سندھ حکومت کا آخری سال، اعلیٰ تعلیم ایڈہاک ازم کا شکار

August 12, 2022

کراچی(سید محمد عسکری) سندھ کی موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں ایک سال سے کم عرصہ باقی رہ گیا ہے اور اس چار سال کے دوران سندھ اعلیٰ تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی گئی اور ایڈہاک ازم کی پالیسی برقرار رکھی گئی جس کی وجہ سے سندھ کی 9جامعات مستقل وائس چانسلرز17جامعات ڈائریکٹرز فنانس، 5تعلیمی بورڈز مستقل چیرمین اور 8 تعلیمی بورڈز مستقل ناظم امتحانات اور سکریٹریز سے محروم ہیں اور یہ اہم تقرریاں گزشتہ کئی برس سے التواء کا شکار ہیں اور تاحال حکومت ان اہم عہدوں پر مستقل تقرریاں نہیں کرنا چاہتی جب کہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں ایک برس سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ بیگم نصرت بھٹو ویمن یونیورسٹی سکھر میں6 مارچ2018سے مسلسل تیسرا وائس چانسلر قائم مقام ہے اور خواتین یونیورسٹی میں تیسرے قائم مقام وی سی خاتون کی بجائے ایک مرد ڈاکٹر شہزاد نسیم ہیں جبکہ تلاش کمیٹی 6 ماہ قبل تین خواتین امیدواروں کے نام وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیج چکی ہے۔22 جون 2020 کو آئی بی اے سکھر کے وائس چانسلر نثار صدیقی کورونا سے انتقال کرگئے جس کے بعد سے ڈاکٹر میر محمد شاہ کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا گیا اور آئی بی اے سکھر میں مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا مسئلہ تقریباً دو سال دو ماہ سے التواء کا شکار ہے۔ شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج جامشورو میں ڈاکٹر بھائی خان شر کو8 ستمبر2020 کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا گیا جو تاحال اسی عہدے پر کام کررہے ہیں۔ دائود انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیض عباسی اپنی دوسری مدت جون 2021 کے وسط میں مکمل کرچکے ہیں۔ تلاش کمیٹی نے گزشتہ برس جون میں تین نام منظوری کے لئے وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیجے مگر ایک سال سے ناموں کی سمری وزیر اعلیٰ سندھ کی میز پر پڑی ہے۔ اروڑ یونیورسٹی آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج سکھر میں ڈاکٹر ثمرین حسین کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا جاچکا ہے۔ بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ اسکلز ڈویلپمنٹ خیرپور میں 7 مارچ سے ڈاکٹر نور احمد شیخ کو شاہ لطیف یونیورسٹی سے بلا کر قائم مقام وائس چانسلر مقرر کررکھا ہے۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو کے وائس چانسلر ڈاکٹر بیکا رام کی پہلی مدت گزشتہ برس مکمل ہوگئی جس کے بعد ڈاکٹر اکرام الدین اجن کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کردیا گیا ہے۔ مہران انجینئرنگ یونیورسٹی گزشتہ برس سے پروفیسر طحہ حسین علی قائم مقام وائس چانسلرہیں۔ لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ 6 ماہ سے معطل ہیں اور عہدے کا چارج سیاسی بنیادوں پر نان پی ایچ ڈی ڈاکٹر امجد سراج میمن کے پاس ہے۔ 11 جامعات کے ڈائریکٹزفنانس کے لیے اشتہار دیا گیا جس کے جواب میں 81 درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور تلاش کمیٹی نے 57 امیدواروں کو اہل قرار دے کر گزشتہ برس ستمبرکے وسط میں انٹرویز کے لیے بلایا تھا لیکن پھر محکمہ بورڈز و جامعات نے اچانک یہ انٹرویوز رکوا دئیے مگر 11 ماہ گزرنے کے باوجود انٹرویوز نہیں ہوسکے۔ دلچسپ امر ہے کہ جامعہ کراچی سمیت مزید 5 جامعات کے ڈائریکٹر ز فنانس کی 3 سالہ مدت 2 ماہ بعد مکمل ہوجائے گی اس طرح سندھ میں ڈائریکٹرز فنانس سے محروم جامعات کی تعداد 25 ہوجائے گی۔ طرح سندھ کے 5 تعلیمی بورڈز میں مدت مکمل کرنے والے ریٹائرڈ چیئرمین موجود ہیں، سکھر تعلیمی بورڈ میں خورشید شاہ کے بھائی مجتبیٰ شاہ گزشتہ 11 برس سے چیئرمین ہیں ان کی عمر 67 برس ہے۔ سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مسرور شیخ ریٹائرہیں اور 8 برس سے چیئرمین کے عہدے پر موجود ہیں۔نواب شاہ میں قائم تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر فاروق حسن گزشتہ دو برس سے قائم مقام ہیں اور وہ بنیادی طور پر سرکاری جامعہ کے وائس چانسلر ہیں۔ میرپورخاص بورڈ کے 65 سالہ چیئرمین پروفیسر برکات حیدری کی مدت ڈیڑھ برس قبل مکمل ہوگئی تھی،اب ان کے پاس حیدرآباد بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کا بھی اضافی چارج ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تلاش کمیٹی نےبورڈز میں سیکریٹریز اورکنٹرولرز کے امیدواروں کے انٹرویوز کیئےتو انہیں دو اہل امیدوار ہی مل سکے لیکن کنٹرولنگ اتھارٹی نے میرٹ پر آنے والے ان دو امیدواروں زرینہ راشد اور ڈاکٹر نوید احمد گجر کو بھی بھرتی نہیں کیا، اسی طرح5تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے عہدوں کے لئے سرچ کمیٹی نے میرٹ پر اہل امیدواروں کا انتخاب کیا اور5ٹاپ امیدواروں نعمان احسن، فضلیت مہدی، قاضی عارف علی، رفیعہ بانو اور کرنل (ر) علمدار کی چیئرمین بورڈ لگانے کی سفارش کی اور ان کے نام تین معتبر انٹیلی جس ایجنسیوں سے کلیئر کرانے کے باوجود ان کو تقرر نامے جاری نہیں کیے ۔ اس کے علاوہ سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز گزشتہ 5 برس سے مستقل ناظم امتحانات اورسیکریٹریز سے مھروم ہیں مگر حکومت کو ان عہدوں پر بھی مستقل تقرری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سیکریٹری بورڈز و جامعات مرید راحموں سے رابطہ کیا تو انھوں نے تسلیم کیا کہا کہ ان معاملات پر تاخیر ہوئ ہے تاہم اب بہت جلد آپ ڈیٹس نظر آئیں گی اور کوشش ہوگی کہ ستمبر تک تمام عہدوں پر تقرریاں کردی جائیں جب کہ لیاری یونیورسٹی کے وی سی ڈاکتر اختر بلوچ کی بحالی کا فیصلہ بھی جلد کرلیا جائے گا۔