’’پاکستانی ونڈر وومن‘‘

November 11, 2022

انسٹیٹیوٹ آف یورپین بزنس ایڈمنسٹریشن نے جب125 ممالک میں سروے کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ پاکستانی عوام دنیا کے عقلمند ترین لوگوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔ کیا آپ اس سے پہلے یہ جانتے تھے یا آپ کو اس سروے کے حوالے سے کسی نے بتایا؟ شاید آپ اس اہم ترین معلومات سے محروم ہوں۔ یہی وہ بات ہے جو صادق آباد(پنجاب) سے تعلق رکھنے والی’’ شفیقہ اقبال‘‘ جو آج دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل میں بطور ڈیٹا انجینئر کے کام کر رہی ہیں۔

شفیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ تو بہت زیادہ ہے، لیکن لوگوں کو اپنی worth اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ پاکستانی نوجوان پُر اعتماد نہیں ہیں، اگر اِن میں اعتماد کی کمی کسی طرح دور ہو جائے تو وہ تمام کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں جو دنیا میں کوئی بھی دوسرا طالب علم، سائنسدان، ڈاکٹر یا انجینئر اپنے اپنے شعبے میں انجام دے رہا ہے۔

شفیقہ اقبال نےچند ماہ قبل 24سال کی عمر میں ملازمت کا آغاز کیا۔ آپ انہیں پاکستان کی’’ ونڈر وومن‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ ’’وومن ٹیک نیٹ ورک‘‘ کی عالمی سفیر بھی ہیں۔ اِن کے سکل سیٹ، بگ ڈیٹا انجینئرنگ میں ان کی مہارتوں اور ان کے ٹیلنٹ سے متاثر ہوئے بغیر گوگل کے سافٹ ویئر انجینئرز بھی نہ رہ سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شفیقہ اقبال نے گوگل میں نوکری کے لیے درخواست نہیں دی تھی، بلکہ کمپنی نے خود انہیں نوکری کی آفر کی، جو ان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ شفیقہ اقبال کو دنیا کے سب سے بڑے فری لانسنگ پلیٹ فارمز میں سے ایک ’’اپ ورک‘‘ میں ٹاپ ریٹڈ سیلر کا اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے۔ گوگل میں ملازمت کرنے سے قبل وہ لاہور میں بطور ڈیٹا انجینئر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کام دیکھتے ہوئے گوگل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ لنکڈن کے ذریعے اِن تک رسائی حاصل کی اور ان کی قابلیت کو مدِنظر رکھتے ہوئےاپنی کمپنی میں ملازمت کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول کرلی۔ اب وہ گوگل کے وارسا، پولینڈ میں قائم گوگل آفس میں کام کر رہی ہیں۔ جہاں 1300 ملازمین میں شفیقہ واحد پاکستانی ہیں۔

شفیقہ صادق آباد سے گوگل کیسے پہنچیں، یہ ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔

گوگل کے تمام دفاتر میں آپ کو دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ نظر آئیں گے۔ گوگل کی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں ٹیلنٹ چاہے کہیں سے بھی ہو وہ اُن کے پاس آئے اور کام کرے، بس اپنے’’ ٹیلنٹ ہنٹ‘‘ پروگرام کے ذریعے ہی شفیقہ اقبال کو گوگل نے پاکستان سے ہائیر کیا ۔

دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ شفیقہ نے پولینڈ آنے کے لیے نہ کوئی ایجنٹ ہائیر کیا اور نہ ہی کوئی ریکوروٹر( recruiter)کی مدد مستعار لی، بلکہ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ لنکڈ اِن کے ذریعے یہاں تک پہنچ گئیں۔ گوگل نے انہیں انٹرنیٹ پر خود ہی تلاش کیا اور لنکڈان پر اِن کا پروفائل دیکھ کر گوگل کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے انہیں ہائیر کر لیا۔ اس مقام تک پہنچنا یقیناً شفیقہ کے لیےہی نہیں پاکستان کی تمام لڑکیوں کے لیے فخر اور اعزاز کی بات ہے۔

شفیقہ نے مڈل تک تعلیم گورنمنٹ ایلیمنٹری ا سکول، صادق آباد سے حاصل کی۔ جب کہ میٹرک اقرا پبلک اسکول سے اور انٹرمیڈیٹ پنجاب گروپ آف کالجز سےکیا۔یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے یہ صادق آباد سے لاہور منتقل ہوئیں۔ یہاں پنجاب یونیورسٹی سے سافٹ ویئر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے لاہور میں تقریباً ڈھائی سال تک پرائیویٹ کمپنیز میں ملازمت کی، ساتھ ساتھ بطور فری لانسر بھی مختلف پروجیکٹس پر کام کرتی رہیں۔

اس دوران بلاگنگ بھی شروع کی، جس نے دنیا بھر سے مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کی توجہ اِن کی جانب مبذول کروائی۔ اِنہی میں سے دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی’’ گوگل‘‘ بھی تھی، جس نے صرف ایک انٹرویو کے بعد انہیں ملازمت پر رکھ لیا۔ گوگل کمپنی کی ایک خاص بات شفیقہ بتاتی ہیں کہ یہاں کام کرنے کیلئے آپ کے پاس صرف ایک لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن ہونا ضروری ہے، آپ دنیا کے کسی بھی کونے سے بیٹھ کر بھی شفیقہ گوگل کے لیے ورک فرام ہوم کرتی رہی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یوں تو ہزاروں ڈیٹا انجینئرز موجود ہیں لیکن گوگل نے صادق آباد جیسے ایک قدرے شہر سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی شفیقہ اقبال سے رابطہ کیوں کیا۔ تو اس کا جواب شفیقہ نے خود اپنے ایک انٹرویو میں یوں دیا کہ 99فی صد لوگ (ڈیٹا /سافٹ ویئر انجینئرز) کیا کام کررہے ہیں، اس بات کا تعین کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں نے اِن 99فی صد لوگوں سے مختلف، منفرد اور بہتر بننا ہے۔ میں نے بھیڑ چال سے ہٹ کر چلنے کا سوچا ،جو 0.1فی صد لوگ زندگی جی رہے ہیں، اُن کی فہرست میں شامل ہونے کی کوشش کی اور کام یاب بھی ہوئی۔

میں سمجھتی ہوں ہمیں اپنے کنفرٹ زون سے باہر آنا چاہیے، اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم ایک ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھتے ہیں، اس وجہ سے وہ گوگل یا اس جیسی دوسری ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی میں ملازمت نہیں کر سکتے۔ بلکہ آج تو انٹرنیٹ کی وجہ سے ہاورڈ یونیورسٹی سے لے کر سٹینڈفورڈ اور آکسفورڈ تک کے بے شمار کورسز آن لائن ہورہے ہیں، جن سے مستفید ہواجا سکتا ہے۔ شفیقہ اپنے مستقبل سے پر اُمید ہیں، مزید آگے بڑھنے کی کوشش کررہی ہیں۔