا۔ ملک میں بائیس خاندانوں کا چرچا تھا۔ مثلاً آدم جی، دائود، ولیکا، سومار، سہگل وغیرہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انشورنس، بینک، سرکاری قرضے اور دیگر مراعات حکومت کی طرف سے کاپوریٹ سیکٹر کو سونپی جا چکی تھیں۔ زرمبادلہ جس کے تحت بونس وائوچر اسکیم شروع کی تھی اس سے بھی صنعتکار طبقہ کو بڑی سہولت حاصل تھی۔ قبل ازیں حکومت نے پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن یعنی پی آئی ڈی سی کا ادارہ قائم کیا تھا۔ اس نے ملک میں سیمنٹ کے کارخانے، فائر برکس، ٹیکسٹائل، روغن وغیرہ کے کارخانے قائم کئے تھے اور اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔

کراچی میں ساٹھ کی دہائی کے آخر برسوں میں ایوب خان کی مطلق العنان حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوئی اس تحریک کا مرکز بھی کراچی تھا۔ اس دور کے طلبہ رہنما جو این ایس ایف کے پلیٹ فارم پر کام کر رہےتھے ان میں معراج محمد خان، فتح یاب، شہنشاہ حسین، علی حیدر کاظمی و دیگر تحریک چلا رہے تھے ان میں زیادہ تر طلبہ رہنمائوں کو کراچی بدر کر دیا گیا تھا۔ ڈیڑھ دو سال تک یہ تحریک چلی، پھر 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے ٹیک اوور کرلیا۔ بعد ازاں 1970ء کے انتخابات کا اعلان ہوا۔ اس کے نتائج حیران کن ضرور تھے مگر اس کی جڑیں گہری تھیں۔

کراچی میں پی پی پی نے اپنا مرکز بنایا، ممتاز علی بھٹو وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور غیرمحسوس طور پر جاگیردارانہ سیاست نے خاص طور پر کراچی کو اور بائیس خاندانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ایسے میں سچ یہ ہے کہ بتدریج ترقّی کرتا کراچی تنزلی کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔ خلیجی ریاستوں میں تیل کے تیز بہائو نے پاکستان کے محنت کشوں اور تربیت یافتہ افراد کے لئے روزگار کے دروازے کھولے، ایسے میں بڑی تعداد کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں کی خلیجی ریاستوں میں کھپ گئی۔

اُدھر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پارٹی اپنے وژن کے مطابق پاکستان کی ترقّی کے لئے کوشاں تھے۔ مگر کراچی میں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے مسدود ہو چکے تھے، تمام نجی کارخانے، بینک اور انشورنس کمپنیاں ریاست کی ملکیت میں آ گئی تھیں۔ نجی سرمایہ کاری کو نئی نئی پابندیوں اور سُرخ فیتے کا سامنا تھا۔

ایسے میں سرمایہ کاری کا عمل رُک گیا۔مگر اتنی بڑی اُفتاد کراچی سمیت پورے ملک پر ٹوٹی، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برخاست ہوئی اور ملک میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ پھر طالع آزما میدان میں آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک ایک بار پھرہنگاموں، ہڑتالوں کی نذر ہوگیا۔ ایسے میں ماضی کی طرح کراچی اور سندھ کے شہر زیادہ نشانہ بنے۔

اس تمام تر تناظر میں کراچی نامساعد حالات میں بھی اپنی بقاء کی جدوجہد کرتارہا۔ ملکی معیشت، معاشرت اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ کراچی میں اس وقت پچیس سے زائد بینک کام کررہے ہیں جن کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مثلاً اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل بینک آف پاکستان، حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک و دیگر بینک ہیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج ملک کی سب سے بڑی شیئرز مارکیٹ ہے۔ صنعتی ترقیاتی بینک، زرعی ترقیاتی بینک اور ویمن بینک بھی کام کررہے ہیں۔ کراچی پورٹ اور بن قاسم پر ہزاروں ٹن سامان کی روزانہ ہینڈلنگ ہوتی ہے۔

کراچی سے ملک کے گوشے گوشے کے لئے بسیں چلتی ہیں۔ موٹروے کی تعمیر کے بعد ٹرانسپورٹ کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

کراچی میں جامعہ کراچی، این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی قائم ہیں اس کے علاوہ ڈیڑھ سو کالجز اور انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں۔ کراچی میں تعلیمی اوسط ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ نجی اسکولوں کی تعداد چھ ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ مگر تعلیم، صحت اور اَدب کے شعبوں میں بھی مافیا اور اجارہ دار گروہ موجود ہیں۔

مذکورہ اداروں کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے مگر پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے۔ حکومت کو لگتا ہے تعلیم سے زیادہ نسبت نہیں ہے۔ ہمارا معیار تعلیم تیزی سے تنزلی کی طرف مائل ہے۔ تعلیم کا دُہرا نظام ہے اس کو دُرست کرنے کا دعویٰ کرنے والے غیرماہرین تعلیم مزید پیچیدگیاں پیدا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک جائزہ کے مطابق کراچی کے ضلع وسطی کا تعلیمی اوسط ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ کراچی انتظامی طور پر پانچ اضلاع میں تقسیم ہے جیسے کراچی غربی، کراچی شرقی، کراچی وسطی، کراچی جنوبی اور ضلع ملیر۔ کراچی میں سب سے اہم علاقہ کلفٹن کو شمار کیا جاتا ہے یہاں قیام پاکستان سے قبل بھی بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی رہائش گاہیں قائم تھیں آج بھی ہیں۔ ڈیفنس اتھارٹی ساحل سمندر کے قریب الگ تھلگ واقع ہے جس کے آٹھ فیز قائم ہیں۔ یہاں اعلیٰ سرکاری افسران، متموّل تاجر، ریٹائرڈ افسران اور دیگر بااثر افراد رہائش پذیر ہیں۔

کراچی میں اسکیم ون کا علاقہ اسٹیڈیم کے قریب واقع ہے یہ کراچی کا پوش، صاف ستھرا اور پُرسکون علاقہ ہے یہاں بڑے بڑے وڈیروں، جاگیرداروں، تاجروں کے بنگلے واقع ہیں جس میں پیر صاحب پگارا کا کنگری ہائوس بھی شامل ہے۔ قریب ہی جونیجو صاحب کا بنگلہ بھی واقع ہے۔ اسکیم وَن جو کارساز روڈ کے ساتھ اسٹیڈیم تا شاہراہ فیصل تک پھیلی ہوئی ہے اس کو کراچی کا وی وی آئی پی علاقہ کہا جاتا ہے۔ یہاں سے ہمارے معاشروں میں امارت اور غربت کے بیچ فاصلوں کی خلیج واضح نظر آتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید چوڑی ہو رہی ہے۔ امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔

تقسیم ہند سے قبل کراچی میں ہندو، پارسی تاجر بڑی تعداد میں آباد تھے۔ انگریز حکمرانوں نے دفتری امور نمٹانے کے لئے گوا کے انگریزی بولنے والیے عیسائیوں کو یہاں بسایا۔ گوانین خاصی تعداد میں کراچی میں آباد تھے ان کے دو کلیسا کمیونٹی سینٹر بھی تھے۔

تیس اور چالیس کی دہائیوں میں کراچی مشرقی مغربی ثقافتوں کا گہوارہ رہا۔ اس دور کے کراچی کی خاص بات یہ تھی کہ پورے برصغیر میں یہ سب سے صاف ستھرا شہر کہلاتا تھا اس دور میں بگھیاں اور تانگے چلا کرتے تھے۔ گھوڑوں کو پیسچر باندھے جاتے تھے۔ جگہ جگہ ان کے پانی پینے کے حوض بنے ہوئے تھے اور ہر روز صبح پانچ بجے شہر کی دُھلائی ہو جاتی تھی۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر دو تین بڑی دُکانیں تھیں۔

باقی چھوٹی دُکانیں بھی تھیں۔ یہاں صرف سفید فام خواتین اور مردوں کو شاپنگ کی اجازت تھی۔ وکٹوریہ روڈ پر چند کلب اور بار واقع تھے۔ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد پنجاب اور سندھ میں زرعی ترقّی پر زور دیا۔ لاہور سے کراچی ریلوے لائن بچھائی، کراچی پورٹ کو ترقّی دی، کراچی پورٹ ٹرسٹ قائم کیا۔

یہ انتظام اس لئے کیا گیا تھا کہ اناج پیدا کرنے والے خطّوں سے کراچی میں اناج جمع کیا جائے اور فوری طور پر اس کو برطانیہ روانہ کر دیا جائے۔ اس طرح چند ہندو اور پارسی تاجروں نے بہت پیسہ کمایا۔ کراچی میں انگریز چھائونی بنا چکے تھے بعدازاں انہوں نے مزید چھاؤنیاں بنائیں۔

واضح رہے کہ 1933ء میں بمبئی کی بندرگاہ پر مزدوروں نے ہڑتال کر دی تھی اور یہاں سے تمام اناج و دیگر اشیاء برطانیہ جاتی تھیں۔ اس ہڑتال کے رُوح رواں جنہیں ٹریڈ یونین لیڈر کہا جاتا ہے دادا امیر حیدر تھے، ان کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ لہٰذا انگریزوں نے اس وجہ سے بھی کراچی کی بندرگاہ کو ترقّی دی تھی۔ اور نئی چھائونیاں تعمیر کی تھیں۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاج برطانیہ نے ایک عرصے تک سندھ پر کوئی خاص توجہ نہیں کی تھی۔

سندھ کے سیاسی خاندان اطمینان سے یہاں اپنی حکومت چلا رہے تھے، لیکن جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے افغانستان کو تر نوالہ تصوّر کر کے اور ایک بفر اسٹیٹ بنانے کے لئے افغانستان پر حملہ کیا تو افغانوں نے بھرپور طریقہ سے اپنا دفاع کیا جس کی انہیں توقع نہیں تھی کمپنی کو رُسواکن شکست ہوئی تمام سپاہی مارے گئے۔ اس سبکی اور شرمندگی کو مٹانے کے لئے انہوں نے اچانک سندھ پر حملہ کیا سندھ کے حکمران اس اچانک اُفتاد کے لئے تیار نہ تھے اور یہ علاقہ آسانی سے فتح ہوگیا اس طرح انگریزوں نے یہاں تسلط قائم کر کے اپنا کاروبار حکومت چلانا شروع کیا۔ سندھ میں کچھ علاقوں میں انگریزوں کے خلاف مدافعت ہوئی مگر اس میں اشرافیہ کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔

کراچی شہر اور اس سے بڑھ کر کراچی کی بندرگاہ انگریزوں کے لئے اہمیت کی حامل تھی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی نے ترقّی کرنا شروع کی۔ اس مردم خیز شہر نے برّصغیر کو جن تاریخی شخصیات سے متعارف کرایا ان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا نام آتا ہے جو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ بعدازاں، خان لیاقت علی خاں، بینظیر بھٹو شہید، بلاول بھٹو، جنرل پرویز مشرف، ممنون حسین، الطاف حسین، ماروی میمن، منور حسن اور ذوالفقار علی بھٹو نمایاں ہیں۔

کراچی ایک دور میں ملک کا دُوسرا بڑا فلمی مرکز تھا۔ یوسف ہارون کا ایسٹرن اسٹوڈیو خاصا مشہور تھا جہاں سے ایک دور میں کامیاب فلمیں تیار کی گئی تھیں۔ اس دور میں کراچی کے اداکاروں اور فن کاروں کا طوطی بولتا تھا ان میں وحید مراد، محمد علی، مصطفےٰ قریشی، زیبا، طلعت حسین، طلعت سلطانہ، معین اختر، جمشید انصاری، بدر خلیل، مُنّی باجی، دُوسری نسل میں مرینہ خان، عتیقہ اوڈھو، شفیع محمد شاہ، سلیم ناصر، قاضی واجد، جمشید انصاری، راحت کاظمی، بہروز سبزواری اور اسماعیل تارا دیگر معروف فن کار متعارف کرائے۔

کھیلوں کی دُنیا میں حنیف برادران پھر جاوید میانداد اور دیگر معروف کھلاڑیوں نے پاکستان کرکٹ، ہاکی اور دیگر کھیلوں میں بہت نام کمایا۔

کراچی میں کھیلوں کے میدان، پارکس پر لینڈ مافیا اور کراچی انتظامیہ میں شامل کالی بھیڑوں نے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنا دیا ہے۔ گویا زمین غائب، ہوا غائب، پانی غائب، کھڑکی میں سے آسمان دھجی دھجی دکھائی دیتا ہے۔ انسانی حرص اور طمع نے انسان کو کیا بنا دیا ہے۔

ماہرین نفسیات، طب اور سماجی بہبود سب کی متفق رائے ہے کہ ہر دُوسرا آدمی اعصابی دبائو، ہر چوتھا آدمی انجائنا اور ہر چھٹا آدمی آنکھ یا سانس کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ٹریفک کا اژدھام، دُھواں چھوڑتی گاڑیاں، ہارن پر ہارن، سیاہ کالا دُھواں، شور کی آلودگی سماعت، سانس اور خون میں رَچ بس رہی ہے۔ ٹریفک قوانین اور اس کے نگہبان ایک کامیڈی سرکس کی مانند ہیں۔ سو پچاس روپیہ میں قانون خرید سکتے ہیں۔ کراچی پولیس اور ٹریفک پولیس کا تعلق کراچی سے نہیں ہے وہ بڑی رقم خرچ کر کے کراچی تبادلہ کراتے ہیں پھر اس رقم کو دُگنا اور تین گنا کرنے میں جُت جاتے ہیں ایسے میں قوانین اُصولوں کی کیا وقعت۔

کراچی میں تاریخی عمارتیں ہیں جن کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ یہ عمارتیں پُرانے طرزِ تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ مثلاً مہتہ پیلس، مزار قائد، چوکنڈی کے مقبرے، فریئر ہال، ایمپریس مارکیٹ، خالق دینا ہال، سینٹ پیٹرک چرچ، میری ویدر ٹاور، ڈینسو ہال وغیرہ۔ ایک چڑیا گھر بھی ہے معلوم نہیں جانور کس حال میں ہیں کیونکہ شکایات تھیں کہ جانور بھی انسانی بدعنوانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کراچی میں اب بھی چند لائربریاں باقی ہیں جیسے ڈیفنس لائبریری، تیموریا لائبریری، محمود حسن لائبریری، لیاقت ہال لائبریری اور ابراہیم بھائی آڈیٹوریم لائبریری اس کے علاوہ کچھ لائبریریاں اور تھیں، جو اب گمنام ہیں۔ کتابوں کی دُکانیں اور کتب خانے اب عنقا ہوتے جارہے ہیں۔

کراچی شہر کی معاشرت روزمرہ معمولات کے تابع ہوتی جا رہی ہے۔ زندگی میں گھریلو دفتری اور کاروباری مسائل نے زیادہ جگہ بنا لی ہے۔ اَدب، شاعری، فنونِ لطیفہ اور ذوق جمالیات کے شیدائی کم سہی ان کی آسودگی کا سامان بہت کم رہ گیا ہے۔ وہ نسل جو قیام پاکستان کے بعد کراچی کی رونق کا باعث تھی اور ایک اثاثہ تھی وہ نہ رہی۔ نئی نسل نئے جھمیلوں میں اُلجھتی رہی اس لئے مذکورہ شعبوں پر توجہ کم تر رہی۔

اب لوگوں کے پاس ٹی وی اور موبائل کے سوا کوئی تفریح نہیں رہی ہے۔ فلمی صنعت کو باقاعدہ سبوتاژ کیا گیا۔ سینمائوں کو مارکیٹوں میں تبدیل کیا گیا۔ کھیل کے میدان اور پارکس مافیا ہضم کر گئی۔ لہٰذا باقی کیا بچا ہے۔ اسکولوں کی حالت زار کراچی میں یوں کہ چار کمروں میں پابند ہیں بچوں کے لئے کھیل اور تفریح کے مواقع کم سے کم ہیں بلکہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بندر والا ڈگڈگی بجا کر سو آدمی جمع کر لیتا ہے یہ ہماری کلاسک تفریح ہے۔

ایک دور میں کراچی معین اختر،عمر شریف اور انور مقصود تفریحی پروگرام کر لیتے تھے اب وہ بھی نہیں ہیں۔ نوجوانوں میں اسی وجہ سے اعصابی دبائو بڑھ رہا ہے۔ من میں بیزاری، مایوسی اور عدم برداشت نمایاں ہیں۔ ہر نوجوان کا مطمح نظر یہ ہے کہ کسی طرح بیرون ملک چلا جائوں وہاں جدوجہد کر کے کچھ کمائوں اور سکونت اختیار کر لوں۔ معذرت کے ساتھ یہ تمام نشانیاں معاشرے کے انحطاط اور تنزلی، مایوسی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اگر کوئی اس ضمن میں شکوہ یا شکایت کرنے کی جرأت کر لیتا ہے تو متعلقہ اداروں کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ادھر کا رُخ نہیں کر سکتا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جتنے سندھ کے وزراء اعلیٰ نے اپنا منصب سنبھالا کچھ منتخب تھے کچھ عبوری دور کے تھے لیکن سب فرزندانِ سندھ کی دھرتی کے سپوت تھے۔ مثلاً خان بہادر کھوڑو، پیر الٰہی بخش، یوسف ہارون، پیر زادہ عبدالستار، ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفےٰ جتوئی، جام صادق علی، لیاقت جتوئی، قائم علی شاہ اور سیّد مراد علی شاہ و دیگر۔ ان میں ایک بھی وزیراعلیٰ اُردو بولنے والا نہیں تھا۔ درحقیقت سندھ حکومت کے مطابق ایک غیرتحریری معاہدہ یہ چلا آ رہا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھی بولنے والا اور گورنر اُردو یا پنجابی بولنے والا ہو سکتا ہے۔

تاہم اس پر عمل ہو رہا ہے مگر یہ بات کچھ عجیب نہیں لگتی کہ تین نسلوں کے بعد بھی ہم لوگوں میں باہمی اعتماد کی فضا استوار نہیں ہو سکی۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جو پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں آ کر مستقل طور پر سکونت اختیار کی جن لوگوں نے اپنی دو تین بزرگ نسلوں کو سرزمین سندھ میں دفن کیا اب وہ یہاں سے کہاں اور کیوں جائیں گے ان کا جینا مرنا سب کچھ سرزمین سندھ سے وابستہ ہے۔

تاہم اُمید ہے جو بھی شکوے ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ دُور ہو جائیں گے۔ سندھ کے سیاسی رہنمائوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ 1947ء اور 2022ء کا سندھ کیسا ہے۔ کتنی ترقّی کی منزلیں طے کی ہیں، سندھ کو یہاں نئے آنے والوں نے ترقّی سے ہمکنار کیا ہے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس ترقّی میں دونوں جانب کی لسانی اکائیوں کا مساوی حصہ ہے۔ اب دُنیا جاگیرداری، سرمایہ داری اور قبائلی سماج کے ادوار سے پوری طرح باہر آ چکی ہے آج کی دُنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اورفوقیت جدید ٹیکنالوجی کی ہے۔

غور کیجئے آج انسان سورج کو چُھو رہا ہے اس کا بنایا ہوا اسپیس راکٹ سورج میں داخل ہورہا ہے اس کی تصویریں زمین پر بھیج رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دُنیا کتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ تعلیم، تحقیق، جستجو اور نئی نئی ٹیکنالوجی کی ایجادات دُنیا کا اصل سرمایہ ہیں۔ پاکستان اور سندھ کی ترقّی کے لئے سب کو مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی۔

کراچی نے گزرے بیس پچیس برسوں میں بہت مصائب جھیلے ہیں ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھگتی ہیں، عرصہ تک لہولہان رہا ہے۔ لگتا ہے طالع آزما پھر کراچی کو اپنی سیاست کا اکھاڑہ بنانا چاہتے ہیں۔ کراچی کے عوام ان طالع آزمائوں کو پہچان چکے ہیں۔ اب ان کے جال میں نہیں آئیں گے۔ دُودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اس حقیقت کو گرہ میں باندھ لیں کہ کراچی پاکستان کی معیشت کا انجن ہے۔ علاقائی سیاست میں جو حیرت انگیز تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اگر گھر میں گھر والے متحد ہیں تو کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کراچی نے مختلف اَداور میں اپنا قومی کردار بحسن و خوبی نبھایا ہے اس شہر کے باسیوں کو کبھی سمندر سے ڈرایا گیا، کبھی مذہبی منافرت سے تو کبھی لسانی آگ میں دھکیلا گیا مگر کراچی کے غیّور عوام ہر طوفان سے نمٹنے میں کامیاب رہے اور ہر بحران سے سُرخرو ہو کر نکلے۔ اچھا ہوگا کہ انرجی کو مثبت طورپر استعمال کیا جائے۔ ملک سے، سندھ سے، کراچی سے بدعنوان، شرپسند نااہل عناصر سے جان چھڑائیں اور ترقّی کی راہ کا سفر اپنائیں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔

کراچی کی بدعنوان مافیا پبلک کے فائدہ کے کام میں ہمیشہ رَخنہ اندازی کرتی آئی ہے۔ نہ جانے کراچی کے مسائل کب حل ہوں گے۔ ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی ضرورت کی تکمیل بھی پوری نہیں ہو سکی شہری اب بھی چنکی منکی میں دھکے کھاتے سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ مفادات کے آگے کس کی چلی ہے۔ کراچی اپنے دم پر قدم بہ قدم چل رہا ہے۔