ریاستِ مدینہ کی تلاش

December 02, 2022

فہیم صدیقی

ہم کافی دیر سے دنیا بھر کے موضوعات پر بات کررہے تھے اور میں دل ہی دل میں اس بات کا معترف تھا کہ اس کی ہر موضوع پر مضبوط گرفت ہے، وہ صرف مفروضے پر بات نہیں کرتا ،اس کے پاس دلائل تھے اور جس نکتے پر وہ ٹہرنا چاہتا، اس پر بات کرتے ہوئے وہ ناصرف تاریخ بلکہ مذہب اور فلسفے سے بھی حوالے دیتا ، اس کے پاس لفظوں کا خزانہ تھا ،جو وہ مسلسل لٹا رہا تھا ،وہ پاکستان گھومنے آیا تھا اور چند روز میں اس کی اپنے وطن نیوزی لینڈ واپسی تھی، اس وقت وہ اسلام آباد جانے کے لیے کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھا ،موسم کی خرابی کی وجہ سے فلائٹ میں تاخیر پر ہم دونوں لاؤنج میں بیٹھے وقت گزار رہے تھے، مجھے ڈین براؤن کا شہرہ آفاق ناول ڈاونچی کو پڑھتے دیکھ کر اس کا پہلا تبصرہ ہی ایسا تھا کہ میں اس میں دلچسپی لیے بغیر نہ رہ سکا"بہت سے لوگوں نے احمقوں کو دھوکا دیتے ہوئے فریب کاریوں کی تجارت کی ہے، ڈاونچی"

میں نے کتاب پر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا، ہماری نظریں ملنے پر وہ مسکرایا اور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا میں رابرٹ ہوں۔

میں نے مسکراتے ہوئے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا اور اپنا نام بتاتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑنے سے پہلے ہی اس سے سوال بھی کرڈالا،کیا تم ڈاونچی کی اس بات پر یقین کرتے ہو ؟؟؟

اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا بطور عیسائی تو مجھے ڈاونچی کے نظریات سے اختلاف کرنا چاہیے، لیکن میں اس کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں۔

وہ رکا، کچھ سوچا اور پھر بولا، ناصرف یہ بلکہ میرا تو ماننا ہے کہ ڈاونچی نے یہ بھی غلط نہیں کہا تھا کہ "اندھی جہالت ہمیں گمراہ کرتی ہے"

تو اس کا مطلب ہے تم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہو کہ موجودہ بائبل انسان کی تخلیق ہے، خدا کی نہیں … میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا…

اس دفعہ جواب دینے سے پہلے اس نے مجھے غور سے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولا ،میں کیتھولک ہوں، اگر یہ مان لوں گا تو مجھے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عیسیٰ خدا کے بیٹے نہیں تھے اور پہلے قیصر روم نے 313 عیسوی میں سورج پرستی اور مسیحیت کو ملا کر جس نئے مذہب کی بنیاد رکھی تھی، وہ آج کا عیسائی مذہب ہے۔

میں نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماننے کے لیے تو یہ دلیل ہی کافی ہے کہ عیسائی اپنی ہفتہ وار عبادت جس دن مناتے ہیں، وہ دن ہی سورج کی عبادت کے حوالے سے sun+day کہلاتا تھا۔

وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور بولا تلاش کرنے پر ایسی تو کئی نشانیاں تلاش کی جاسکتی ہیں ،بس ماہر آثار قدیمہ ہونا چاہیے، ویسے مجھے جو کشش تمہارے ملک کھینچ کر لائی، وہ بھی آثار قدیمہ ہی ہے اور پھر وہ اس موضوع پر بلا تکان بولتا چلا گیا ،موئنجودڈو، ہڑپا، تخت بائی اور دیگر آثار قدیمہ پر بات کرتا ہوا، وہ ٹیکسلا پر پہنچا اور بولا میں تو حیران ہوں کہ دنیا فتح کرنے کی دیوانگی میں سکندر اعظم یہاں تک آگیا تھا۔

دیوانگی تو کسی سے بھی اور کچھ بھی کراسکتی ہے، سکندر اعظم ہو یا سکندر برگ جس کے ماننے والے آج بھی تمہارے ملک میں مساجد میں خون بہاتے پھر رہے ہیں ،میں نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔

اسے چپ لگ گئی ،کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولنا شروع ہوا، عیسائی فوجی تاریخ میں البانوی عیسائی کمانڈر سکندر برگ یا سکندر بیگ کو اہم مقام حاصل ہے ،لیکن تاریخ کے ایک ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت سے میں یہ جانتا ہوں کہ 20 سال خلافت عثمانیہ کا حصہ رہنے والے سکندر بیگ کی پوری لڑائی نسلی بنیادوں پر تھی، نا کہ مذہب کی بنیاد پر… سکندر بیگ کا باپ بھی سلطان کا نوکر تھا اور خود سکندر بیگ بھی… وہ خلافت عثمانیہ کے ایک کمانڈر کی حیثیت سے عیسائیوں کے خلاف جنگیں لڑتا رہا اور جانتے ہو اس بات پر اس کے باپ کو کئی سال تک عیسائی سینیٹ سے معافی نہ مل سکی تھی۔ میرا تو ماننا ہے کہ سکندر بیگ ایک احسان فراموش شخص تھا ،خلیفہ سلطان مراد نے اسے دو بار کرک کا گورنر تعینات کیا اور ایک موقع پر اس پر اعتماد کرتے ہوئے اسے والی کرک کا منصب بھی عطا کیا ،لیکن سکندر بیگ نے سلطان مراد کے خلاف بغاوت کی اور 2 جنوری 1444 ءکو جنگ کے ایک میدان سے اپنے 300 البانوی ساتھیوں سمیت بھاگ کھڑا ہوا، وہ سیدھا کرک پہنچا ،جہاں اس نے خلیفہ سلطان مراد کا جعلی خط اس وقت کے گورنر کو پیش کیا اور خود گورنر بن کر بیٹھ گیا۔

اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کے لیے رکا …میں تاریخ پراس کے گہرے مطالعے پر حیران تھا اور منتظر تھا کہ وہ مزید کچھ بولے ،لیکن اس بار وہ بولا تو مجھے حیران کرگیا…"میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں"

میرے اندر خوشی کی ایک لہر اٹھی اور فخر کا ایک احساس جاگا، میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ وہ پھر بول اٹھا۔

“میں نے تمہارے مذہب کا بھرپور مطالعہ کیا ہے اسلام زندگی کے ہر زاویے کا احاطہ کرتا ہے “

’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘‘ میں اس کی بات کاٹ کر بولا …

ہاں اسلام میں ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت ،اس کے حقوق نا صرف واضح ہیں ،بلکہ ان کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ؟ یہ بھی بتادیا گیا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے رہنما اُصول جیسے اسلام نے بیان کیے ہیں، میں نے کسی اور مذہب میں نہیں پائے۔ اخلاقیات، معاشیات، ریاست غرض نظام زندگی سے متعلق کوئی ایسا شعبہ نہیں ،جس کے لیے اس مذہب میں رہنمائی نہ ہو …

پھر تم نے آج تک اسلام قبول کیوں نہیں کیا؟ یہ خیال تمہیں آج ہی کیوں آیا؟اس کے سانس لینے کےلیے ٹہرتے ہی میں نے جلدی سے سوال کیا…

وہ مسکرایا اور مجھے لگا، جیسے اس کی مسکراہٹ میں ایک طنز ہو ،وہ بات جاری رکھتے ہوئے بولا …

میں اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہوں ،لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ قبول اسلام سے پہلے میں پورے عالم اسلام میں ایک ایسا معاشرہ تلاش کررہا ہوں ،جہاں قبول اسلام کے بعد میں اسے مسلم معاشرہ سمجھ کر وہاں جا کر رہ سکوں … جہاں اخلاقیات بھی وہی ہوں اور معاشیات بھی وہی جو اسلام نے بیان کیں، ہمسایہ ہمسائے سے محفوظ ہو، جھوٹ اور بے ایمانی کا گزر تک نہ ہو، نہ ناپ تول میں کمی ہو اور نہ سود جیسی لعنت اور ریاست بھی مدینہ جیسی ہو، جہاں حاکم وقت چند گز کپڑا زیادہ ہوجانے پر عام آدمی کو وضاحت دینے کا پابند ہو…

مجھے یوں لگا جیسے میرے گلے میں کچھ پھنس گیا ہو، مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کی اس بات کا کیا جواب دوں؟ وہ چپ ہو کر طنزیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا ،جیسے میرے جواب کا منتظر ہو، اسی وقت اسپیکر پر اسلام آباد جانے والی فلائٹ کے لیے اناؤنسمنٹ شروع ہوگئی۔ میں نے جلدی سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے سفری سامان کی طرف ہاتھ بڑھایا اور دوسرا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ،رابرٹ ،شکریہ آپ سے مل کر اور بات کرکے خوشی ہوئی، زندگی ہوئی تو پھر ملیں گے۔ اس سے ہاتھ ملا کر میں فوراً ہی آگے بڑھ گیا اور وہ اپنی جگہ بیٹھا مجھے جاتے دیکھتا رہا…!