حُسنِ مُعاشرت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر عمل

December 02, 2022

مولانا نعمان نعیم

کہا جاتا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے ، یعنی وہ تنہا نہ ایک خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے اور نہ تنہا اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے ، وہ نہ صرف بیوی بچوں کا محتاج ہوتا ہے، بلکہ اسے خاندان اور معاشرے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، اسی ضرورت سے باہمی تعلقات وجود میں آتے ہیں ،پڑوسیوں سے تعلق ، مقامی تاجروں سے ارتباط ، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے استفادہ ، سفر کرتے ہوئے سفر کے ساتھیوںکالحاظ ، گاڑی چلاتے ہوئے ان دوسرے لوگوں کا خیال جو ہمارے ساتھ رواں دواں ہیں ، معالج اور مریض ، تاجر اور گاہک ، آجر اور مزدور ، استاذ اور طالب علم ، حکومت کے نمائندے اور رعایا ، غرض کہ زندگی کے ایک ایک لمحے میں انسان گھر سے باہر تک ایک دوسرے سے تعلقات رکھنے پر مجبور ہیں ، جیسے بجلی کا ایک بلب روشنی دینے میں کرنٹ کا محتاج ہے، اسی طرح انسان مختلف ضرورتوں کو پوری کرنے میں کتنے ہی انسانوں ، جانوروں مشینوں اور مادی وسائل کا ضرورت مند ہے۔

اب اگر وہ اس ضرورت کو خوش گوار طریقے پر پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسے وہ چاہتا ہے کہ اس کا خیال و لحاظ رکھا جائے ، اسی طرح وہ خود دوسروں کا بھی خیال و لحاظ رکھے ، رسول اللہﷺ نے اس کے لئے بڑی خوب تعبیر اختیار فرمائی ہے کہ مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے لئے جس چیز کو پسند کرتا ہے ، اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرے ۔‘‘ ( صحیح بخاری ، کتاب الایمان ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا بھائی جس کیفیت سے دوچار ہو ، انسان غور کرے کہ اگر اس وقت وہ اس کیفیت سے دوچار ہوتا تو وہ اپنے ساتھ کس سلوک کا خواہش مند ہوتا ؟ وہی سلوک اس کے ساتھ کرنے کی کوشش کی جائے ، آپ بس میں بیٹھے ہوئے ہیں ، حالاںکہ نوجوان اور صحت مند ہیں، اگر کھڑے بھی ہوجائیں تو کوئی بڑی دشواری نہ ہو ، آپ کے بازو میں ایک بزرگ شخص کھڑے ہوئے ہیں ، ہاتھوں میں عصا ، کمر جھکی ہوئی ، قدموں میں لڑکھڑاہٹ ، ہاتھوں میں لرزش اور جسم لا غر ، کسی چیز کو تھامے ہوئے ، اب غور کریں کہ اگر آپ اس عمر میں ہوتے تو کیا سوچتے ؟ یہی کہ کوئی نوجوان اُٹھ کر آپ کو اپنی جگہ بٹھادے ،ایسے وقت میں اگر آپ کھڑے ہوجائیں اور اپنی جگہ پر ان بزرگ کو بٹھادیں تو آپ کو ان سے بغیر کسی خواہش اور طلب کے ڈھیر ساری دُعائیں ملیں گی اور آپ کا عمل رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر ہوگا کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ، وہی دوسروں کے لئے پسند کرو۔

ٹرین میں بہت سی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو نیچے کی برتھ مل گئی اور کسی خاتون کے حصے میں اوپر کی برتھ ہے ، اس کے لئے خود ہی اوپر چڑھنا دشوار ہے اور اگر اس کے چھوٹے بچے بھی ہوں تو پھر تو یہ عمل دشوار تر ہوجاتا ہے ، اگر اس وقت آپ کی فیملی اور آپ کے بچے ہوتے تو یقینا ًآپ چاہتے کہ آپ ان کے لئے نیچے کی برتھ کا انتظام کریں ، اب اگر آپ یہاں تھوڑی سی مشقت کو برداشت کرلیں اور اپنی اس انسانی بہن کو اپنا برتھ حوالے کردیں تو سوچئے کہ اس کے دل میں کس قدر شکر کے جذبات موجزن ہوں گے ؟

سفر و حضر میں کتنے ہی مواقع آتے ہیں ، جب ایسے عمل کی ضرورت پڑتی ہے، یہ طرز عمل انسان کو لوگوں کی نگاہ میں محبوب بنادیتا ہے اور جو انسانوں کے درمیان محبوب ہوتا ہے ، اسے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے ۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے ، جو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہو اور اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ شخص ہے جو لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ ہو۔‘‘ (المعجم الاوسط ،للطبرانی) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺنے بیان فرمایا ’’ ایمان والے کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ خود محبت کرتا ہے اور وہ اس لائق ہوتا ہے کہ اس سے محبت کی جائے ، اور اس شخص میں خیر نہیں ہے جو نہ خود محبت کرتا ہو اور نہ اس سے محبت کی جاتی ہو ‘‘۔ اسی لئے آپ ﷺنے حسن اخلاق کی بڑی تاکید فرمائی ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم میں سے وہ شخص مجھ سے قریب ہوگا ، جس کے اخلاق بہتر ہوں گے ، اور مجھ سے سب سے دُور وہ شخص ہوگا ، جس کے اخلاق خراب ہوں گے ‘‘ ۔ (مسند احمد )

یہ تو اخلاق کا ایک پہلو ہے کہ دوسروں کے کام آیا جائے ، اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دی جائے ، خود نقصان اُٹھاکر دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے اور خود مشقت برداشت کرکے دوسروں کے لئے راحت و آرام کے مواقع پیدا کئے جائیں ، یہ اخلاقی احکام بعض حالات میں واجب بھی ہوجاتے ہیں ، لیکن زیادہ تر مستحب کے درجے میں ہیں ، اخلاق کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ کے کسی عمل سے دوسرے کو نقصان نہ پہنچ جائے ، یہ شرعاً واجب ہے ، قرآن و حدیث میں اس کی جزوی تفصیلات اتنی وضاحت سے ذکر کی گئی ہیں کہ عبادات کے سوا کسی اور شعبۂ زندگی میں اتنی زیادہ تفصیل کا ذکر نہیں ملتا،چنانچہ آپ ﷺنے تو کسی ایسے عمل کو بھی پسند نہیں فرمایا ، جس سے جانور کو تکلیف ہو ، آپ ﷺنے جانور کے چہرے پر مارنے اور اسے برا بھلا کہنے کی بھی ممانعت کی ‘‘۔ ( مسند احمد)

آپﷺ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ ایک جانور پر تین تین آدمی سوار ہوں ۔‘‘ (المعجم الاوسط ) گویا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوگیا کہ سواری چاہے جانور کی شکل میں ہو یا کسی مشین کی شکل میں ، اس پر اس کی طاقت و صلاحیت کے لحاظ سے ہی بیٹھنا چاہئے ، اگر اس کی رعایت نہ کی گئی تو حادثات پیش آسکتے ہیں ، جو خود ان کے لئے بھی نقصان کا باعث ہوسکتا ہے اور دوسرے راہ گیروں کے لئے بھی ، اس لئے ایسا عمل نہ صرف قانوناً درست نہیں ہے ، بلکہ شرعاً بھی درست نہیں۔

آج اگر ہم اپنی عملی زندگی میں دیکھیں تو کتنے ہی مواقع پر ہم ایسا عمل کرتے ہیں ، جو دوسروں کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے ، اور لطف یہ ہے کہ ہم ایسے کاموں کو اپنی عقل مندی اور ہوشیاری باور کرتے ہیں ، مثلاً بہت سے لوگ استعمال شدہ پانی کے اخراج کے لئے نالیاں سڑک پر نکال دیتے ہیں ، آنے جانے والوں کو دقت ہوتی ہے ، تعفن پھیلتا ہے ، کپڑے خراب ہوتے ہیں ، لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ، قانون کے مطابق تو ہمیں گھر بناتے وقت اپنی زمین کا کچھ حصہ چھوڑنا چاہئے ، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ زمین کا کچھ حصہ چھوڑنا تو کجا ہم سڑک کے حصے میں سیڑھیاں ، چبوترے اور چھجے بنالیتے ہیں اور ہم ذرا بھی غور نہیں کرتے کہ اگر اس طرح ہم نے کوئی زمین غلط طریقے پر اپنے استعمال میں لے لی تو ہم نے ایک ہی فرد کو تکلیف نہیں پہنچائی، بلکہ ہزاروں افراد کو تکلیف و مشقت میں مبتلا کیا اور ان کی حق تلفی کی ، اس طرح ہم اجتماعی طورپر زمین غصب کرنے کے گناہ گار ہوں گے، محلوں میں یہ بات عام ہے کہ اپنے گھروں کا نکلا ہوا کچرا راستے پر یا کسی کے گھر کے سامنے ڈال دیا، اسی طرح ایک عام مزاج یہ ہے کہ راستے میں گاڑیاں ٹھہرادیں، جہاں پارکنگ نہیں ہے ، وہاں گاڑی کھڑی کردی ، اس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوتی ہے ، کتنے ہی ضرورت مند لوگ وقت پر اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ، منٹوں کا سفر طے کرنے میں گھنٹے لگ جاتے ہیں ، فلائٹیں، ٹرینیں اور بسیں چھوٹ جاتی ہیں، اس کے نتیجے میں ٹکٹ ضائع ہوجاتا ہے ، مریض وقت پر ہاسپٹل نہیں پہنچ پاتا ، یہاں تک کہ ایمبولنس کو بھی لوگ راستہ دینے کو تیار نہیں ہوتے ، کتنے ایسے واقعات ملیں گے کہ مریض کے ہاسپٹل پہنچنے سے پہلے ہی اس کی موت ہوگئی ، بظاہر یہ ایک چھوٹا سا فعل معلوم ہوتا ہے ، لیکن غور کیجئے کہ یہ کتنے سارے لوگوں کی مشقت کا سبب بن جاتا ہے اور مشقت بھی انتہائی درجے کی ؟

رسول اللہﷺ نے دوسروں کے لیے باعث تکلیف بننے والے عمل کو بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ایمان کا ایک درجہ ہے کہ راستے سے ’’ اذیٰ‘‘ کو ہٹا دیا جائے ۔‘‘ ( صحیح مسلم ، کتاب الایمان ) ’’ اذیٰ ‘‘ کے معنی گندگی کے بھی ہیں اور تکلیف دہ چیز کے بھی ،اس لئے اس میں وہ ساری چیزیں شامل ہیں ، جو راستہ چلنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہو ں، راستے پر پیشاب پاخانہ کرنا ، کچرا پھینکنا ، جسمانی نقصان پہنچانے والی چیزوں کو راستے پر ڈال دینا ، راستے کے کچھ حصے کو اپنے استعمال کے لئے مخصوص کرلینا ، گاڑی اس طرح کھڑی کرنا کہ ٹریفک جام ہوجائے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺنے راستے پر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا ۔‘‘ (مسند احمد) گویا راہ گیروں ، پڑوسیوں اور محلے کے لوگوں کو تکلیف سے بچانا بھی ایمان میں شامل ہے ۔

صرف راستے کی رکاوٹ پر ہی موقوف نہیں ، کوئی بھی ایسا عمل جس سے کسی کی حق تلفی ہو ، یا جو کسی کے لئے تکلیف یا خوف و دہشت کا باعث ہوجائے ، اسے کر گزرنا اس ممانعت میں شامل ہے ، جیسے بے موقع تھوک اور بلغم پھینکنا ، یہاں تک کہ آپ ﷺنے فرمایا ’’ اگر کوئی شخص بلغم پھینکے تو اسے زمین میں دفن کردے ، یا ایسی شکل اختیار کرے کہ یہ کسی انسان کے بدن یا کپڑے میں نہ لگے ۔‘‘ (مسند احمد ) عام طورپر لوگ دائیں طرف سے چلا کرتے تھے ، آپ ﷺنے فرمایا کہ دائیں طرف تھوک نہ پھینکو ، اگر بائیں طرف کوئی نہ ہوتو بائیں طرف تھوکا کرو اور اگر بائیں طرف لوگ ہوں تو اپنے سامنے نیچے تھوکا کرو ‘‘ ۔ (کنز العمال )

تکلیف ہی پہنچانے کی ایک صورت رہائشی علاقوں میں غیر قانونی طورپر ایسی صنعتوں کا قائم کرنا ہے ، جو دوسروں کے لئے تکلیف دہ ہوں ، اور جن سے صنعتی فضلات ، گیسوں اور دھوؤں کا اخراج ہوتا ہو ، آپ ﷺنے تو اس بات سے بھی منع فرمایا کہ رات کو سوتے وقت چراغ جلتا ہوا چھوڑ دیا جائے ۔‘‘( سنن ابو داؤد ، ابواب النوم) یہ ممانعت کئی مصلحتوں کو شامل ہے ، ایک تو بلا ضرورت چراغ کے جلانے میں ایندھن کا ضیاع ہے اور ایندھن اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، دوسرے اس سے نکلنے والا دھواں انسان کے لئے نقصان دہ ہے ، تیسرے اس سے آگ لگنے کا اندیشہ ہے ، اسی حکم میں ایسی گاڑیاں ہیں، جن میں ناقص ایندھن استعمال کیا جائے اور اس کی وجہ سے بڑی مقدار میں دھویں کا اخراج ہو، کیوںکہ یہ ماحول کے لئے نقصان دہ اور صحت کے لئے تباہ کن ہے۔

گاڑیوں میں ہارن چلنے والوں کو متنبہ کرنے کے لئے ہوتا ہے ،لیکن آج کل کچھ لوگ کتے کی آواز یا کسی اور جانور کی آواز یا چھوٹے بچے کی آواز کا ہارن استعمال کرتے ہیں ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو پہیوں والی گاڑی میں ٹرک اوربڑی گاڑی کا ہارن لگادیا ، اس طرح کی آوازیں چلنے والوں کو گھبراہٹ میں مبتلا کردیتی ہیں اور آدمی بسااوقات توازن کھودیتا ہے ، یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہمارے مزاج اور طرز فکر کی عکاسی ہوتی ہے ، جو شخص مومنانہ اخلاق کا حامل ہو ، جس کے دل میں انسانیت کی محبت اور دوسرے انسانوں کا لحاظ ہو ، وہ ہر ایسی بات سے بچتا ہے ، جو دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث ہو ، وہ ایک چیونٹی کا بھی خیال کرتا ہے کہ بلا ضرورت اسے مارا نہ جائے، وہ ایک بلی کا بھی خیال رکھتا ہے کہ وہ بھوک سے مر نہ جائے اور اسے ایک کتے کا بھی پاس و لحاظ رہتا ہے کہ وہ پیاسا نہ رہ جائے ، اسے یہ بات بے قرار کرتی ہے کہ اس کا کوئی عمل دوسروں کے لئے تکلیف و مشقت کا سبب ہوجائے ۔ان تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ حقوق العباد کا پاس و لحاظ اور دوسروں کے لیے ایثار ،صبر وبرداشت ،عام لوگوں کے لیے نفع رسانی کا باعث بننا حسن معاشرت ، اعلیٰ اخلاقی اوصاف اوربلند درجہ نیکی کے کاموں میں سے ہے۔ جس کے لیے قرآن و حدیث میں بے شمار اجر وثواب کی نوید سنائی گئی ہے۔