عمران کی یو کے، امریکا اور پاکستان میں پالیسی مختلف ہے، تجزیہ کار

August 13, 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ) پی ٹی آئی کا امریکا سے تعلقات میں بہتری لانے کے لئے امریکا میں پی آر فرم کی خدمات حاصل کرنے کا انکشاف ہوا ہے اس حوالے سے جیوکے پروگرام’’ رپورٹ کارڈ‘‘ میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ عمران خان کی یو کے میں پالیسی اور ہے تو امریکا میں پالیسی اور ہے اور پاکستان میں پالیسی اور ہے عمران خان چاہیں تو ڈونلڈ لو کو چور بنادیں چاہیں تو ہیرو بنادیں.

عمران خان کی امریکا کے حوالے سے پوزیشن بہت دو ٹوک ہے جو یہ ہے کہ امریکا کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے تاہم انہوں نے جو ہائپ پیدا کی ہے اس سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ عمران خان امریکا کے ساتھ تعلقات چاہتے ہی نہیں ہیں اور انہوں نے اس کی کئی مرتبہ وضاحت بھی کی ہے کہ میں امریکا سے تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا میں امریکا کی جانب سے مداخلت کے خلاف ہوں ۔

صحافی او رتجزیہ کار بے نظیر شاہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی نے امریکا میں پی آر فرم کی خدمات حاصل کی ہیں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی اور سیاسی جماعت ن لیگ یا پیپلز پارٹی یا دیگر کوئی سیاسی پارٹی یہ کرتی تو طوفان آجانا تھا لیکن اب پی ٹی آئی نے یہ کیا ہے تو فواد چوہدری صحافیوں کوباریکیاں سمجھارہے ہیں کہ لابنگ فرم او رپی آر فرم میں بڑا فرق ہوتا ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنے ووٹر ، اپنے سپورٹر ، اپنے کارکنان سے ابھی تک جھوٹ بول رہے ہیں امریکا نے سازش کرکے پی ٹی آئی حکومت کو گرایا ، پیسہ چلا اور سیاستدانوں کو خریدا گیا مگر اب تو امریکا میں ایک فرم کو پیسے پی ٹی آئی دے رہی ہے تاکہ آپ کے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں اور آپ اپنے ووٹر او رسپورٹر کو یہ نہیں بتارہے کہ آپ کے اپنے کے پی کے وزیراعلیٰ یو ایس ایمبسیڈر سے ملے ، وزیراعلیٰ پنجاب یو ایس قونصل جنرل سے ملے ۔

پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ عوام کو بتائے کہ ان کی سازش کو جو بیانیہ تھا وہ جھوٹا تھا اور اس سے ملک بھر میں نفرت پھیلی ۔ انہوں نے کہا پی آر فرم کو ہائر کرنے میں برائی نہیں ہے یہ تو کئی ممالک کرتے ہیں ۔مگر پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہہ کچھ رہی او رکر کچھ رہی ہے ۔

تجزیہ کار اطہر کاظمی کا اس حوالے سے کہنا تھا سازش کا بیانیہ تو جو نیشنل سیکورٹی کمیٹی ہے وہ دو دفعہ واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ امریکا کی طرف سے مداخلت ہوئی ہے میرا تو سوال یہ ہے کہ جو فرم ہائر کرنے کی بات کی جارہی ہے تو میرا عوام کو مشورہ ہے کہ وہ ڈاکیومنٹس کا مطالعہ کریں.

ان ڈاکیومنٹس میں لکھا ہوا ہے کہ تحریک انصاف کا جو امریکا کے اندر ونگ ہے ان کے کسی بھی نمائندے کا انٹرویو کروانا ا ن کا کسی بھی جگہ پر آرٹیکل چھپنا یا ان کا کسی براڈ کاسٹ میں حصہ لینا میڈیا کے حوالے سے تو یہ تمام معاملات یہ فرم ڈیل کرے گی یعنی اگر کسی میڈیا نے رابطہ کرنا ہے تو یہ فرم بنیادی طور پر پی ٹی آئی کی منیجر ہے اور اس کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

اس میں نہ ہی کوئی ایڈمنسٹریشن کا تعلق ہے اور نہ ہی سیاست کا تعلق ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ عمران خان نے جوبائیڈن سے معافی مانگنے کے لئے یہ فرم ہائر کی ہے ۔ یہ سمجھنے کی چیز ہے کہ یہاں پر کوئی بھی تعلقات ختم کرنے کی بات نہیں کررہا ہے ۔

سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا یہ لابنگ فرم ہوتی کیا ہے اس نے امیج کہاں بہتر کرنا ہے انہیں نہ ہی امیج کراچی میں بہتر کرنا ہے نہ ہی اندرون سندھ میں بہتر کرنا ہے ان کو اپنا امیج بہتر کرنا ہے امریکن حکومت کے اندر ۔

عمران خان کی یو کے میں پالیسی اور ہے تو امریکا میں پالیسی اور ہے اور پاکستان میں پالیسی اور ہے عمران خان چاہیں تو ڈونلڈ لو کو چور بنادیں چاہیں تو ہیرو بنادیں ۔ عمران خان چاہیں تو کسی فوج کے سپہ سالار کو غدار ڈیکلیئر کردیں اور پھر کہہ دیں کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا ۔

عمران خان کے امریکا کے ساتھ جو تعلقات ہیں وہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس کی تفصیلات ہر جگہ اب آرہی ہیں ۔ سینئر تجزیہ کار اور سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا میں اسے منافقت نہیں تضاد کہوں گا.

عمران خان کی امریکا کے حوالے سے پوزیشن بہت دو ٹوک ہے جو یہ ہے کہ امریکا کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے تاہم انہوں نے جو ہائپ پیدا کی ہے اس سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ عمران خان امریکا کے ساتھ تعلقات چاہتے ہی نہیں ہیں اور انہوں نے اس کی کئی مرتبہ وضاحت بھی کی ہے کہ میں امریکا سے تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا میں امریکا کی جانب سے مداخلت کے خلاف ہوں ۔

جو لابنگ فرم ہوتی ہیں ان کے سامنے دو ٹاسک ہوتے ہیں ایک یہ کہ جو پاکستانی بیرون ملک ہیں ان کو پی ٹی آئی کا ہمنوا بنایا جائے دوسرا امریکن لابنگ کے اندر وہ لابی کی جائے ۔