بنتِ حوا کا جینا ہر حال میں مشکل

October 01, 2022

پہلی عورت کی موت جو میں نے دیکھی وہ زچگی کے دوران پیچیدگی سے ہوئی تھی، کیوں کہ مرد ڈاکٹر اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا۔ دوسری موت اس لڑکی کی تھی جو ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور بھائی اسے دوسرے شہر نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔ مٹی کا تیل چھڑک کر جلائی گئی۔ اب میں نے گننا چھوڑ دیا ہے۔ صرف تب گنتی ہوں جب قتل کرنے والا کوئی نیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ میں نے وہ لڑکیاں اور عورتیں بھی دیکھیں، جو زندہ ہیں۔ کسی کے پاؤں کی انگلی فریکچر ہے، کسی کی کلائی کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے، کسی کی ناک ٹیڑھی ہے اور کسی کے چہرے جھلسے ہوئے۔

ایک وہ ہیں جن کے جسم پر زخم نہیں لیکن ان کے ذہن پہ داغ ہیں۔ ہر وقت بدکرداری ، پھوہڑ پن کا طعنہ، اولاد نہ ہونے کا داغ، بیٹا نہ ہونے کی وجہ بھی اور بیٹیاں پیدا کرنے کی بھی، وہ ہی مورد الزام۔ شوہر کے دوستوں کے سامنے آنے کا طعنہ۔ وہ بھی ہیں جو ان سب پھندوں سے نکل کر۔ اپنے خوابوں کے پیچھے وہاں چلی گئیں کہ ان کے نام دنیا نے یاد اور چہرے شناخت کرلیے۔ اب دن رات انھیں فحش گالیوں، نیچ القابات سے نوازا جاتا ہے۔ نور، سارا کے قتل تک اور اب اس کے بعد بھی جو قتل ہوتے رہیں گے، ان سب کے نام مختلف ہیں، شکلیں اور قومیتیں مختلف ہیں، مگر قاتل ایک ہی ہے۔

قاتل اور مقتول کے درمیان رشتہ ایک ہی ہے یعنی ظالم اور مظلوم کا۔ ان کو بہن، بیوی، بیٹی، پڑوسن کہہ لیجیے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اخبار میں لکھنے والی، ٹی وی پر گانے والی، نکڑ پر بھیک مانگنے والی، گھر میں جھاڑو برتن کا کام کرنے والی، یومیہ اجرت پر پتھر کوٹنے والی، اسکول کی استانی، وہ کسی بھی وقت، کسی بھی وجہ کے بغیر قتل کی جا سکتی ہیں۔ وجہ کوئی نہیں پوچھے گا ،کیوں کہ کچھ نہ کچھ تو کیا ہی ہو گا۔ لڑکیاں کب قتل نہیں ہوتی تھیں؟ مگر اب یہ سوشل میڈیا، روز ایک موت کی خبر بناتا ہے، دکھاتا ہے، چلاتا ہے، جھنجھوڑتا ہے، سوال کرتا ہے، جواب دیتا ہے، لڑتا ہے، سونے نہیں دیتا۔ نیند پہلے بھی اڑتی تھی، جب چولہا پھٹتا تھا اور صرف بہو جلتی تھی۔

نیند تب بھی اُڑتی تھی جب بھائی وار کر کے بہن کو قتل کر کے قتل غیرت کے نام پر چھوٹ جاتا تھا۔ نیند تب بھی نہیں آتی تھی جب آشنا، لڑکی کو قتل کر کے لاش سوٹ کیس میں بند کر کے پھینک جاتا تھا۔ نیند اب بھی نہیں آتی۔ مدد کے لیے پکارنے والیوں کی آواز سننے سے ہم اس وقت تک گریز کرتے ہیں جب تک ان کی تشدد زدہ لاش ہمارے سامنے نہیں آ جاتی۔

تب ہمیں ان کے ادھورے جملے یاد آتے ہیں، ان کے آنسو، ان کی باڈی لینگویج، چہرے پر کیے گئے گہرے میک اپ تلے چھپے نیل اور ان کے یہ دعوے کہ ہم بہت مضبوط ہیں، مگر تب یہ یاد پچھتاوا بن کے رہ جاتی ہے۔ مجرم کے لیے دلیل ڈھونڈنے سے خود کو روکنے میں ہمیں ابھی بہت وقت لگے گا لیکن اگر کوئی مدد کے لیے پکارے تو چاہے یہ پکار کتنی ہی مدھم کیوں نہ ہو، سن لیجیے۔ممکن ہے کچھ عرصے میں یہ پکار بھی سنائی نہ دے۔ (آمنہ مفتی)