انسانی دکھ کی حقیقت کیا ہے؟

December 08, 2022

تحریر: آفتاب خانزادہ ۔۔۔ لندن
بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں نے فرد کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا تھا ۔طبعی اور نفسیاتی دونوں اعتبار سے ۔لہٰذا انسانی ہستی کو نئے سرے سے دریافت کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں انسان کو دریافت کرنے والا فلسفہ نفسیات کہلا یا۔ دو رجد ید میں اس کا م کا سہرہ سگمنڈ فرائیڈ، اور ولہلم رائج کوجاتا ہے ۔ لیکن ان سے صدیوں پہلے سے ہی انسان کو دریافت کرنے کی کوششیں مختلف ادار میں کی جاتی رہی ہیں ۔ یونانی فلسفی تھیلس آف ملیتس جسے سقراط سے پہلے کے سات دانا آدمیوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے نے کہاتھا ’’ دنیا کا سب سے مشکل کام خود کو جاننا ہے ‘‘۔ فیثا غورث نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھا نروان پالینے کے بعد گوتم بدھ نے سوچا کہ اس بصیرت کو دوسرے انسانوں تک بھی پہنچانا چاہئے چنانچہ اس نے پیروکا ر بنائے جو بڑھتے بڑھتے سنگھ یعنی جماعت کی شکل اختیار کر گئے بدھ نے وہ راستہ دیکھ لیا تھا جو تمام دکھوں کی فنا اور نجات اور نروان تک لے جاتا تھا وہ سارنا تھ کی طرف گیا اور ہرن باغ میں پہلا وعظ کیا ’’ اے بھکشوؤ دنیا میں دو انتہاؤں سے بچنا چاہئے۔ ایک خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور نفسانی لذات میں کھو جانا اور دوسری کٹھن ریاضتیں اور خو د اذیتی ۔ اسی نے ایک درمیانہ راستہ تجویز کیا یہ درمیانہ راستہ ان دو انہتاؤں سے بچنا ہے اس کے ذریعے واضح سو چ اوربصیرت حاصل ہوتی ہے۔ بدھ نے اپنی فکری عمارت کی بنیاد انسانی دکھ کی حقیقت پر رکھی ۔ ہستی باعث دکھ ہے کسی فرد کو بنانے والے حالات ہی دکھ کو جنم دیتے ہیں ۔ کنفیو شس کا سماجی فلسفہ بنیادی طورپر اخوت یا دوسروں سے محبت کے تصور کے گرد گھومتا ہے ’’جو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے وہ دوسروں کے ساتھ بھی نہ کرو۔ چونکہ تم اپنے لیے کامیابی کے متمنی ہو اس لیے دوسروں کو بھی کامیابی حاصل کرنے میں مدد دو ‘‘۔ہیر اکلیتس کے خیال میں انسانوں کی ایک وسیع اکثریت تفہیم سے عاری ہے زیادہ تر لوگ خواب کے عالم میں زندگی کا سفر طے کرتے ہیں اور اپنے اردگرد کے حالات کا ادراک نہیں رکھتے ۔تمام چیزیں فانی ہیں اور کچھ بھی پائیدار نہیں ہستیوں کا موازنہ دریا کے بہاؤ کے ساتھ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ آپ ایک ہی دریا میں دو مرتبہ پاؤں نہیں رکھ سکتے ‘‘۔ ژینو نے کہا زندگی کا مقصد فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنا ہے ۔ سقراط اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ تما م بدی لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ ہے اور کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے برانہیں بنتا ۔ چنانچہ نیکی علم ہے اور راست بات کا علم رکھنے والا شخص درست رویہ ہی اختیار کرے گا۔ مینئیس کہتا ہے ہر فرض ایک ذمہ داری ہے لیکن اپنی ذات کی ذمہ داری باقی سب کی جڑ ہے ۔ اپنے ذہن کو آخری حد تک ترقی دینے والا شخص اپنی فطرت کو جان لیتا ہے اپنی فطرت کو جاننا آسمان کو جاننے کے مترادف ہے ۔ چوانگ تزو کا خیال تھا نیک آدمی حالات کے بندھن ، ذاتی لگا ؤ ، روایت اور دنیا کی اصلاح کی ضرورت سے آزاد ہو تا ہے ۔ پائر ہو کا کہنا ہے دانا شخص خواہشات سے آزاد ہونے کے باعث دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ لوگ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے باہم لڑتے اورجدو جہد کے باوجود خواہ مخواہ کچھ چیزوں کودوسری چیزوں سے بہتر تصور کر لیتے ہیں اس قسم کی جدوجہد اور کوشش بے مقصد اور لاحاصل ہے کیونکہ تمام چیزیں ایک جیسی بے تعلق اور غیر اہم ہیں ۔ ایپی قورس نے کہا ۔ علم کا مقصدانسان کو لاعلمی اور توہمات ، دیوتاؤں اورموت کے خوف سے نجات دلانا ہے اس کے بغیر مسرت نہیں مل سکتی ۔ پتنجلی کا خیال تھا جو لوگ آتما اور دانائی کی شدید خواہش رکھتے ہیں وہ ان کے قریب ہی منتظر بیٹھی ہوتی ہے ۔ فیلو جو ڈیئس کہتا ہے انسان بنیادی طورپر مجہول ہے اور خداہی روح میں اعلیٰ اہلیتوں کے بیج بو تا ہے ،اس کے باوجود انسان واحد ایسی مخلوق ہے جو عمل کی آزادی رکھتی ہے اگرچہ یہ آزادی ذہن کی حدود میں پابند ہے۔ پلو ٹینس کا خیال ہے ۔ خو د شناسی میں ہم خوب صورت اور اپنی ذات سے لاعلمی میں بدصورت ہوتے ہیں ۔ الکندی کے مطابق ’ ’ بنی نوع انسان کی حقیقت جسم کے بجائے رو ح میں ہے ۔ ایکہارٹ کے خیال میں خداانسان سے بس اتنا چاہتا ہے کہ اس کا دل پر سکون ہو۔ تھامس ہوبز کا کہنا ہے ہم اپنا تجزیہ کریں ، اپنے اندر دیکھیں اور اپنے خیالا ت وجذبا ت کو جانچیں جو تمام انسانی افعال کی بنیاد ہیں ۔ ڈیکارٹ کے مطابق اگر آپ سچائی کے حقیقی متلاشی ہیں تو اپنی زندگی میں کم ازکم ایک بار سب چیزوں پر حتی الامکان شک کرنا لازمی ہے ۔ ڈیوڈ ہیوم کے بقول خوب صورتی چیزوں کا خاصہ نہیں یہ صرف غورو فکر کرنے والے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ ڈینس دید رو کا کہنا ہے انسان اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک آخری بادشاہ کو آخری پادری کی انتڑیوں سے پھانسی نہ دے دی جائے ۔ جیریمی بنیتھم کا کہنا تھا فطرت نے نوع انسان کو دو خود مختیار آقاؤں یعنی دکھ اور مسرت کی اطاعت میں رکھا ہے ان ہی کی بنیاد پر ہمارے ہر عمل کا تعین ہوتا ہے ہمارے ہر ایک فعل ہر ایک قول اور ہر ایک سوچ پر دکھ اور مسرت کی ہی حکومت ہے ۔فٹشے کے بقول آپ کے منتخب کردہ فلسفے سے پتہ چل جاتاہے کہ آپ کس قسم کے شخص ہیں ۔ فوئر باخ کہتا ہے کہ فرد اور اس کا ذہن اپنے حالات کی پیداوار ہے انسان وہ ہی ہے جو وہ کھاتا ہے۔ لہذا نوع انسانی کو بہتر بنانے کے لیے بہتر خوراک ضروری ہے ۔ پیٹر سنگر کا کہنا تھا انسانی برتری ثابت کرنے کے تمام دلائل اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ تکلیف میں انسا ن اور جانور مساوی ہوتے ہیں ۔آپ جتنا اور چاہیں فلسفے اور نفسیات کے اندر سفر کرلیں لیکن آخر میں آپ انسان کو جاننے کے جواب میں خود کو ادھورا ہی پائیں گے ۔ لیکن انسانوں کا ایک گروہ دنیا میں ایسا بھی ہے جس کو مکمل جاننے میں آپ کبھی مایوس نہیں ہوںگے ۔ وہ گروہ کہیں اور نہیں بلکہ پاکستان میں بستا ہے ۔ جنہیں پاکستان کا مراعات یافتہ طبقہ کہا جاتا ہے ۔ یہ انسانوں کی تاریخ میں وہ واحد انسان ہیں جو کل تھے وہ ہی آج ہیں اور وہ ہی کل ہونگے ۔ وہ اندر اور باہر سے ایک ہی طرح کے انسان ہیں ان کے اندر یا باہر کوئی دوسرا انسان نہیں بستا۔ ان کو جاننا اور ان کے متعلق بات کر نا انتہائی آسان ہے اور صرف چند ہی جملوں میں ان کی مکمل تعریف کی جاسکتی ہے ۔ وہ سب اول درجے کے ڈھونگی اور بے حس ہیں انتہائی احسان فرامو ش اور کم ظرف ہیں ۔ لالچ رال کی طرح ان کے منہ سے بہتی ہے ان کے سینوں میں دل نہیں بلکہ پتھر لگے ہوئے ہیں۔اس قدر ظالم جن کے ظلموں کا ذکر ممکن نہیں ۔ دنیا کی ہر خو بصورت چیزوں کو ہروقت ہتھیانے کا پروگرام بنا رہے ہوتے ہیں ۔ ان کے نزدیک رشتوں اور ناتوں کی کوئی حقیقت نہیں ۔ درندے بھی ان سے کانپتے ہیں وہ دوسرے انسانوں کو انسان نہیں بلکہ چیزیں سمجھتے ہیں ۔اسی لیے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں دوقسم کے انسان بستے ہیں ایک وہ جو خود کو نہیں جانتے وہ اکثریت میں ہیں اور دوسرے وہ جو خود کو خوب جانتے ہیں وہ اقلیت میں ہیں اور اصل میں وہ بھیڑ ئیے ہیں۔