کیا بایاں بازو شل ہوگیا؟

September 29, 2022

سیلاب کسانوں ہاریوں محنت کشوں کو بے گھر کرگیا ہے۔

پرولتاری سڑکوں پر رُل رہے ہیں۔

گور کی کی ماں اپنے بچے کھو بیٹھی ہے۔ اس کا گھر پانی میں ڈوب گیا ہے۔

چیخوف کے غریب۔ بد حال کردار گھٹنوں گھٹنوں پانی میں دلدل میں دھنسے مشکل سے منزل تلاش کررہے ہیں۔

پشکن کے خاک نشیں پانی کی بیماریوں میں مبتلاہیں۔

کہاں ہیں ہمارے ترقی پسند مصنّفین۔ جو کسی دَور میں ایک محنت کش کی تکلیف پر نظموں افسانوں کے انبار لگادیتے تھے۔ کارنر میٹنگیں کرتے تھے۔ مظاہرے کرتے تھے۔

فیض احمد فیض کہہ رہے ہیں۔

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

کہاں ہیں۔ فیض کے عشاق۔ فیض کے ورثا۔ معنوی اور حقیقی۔

احمد ندیم قاسمی کی کہانیوں کی روایتی دیہاتی مائیں بہنیں بیٹیاں حقیقت بن گئی ہیں۔ سندھ بلوچستان جنوبی پنجاب کے پی کے میں ننگے پائوں کھلے سر آسمان کی طرف تک رہی ہیں۔

سو بھو گیان چندانی کے مظلوم انسان کشتیوں کی راہ تک رہے ہیں۔ وڈیرے انہیں بے یارو مددگار چھوڑ گئے ہیں۔ سوبھوجی کی حکمت سے عشق کرنے والے کس دشت میں کھوگئے ہیں۔

شیخ ایاز کی آواز آرہی ہے۔ اس دریا میں جو دہشت ہے/ اک دن محشر بن جائے گی/ تو اور میں تو بس سندھو میں/ اک لہر ابھارے جائیں گے/ مرنا ہے ہر اک انسان کو/ ساتھی کوئی آگ لگا شعلے بھڑکا/ اک نئے کنارے جائیں گے۔ کہاں ہیں شیخ ایاز کے سنگی ساتھی ہونے کے دعویدار۔ یہ جو دادو۔ سانگھڑ۔ جیکب آباد۔ بدین۔ نو شہرو فیروز۔ خیرپور ناتھن شاہ میں مفلوک الحال۔واماندہ۔ پھٹے کپڑوں والے۔ سپاٹ آنکھیں۔ ماتھوں پر سلوٹیں۔ چہروں پر جھریاں لیے ہر آنے والے کو مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ شیخ ایاز تو انہیں دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔ گھر سے نکل پڑتے تھے۔ آپ اب تک ایئر کنڈیشنڈ خواب گاہوں میں کیوں بیٹھے ہیں۔

جناب حیدر بخش جتوئی کی جدو جہد کے مرکز ہاری کی زمینیں پانی میں ڈوب گئی ہیں۔ پانی اترے گا وہ کاشت کرنے جائے گا تو زمین اس کا بھرم رکھے گی کہ نہیں۔ اس کا رزق اسے ملے گا کہ نہیں۔کہاں ہیں حیدر بخش چوک پر جمع ہونے نعرے لگانے والے قوم پرست۔ ہاری ان کا انتظارکررہے ہیں۔

عظیم شاعر میر گل نصیر خان کا نوشکی دوطرفہ سیلابی یلغار سے ڈوب گیا۔ ان کی صدا بلند ہورہی ہے۔ کیسے مانوں کہ یہاں وقت ہے دلشادی کا/ جبکہ کشکول لیے پھرتا ہے مجبور وہی/ کیسے مانوں کہ یہ لوگوں کی حکومت ہوگی/ جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی۔ میر گل خان نصیر سے محبت کرنے والے ہزاروں ہیں۔ ان میں سے کوئی نوشکی گیا۔منہدم مکان۔ تباہ شدہ اسکول دیکھے۔

خیبر پختونخوا کی ندیاں غیور پٹھانوں کی زندگی میں طوفان برپا کرگئی ہیں۔ پہاڑ رو رہے ہیں۔ فارغ بخاری کہہ رہے ہیں۔ کچھ اب کے بہاروں کا بھی انداز نیا ہے/ ہر شاخ پہ غنچے کی جگہ زخم کھلا ہے۔ فارغ بخاری کے عقیدت مندوں میں سے کتنے ڈیرہ اسماعیل خان۔ نوشہرہ۔ چار سدہ۔ مردان۔ دیر لوئر۔ کمراٹ۔ کالام۔ سوات۔ دیر محنت کشوں کا غم بانٹنے گئے۔

جاگیردار، زمیندار، سردار، علماء، مشائخ، گدی نشیں سب اپنی اپنی جگہ محفوظ و مامون ہیں۔ طبقاتی تضاد کھل کر ابھر کر واضح ہوگیا ہے۔ صاف صاف دو پاکستان نظر آرہے ہیں۔ 98فیصد پریشان ہیں۔ دو فی صد مطمئن ہیں۔ مقدمے ختم ہورہے ہیں۔ خود ساختہ جلاوطن۔ بلکہ مفرور اشتہاری واپس آرہے ہیں۔ مگر بائیں بازو والے انقلابی۔ متحرک ۔ سرگرم۔ کامریڈ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ وہ جو انسان کی عظمت کے گیت گاتے تھے۔ بڑے فخر سے ترقی پسند کہلاتے تھے۔ سرخ انقلاب کی نوید دیتے تھے۔ ان کی نظر سیلاب زدگان کی جانب ان لاکھوں بے گھروں کی طرف کیوں نہیں جاتی۔ بائیں بازو سے وابستگی میں بہت سوں نے بہت ترقی کی۔ کارخانے دار بن گئے۔ ارب پتی ہوگئے۔ وہ جو کہتے تھے۔ میں نے گلیوں میں تو دیکھے ہیں گلابی چہرے/ اور طاعون پس پردہ در دیکھے ہیں۔ انہوں نے پس پردہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کو حسن اب بھی دلکش نظر آتا ہے۔ ان کی نظر ادھر کو نہیں لوٹتی ہے۔ انہیں محبت کے سوا کوئی دُکھ نظر نہیں آرہا۔وہ صرف وصل کی راحت کے اسیر ہیں۔

دائیں بازو والے بازی لے گئے ہیں۔ ہر جگہ خدمت کے لیے موجود ہیں۔ ائمہ مساجدمتاثرین کو پکا پکایا کھانا فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مذہبی تنظیمیں متحرک ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کی پیاس پینے کے صاف پانی سے بجھارہی ہیں۔ خشک راشن مہیا کررہی ہیں۔ ملک کی تینوں مسلح افواج اپنے ہیلی کاپٹروں۔ ٹرکوں۔ کشتیوں سے ان متاثرین تک پہنچ رہی ہیں۔ دکھ بانٹ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ۔ دوست ممالک چین، ترکی، سعودی عرب،بحرین، متحدہ عرب امارات کے جہاز اتر رہے ہیں۔ امدادی سامان کے کنٹینر متعلقہ مقامات تک جارہے ہیں۔

نہیں نظر آتے ہیں۔ تو ایم این اے، ایم پی اے ،سینیٹر۔ حالانکہ اپنے اپنے علاقوں میں انہیں ہی سیلاب زدگان اور مخیر اداروں کے درمیان رابطہ بننا چاہئے تھا۔ منتخب جمہوری ڈھانچہ۔ پارلیمنٹ۔ قومی اسمبلی ۔ صوبائی اسمبلی اس طرح فعال نہیں رہیں۔ جو وقت کا تقاضا تھا۔ یہ پہلے بھی ایسے ہی بے حس رہے ہیں۔ بائیں بازو سے وابستگان کی تاریخ تو بے حسی کی نہیں تھی۔ وہ تو ایک فرد کے کرب پر باہرنکل آتے تھے۔وہ تو سفاک مارشل لائوں سے ٹکراتے رہے ہیں۔ شقی القلب سیٹھوں کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ٹریڈ یونین تنظیمیں کتنی متحرک ہوتی تھیں۔ اب کتنے قلی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ ٹرینیں نہیں چل رہی ہیں۔ تو ان کو روزانہ اجرت نہیں مل رہی۔ کہاں ہیں وہ جماعتیں جو کبھی کبھی بائیں بازو کے اتحاد کا نعرہ بلند کرتی تھیں۔ کیا بایاں بازو شل ہوگیا ہے؟

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں