عبداللہ شفیق کی شکل میں پاکستان کو ایک قابل اعتماد ٹیسٹ اوپنر مل گیا

July 26, 2022

عبداللہ شفیق اپنی کارکردگی سے اپنے ناقدین کو خاموش کررہے ہیں، بلاشبہ ان کی شکل میں پاکستان کو ایک قابل اعتماد ٹیسٹ اوپنر مل گیا ہے لیکن چند ٹیسٹ میچوں کی کارکردگی پر کسی بیٹر کو دنیا کے بڑے بیٹسمینوں سے ملانا درست نہیں ہے اگر وہ ورلڈ کلاس ہیں تو ان کی کارکردگی سب کو خاموش کرے گی۔ قبل ازوقت جذباتی ریمارکس دینے سے کھلاڑی بھی دبائو کا شکار ہوجاتا ہے۔

یہ نومبر2020 کی بات ہے جب سیالکوٹ کے نوجوان نے زمبابوے کے خلاف پنڈی کے ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میں41ناٹ آوٹ بناکر پاکستان کو فتح دلوائی لیکن پانچ ہفتے بعد جب وہ پاکستان ٹیم کے ساتھ نیوزی لینڈ پہنچے تو آکلینڈ اور ہیملٹن کے ٹی ٹوئینٹی میچوں میں صفر پر آوٹ ہوئے یہی وہ موقع تھا جب اس نوجوان بیٹر کوسفارشی قرار دیا گیا۔

بابر اعظم کے ساتھ مصباح الحق اور پھر ثقلین مشتاق کو عبداللہ شفیق میں چھپے ٹیلنٹ کا پتہ چل رہا تھا۔ایک سال بعد عبدالہ شفیق نے پہلا ٹیسٹ بنگلہ دیش کے خلاف چٹاگانگ میں کھیلا اور ڈیبیو پر52اور73رنز بنائے۔ طویل فارمیٹ والی کرکٹ میں وہ زیادہ پر اعتماد دکھائی دیئے اور سری لنکا کے خلاف گال کے پہلے ٹیسٹ کی کارکردگی نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔بلاشبہ پریشر میں ریکارڈ ہدف کا تعاقب آسان نہیں تھا لیکن 22سالہ عبداللہ شفیق نے اپنے ٹمپرامنٹ ،تکنیک اور کارکردگی سے سب کو حیران کردیا ہے۔پاکستان نے342رنز بناکر گال میں نئی تاریخ رقم کردی۔

پاکستانی ٹیم 2015 کے پالیکلے ٹیسٹ کی کارکردگی دوہرانے میں کامیاب ہو گئی، جہاں اس نے یونس خان اور شان مسعود کی سنچریوں کی بدولت 377 رنز کا ہدف آسانی سے عبور کر لیا تھا۔ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے برعکس ٹیسٹ ٹیم میں عبداللہ نے ایک قابل اعتماد بیٹسمین کی حیثیت سے اپنی جگہ مستحکم کر لی ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف اپنے اولین ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں نصف سنچریاں بناتے ہوئے، انہوں نے دونوں مرتبہ عابد علی کے ساتھ پہلی وکٹ کے لیے سنچری شراکتیں قائم کی تھیں۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے تینوں میچوں میں بھی انھوں نے شاندار پرفارمنس دی۔ راولپنڈی ٹیسٹ میں ناقابل شکست 136رنز سکور کرنے کے بعد انھوں نے کراچی میں 96 اور لاہور میں 81 رنز کی اننگز کھیلی تھیں۔

عبداللہ شفیق کی ثابت قدمی نے انہیں دنیا کے ان گنے چنے بیٹسمینوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جنھوں نے کسی ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں 400 سے زائد گیندیں کھیلی ہیں۔ ان سے قبل صرف چار بیٹسمین انگلینڈ کے مائیک ایتھرٹن اور ہربرٹ ا سٹکلف، بھارت کے سنیل گاو اسکر اور پاکستان کے بابر اعظم یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں یہ چوتھا موقع ہے کہ پاکستانی ٹیم نے تین سو یا زائد رنز کا ہدف عبور کرکے ٹیسٹ میچ جیتا ہے اور پاکستانی ٹیم ایسا کارنامہ کرنے والی واحد ایشیائی کرکٹ ٹیم ہے۔2015کے پالیکلے ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم نے377 رنز کا ہدف تین وکٹوں پر حاصل کیا تھا۔

اس اننگز میں یونس خان اور شان مسعود کی سنچریاں اور مصباح الحق کی ناقابل شکست نصف سنچری شامل تھی۔ اس سے ایک برس قبل 2014 میں پاکستانی ٹیم نے شارجہ ٹیسٹ میں 302 رنز کا ہدف پانچ وکٹوں پر حاصل کیا تھا۔ اس جیت میں اظہر علی کی سنچری، مصباح کے 68 رنز اور سرفراز احمد کے 48 رنز نمایاں تھے۔ پہلی بار پاکستان نے یہ کارنامہ 1994 میں پاکستانی ٹیم نے انضمام الحق اور مشتاق احمد کی آخری وکٹ کی پارٹنر شپ کے نتیجے میں 314 رنز کا ہدف عبور کر کے کراچی ٹیسٹ ڈرامائی انداز میں ایک وکٹ سے جیت کر سرانجام دیا تھا۔

گال ٹیسٹ کی میچ وننگ اننگز میں عبداللّٰہ شفیق ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں فاتح ٹیم کی جانب سے سب سے زیادہ دیر تک بیٹنگ کرنے والے بیٹر بن گئے۔ ہدف کے کامیاب تعاقب میں انہوں نے ناقابلِ شکست 160 رنز بنائے لیکن اس کے لیے وہ 524 منٹ کریز پر موجود رہے۔ فاتح ٹیم کے کھلاڑی کی جانب سے چوتھی اننگز میں طویل وقت تک بیٹنگ کرنے کا ریکارڈ سری لنکا کے عظیم بیٹسمین ارونڈا ڈی سلوا کے پاس تھا، انہوں نے 1998 میں زمبابوے کے خلاف ناقابلِ شکست 143 رنز بنا کر یہ کارنامہ انجام دیا اور اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔

واضح رہے کہ اعداد و شمار کی دستیابی کے بعد یہ کسی بھی ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں تیسری طویل ترین بیٹنگ ہے۔ عبداللّٰہ شفیق نے اپنی طویل اننگز کے دوران ایک اور اعزاز اپنے نام کیا جب انہوں نے فتح گر اننگز کے لیے 408 گیندوں کا سامنا کیا۔ اعداد و شمار کی دستیابی کے بعد سے عبداللہ دنیائے کرکٹ کے پانچویں کھلاڑی ہیں جنہوں نے 400 یا اس سے زائد گیندیں چوتھی اننگز میں کھیلیں۔

دوسری جانب کامیاب ہدف کے تعاقب میں سب سے زیادہ گیندیں کھیلنے والوں کی فہرست میں ان کا دوسرا نمبر ہے۔ انگلینڈ کے ہربرٹ سوٹکلفٹ نے 1928 میں آسٹریلیا کے خلاف 135 رنز بنائے تھے اور 462 گیندوں کا سامنا کیا تھا۔ اسی طرح ایشیا میں کامیاب ہدف کے تعاقب میں عبداللّٰہ شفیق کے 160 رنز تیسرا سب سے بڑا اسکور ہے۔ سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے کائل مائرز (210) کے پاس ہے، جبکہ اس فہرست میں پاکستان کے یونس خان (171) تیسرے نمبر پر ہیں۔

پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں چوتھی اننگز میں عبداللّٰہ شفیق کے 160 رنز تیسرا سب سے بڑا اسکور ہے۔ چوتھی اننگز میں سب سے بڑا اسکور بنانے کا ریکارڈ بابر اعظم کے پاس ہے، انہوں نے حال ہی میں آسٹریلیا کے خلاف 196 رنز بنا کر قومی ٹیم کو شکست سے بچایا تھا۔ دوسرا سب سے بڑا اسکور 171 کا ہے جو یونس خان نے پالی کیلے میں سری لنکا کے خلاف ہی بنایا تھا۔ کسی بھی اوپنر کی جانب سے ٹیسٹ میں کامیاب ہدف کے تعاقب میں عبداللّٰہ کی اننگز تیسری سب سے بڑی رہی۔ سب بڑے اسکور کا ریکارڈ گورڈن گرینیج کے پاس ہے، انہوں نے 1984 میں انگلینڈ کے خلاف 214 رنز کی اننگز کھیلی تھی جبکہ آسٹریلیا کے آرتھر مورس نے 1948 میں انگلینڈ کے خلاف 182 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔

ٹیسٹ کرکٹ میں ابتدائی 6 میچوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں عبداللّٰہ شفیق چوتھے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے ان میچز میں مجموعی طور پر 720 رنز بنالیے ہیں، تاہم سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ سنیل گاواسکر کے پاس ہے جنہوں نے 912 رنز بنائے تھے۔ آسٹریلیا کے ڈان بریڈمین نے 862 جبکہ ویسٹ انڈیز کے جارج ہیڈلی نے 730 رنز بنائے تھے۔ ابر اعظم کے کپتان بننے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کامیابی کے ساتھ ہدف کا تعاقب کررہی ہے اور ریکارڈز پر ریکارڈ قائم کررہی ہے بابر اعظم بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ گال ٹیسٹ میں پاکستان نے سری لنکا کے خلاف چھ وکٹ پر 344 رنز بناکر ٹیسٹ کرکٹ میں دوسرا کامیاب ہدف عبور کیا تھا۔

اس جیت میں بابر اعظم نے119اور55رنز بنائے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان نے سب سے بڑا ٹارگٹ 377رنز بھی سری لنکا کے خلاف بنایا تھا۔ ون ڈے کرکٹ میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف لاہور میں349 رنز بناکر سب سے بڑا ہدف عبور کیا تھا اس جیت میں بابر اعظم نے114رنز بنائے تھے۔ ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میں پاکستان نے سب سے بڑا ہدف تین وکٹ پر208رنز بناکر کامیابی حاصل کی تھی اس میچ میں بھی بابر اعظم نے79رنز بنائے تھے۔ بلاشبہ بابر اعظم اس وقت ٹیم میں اپنی کارکردگی سے جان ڈال رہے ہیں۔ لیکن ان کے کچھ فیصلوں پر اب بھی سوالات اٹھ رہے ہیں ان میں پہلے ٹیسٹ میں فواد عالم اور ڈراپ کرکے سلمان علی آغا کو کھلانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔

پاکستان کے سب سے سنیئر بیٹر اظہر علی کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔شان مسعود اور سعود شکیل باہر بیٹھے ہوئے ہیں ایسے میں اظہر علی کی فارم بھی تشویش ناک ہے۔ سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ سے قبل اظہر علی نے آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز کے پنڈی ٹیسٹ میں 185 رنز کی بڑی اننگز کھیلنے کے بعد لاہور ٹیسٹ میں 78رنز ا سکور کیے تھے۔ سری لنکا کے دورے سے قبل انھوں نے کاؤنٹی کرکٹ میں ایک ڈبل سنچری اور تین نصف سنچریاں بھی سکور کیں تاہم گال ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں وہ بری طرح ناکام رہے۔

اظہر علی جیسے تجربہ کار بیٹسمین کے کریئر میں یہ بات بہت مایوس کن نظر آتی ہے کہ ان کا ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں ریکارڈ متاثرکن نہیں۔ وہ اپنی مجموعی 19 سنچریوں میں سے چوتھی اننگز میں 42 مرتبہ بیٹنگ کرتے ہوئے صرف ایک سنچری اور پانچ نصف سنچریاں بنا سکے ہیں اور ان کی بیٹنگ اوسط محض 25 ہے۔ دوسرے ٹیسٹ کے بعد اظہر علی کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس وقت بابر اعظم فرنٹ سے لیڈ کررہے ہیں اور اپنی کارکردگی سے مثال قائم کررہے ہیں۔ لیکن کپتان کی حیثیت سے انہیں اپنے فیصلوں میں پختگی لانی ہوگی، ان کی نیت پر کسی کو شک نہیں ہے بس ایسا تاثر نہ دیں جس سے جانب داری محسوس ہو۔