اٹلی انتخابات میں جورجیاملونی کی کامیابی

September 29, 2022

فار رائٹ یعنی انتہائی دائیں بازو کی لیڈر جورجیا ملونی نے اٹلی کے عام انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے، اور وہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے والی ہیں۔توقع ہے کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اٹلی میں پہلی فار رائٹ حکومت تشکیل دیں گی۔یورپی یونین کی تیسری بڑی معیشت ہونے کی وجہ سے یہ یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔تاہم اتوار کو ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ملونی نے کہا کہ ان کی جماعت ’برادرز آف اٹلی‘ عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائے گی اور ان کی ’حکومت سب کے لیے‘ ہوگی۔دارالحکومت روم میں ’شکریہ اٹلی‘ کا کتبہ اٹھائے ہوئے انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اطالوی عوام نے بہت واضح پیغام دیا ہے کہ وہ برادرز آف اٹلی کی سرکردگی میں فار رائٹ کی حکومت چاہتے ہیں۔‘ابتدائی نتائج سے لگتا ہے کہ وہ 26 فیصد ووٹ حاصل کر لیں گی جو سینٹر لیفٹ کے ان کے قریب ترین حریف اینریِکو لٹا سے کہیں زیادہ ہیں۔توقع ہے کہ ان کا اتحاد دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ (ایوانِ بالا) اور چیمبر آف ڈیپیوٹیز (ایوانِ زیریں) میں 44 فیصد ووٹ کے ساتھ کنٹرول حاصل کر لے گا۔چار برس پہلے برادرز آف اٹلی کو محض چار فیصد ووٹ ملے تھے۔ مگر اس بار قومی اتحاد کی حکومت میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ حکومت جولائی میں گر گئی تھی۔اٹلی کا اگلا لیڈر ہونے کا انحصار صدر سرگیو میٹاریلا کے فیصلے پر ہوگا اور اس میں وقت لگے گا۔اگرچہ جورجیا ملونی نے یوکرین کی حمایت کر کے اور یورپی یونین مخالف بیانیے میں لچک لا کر اپنے بارے میں پائے جانے والے تصور میں نرمی لانے کی کوشش کی ہے، مگر وہ ایک ایسی جماعت کی سربراہ ہیں جس کا ماضی ایک ایسی تحریک سے جڑا ہوا ہے جو جنگ کے بعد بنیٹو مسولینی کے فسطائیوں نے شروع کی تھی۔(یہ اٹلی کی ایک سیاسی تحریک تھی جس کا آغاز مسولینی کے زیر قیادت 1919 میں ہوا، اور یہ نسلیبرتری، آمریت، شدید قوم پرستی اور حصول مقاصد کے لیے جبر و تشدد کے استعمال کو قابل قبول سمجھتی تھی، نیز اشتراکیت اور جمہوریت کی ضد قرار دی جاتی تھی۔)اس سال کے آغاز میں جورجیا ملونی نے سپین کی فار رائٹ ووکس پارٹی کے ایک جلسے میں اپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’فطری خاندان کو ہاں، ایل جی بی ٹی کو ناں، جنسی شناخت کو ہاں، صنفی نظریے کو ناں ۔۔۔ اسلام پسندوں کے تشدد کو ناں، محفوظ سرحدوں کو ہاں، کثیر تعداد میں ترک وطن کو ناں، بڑی بین الاقوامی مالیات کو ناں ۔۔۔۔ برسلز (یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر) کی افسر شاہی کو ناں!‘اٹھارہ ماہ پر محیط قومی اتحاد کی حکومت کی ناکامی کے بعد بائیں بازوں کی جماعتیں کوئی قابل عمل متبادل پیش نہیں کر سکیں اور حکام رائے شماری سے پہلے ہی حوصلہ ہار چکے تھے۔ووٹروں کا ٹرن آؤٹ بھی 63.91 فیصد رہا جو 2018 کے مقابلے میں نو پوئنٹ کم ہے۔ خاص طور سے ملک کے جنوبی حصوں میں لوگوں کی کم تعداد نے ووٹ ڈالے۔اٹلی یورپی یونین کے بانیوں میں سے ایک اور نیٹو کا رکن ملک ہے۔ مگر ملونی کا بیانیہ انھیں ہنگری کے قوم پرست راہنما وِکٹر اوربن کے قریب لا کھڑا کرتا ہے۔ان کے دونوں اتحادیوں کے روس سے قریبی روابط رہے ہیں۔ پچیاسی سالہ برلسکونی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ روسی صدر ولادمیر پوتین کو یوکرین میں مداخلت پر مجبور کیا گیا ہے، جبکہ سلوِینی نے ماسکو پر مغربی پابندیوں کو چیلنج کیا تھا۔ہنگری نے اٹلی کی دائیں بازوں کی جماعتوں کے اتحاد کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ ایسے زیادہ دوستوں کی ضرورت ہے جو یورپ کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے مشترکہ سوچ رکھتے ہیں۔