دُھند، راکھ اور پانی

December 26, 2022

انسانی ساختہ عوامل کے باعث ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں نے پاکستان میں بارشوں اور سیلابی صورت حال کو ابتر کردیا ہے۔ موسمیاتی ماہرین کے جائزے کے مطابق گلوبل وارمنگ غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کا سبب بنی ہے۔ 2002 کے سیلاب نے ایک تہائی پاکستان کو ڈبو دیا۔

رضا کارانہ طور پر موسمی تبدیلیوں کا جائزہ لینے والے سائنس دانوں کے تجزیے کے مطابق گلوبل وارمنگ ہی قدرتی آفات کی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ آلودگی کا باعث کاربن کا بڑے پیمانے پر اخراج بھی پھیلنے والی تباہی کے اسباب میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے دنیا کو غیر معمولی انتہائی بارشوں کا سامنا ہے۔

بدترین سیلاب

پاکستان میں اب تک آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں تیرہ سو سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اور باون لاکھ لوگوں کو سیلاب کی مصیبتوں سے نجات دلانے کا مشکل کام اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمٰن نے برسات کے اس موسم کو ’’مونسٹر مون سون‘‘ کا نام دیتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔سیلاب سے ہونے والے مالی نقصانات کا تخمینہ تیس ارب امریکی ڈالرز کے مساوی لگایا گیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے پورے ملک میں انفرااسٹرکچر (سڑکوں ، پلوں ، اور نکاسی آب کے نظام) کو نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جو موسموں میں تغیّر و تبدّل سے پیدا ہونے والے خطرات کی زد میں رہتا ہے اور یہاں کے سخت موسمی حالات ایک چیلنج ہیں جس سے پاکستان کو نمٹنا پڑے گا، باوجود اس کے کہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ لیکن کیا اہم سوال یہ ہے کہ کیا2022 کے سیلاب میں بڑےپیمانے پر ہونے والے جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکتا تھا اور مستقبل میں دوبارہ ایسا ہونے سے بچنے کے لیے کیا کیاجا رہا ہے؟

2022 کا مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن رہا ۔جولائی اور اگست میں پاکستان میں 391ملی میٹرز (15.4انچ) بارش ریکارڈ کی گئی جوتیس سالہ اوسط سے تقریباً 190فی صد زیادہ تھی۔ جنوبی صوبہ سندھ میں اوسط سے 466 فی صد زیادہ بارش ہوئی ۔مون سون کے اس تبدیل شدہ تیورکی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا اور زبردست تباہی آئی۔ سیلاب اورطوفانی بارشوں نے پچھلے تمام ریکارڈز توڑکر ایسی کیفیت پیدا کی جس سے ملک کے شمال میں گلگت بلتستان سے لے کر جنوب میں کراچی تک ہلاکتوں اور تباہی کا الم ناک سلسلہ شروع ہوا۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمےدار وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں کے باعث کم از کم تیرہ سو اموات ہوئیں اور ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے۔ سیلاب اور بارشوں سے چار لاکھ سے زائد مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا۔

دیہی علاقوں میں سات لاکھ سے زیادہ مویشی بھی بہہ گئے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا شامل ہیں۔ بلوچستان کے 34 اور خیبرپختون خوا کے33اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے۔ سندھ کے23اضلاع کو صوبائی حکومت نے آفت زدہ قرار دیا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے تین اضلاع سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ کی35لاکھ ایکڑپر کھڑی 90 فی صدسے زائد فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں جس سے ملک بھر میں آنے والے دنوں میں غذائی قلت اور خوراک کے شدید بحران کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ سیلاب سے ٹنڈو جام ، ٹھٹھہ ، لاڑکانہ، جیکب آباد اور سکھر سمیت 23 اضلاع،101تحصیلیں اور 5181 دیہات متاثر ہوئے ہیں اورکروڑوں روپے مالیت کے 15435مویشی بھی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔ صوبہ سندھ کی حالت 2010 اور2011کی طوفانی بارشوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔

یہاں اتنی بڑی ایمرجنسی اس سے پہلے کبھی بھی نافذ نہیں ہوئی۔ سندھ کے 17 اضلاع تو ایسے ہیں جہاں سب کچھ ملیا میٹ ہو چکا ہے۔ یہاں مجموعی طور پر 19 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق 14 جون کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ سے زاید افراد کو ریلیف کیمپ میں منتقل کیاگیا۔ صوبے میں 120بچوں اور35خواتین سمیت کم و بیش 405سے زاید اموات ہوئیں اور 1000سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ 2328کلو میٹرز طویل شاہراہیں متاثر ہوئی ہیں، 60 پل زمین بوس ہوئےاور 8لاکھ سے زیادہ گھر اور عمارتیں جزوی یا مکمل طور پرتباہ ہو چکی ہیں۔

این ڈی ایم اے کےاعداد و شمار کے مطابق صوبہ بلوچستان کے34اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے۔ 249سے زائد اموات ہو ئیں۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے کے علاوہ ایم ایٹ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سےبری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے بند کر دی گئی۔ تعلیمی ادارے بند رہے ۔ خوراک کی قلت اور صحت کی سہولتوں کا اب بھی بعض علاقوں میں فقدان ہے۔

وہاں50ہزارمکانات، 1000کلومیٹر طویل شاہ راہیں،18 پل اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔نصیر آباد، جعفر آباد اور ضلع صحبت پور بری طرح متاثر ہوئے۔ نہروں میں شگاف پڑنے کے باعث نصیر آباد سے متصل جعفر آبادکا ضلع بھی سیلاب سے بری طرح متاثر ہو ا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے درمیان شاہ راہ زیر آب آنے سے سیکڑوں گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچا اور ریلوے لائن کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچنے کے باعث ریل سروس بھی معطل کر دی گئی تھی۔

پنجاب میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے کل 16 اضلاع متاثر ہوئے ۔ 39 بچوں سمیت کل 187اموات ہوئیں، زخمیوں کی تعداد 2000کے قریب تھی۔صوبے میں 38ہزار سے زیادہ مکانات، 130 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں۔ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 16پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

خیبر پختون خوا کے33اضلاع میں سیلاب سے 50 ہزار لوگ متاثر ہوئے۔صوبائی حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال کے اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا تھا۔خیبرپختون خوا میں86بچوں سمیت کم و بیش 257اموات ہوئیں اور321افراد زخمی ہوئے ۔ بارشوں سے ایبٹ آباد اور مانسہرہ سمیت دیگر علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ سوات کے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں نےتباہی مچائی۔ ندی نالوں میں طغیانی کے باعث مختلف شاہ راہیں مکمل طور پر بندکر دی گئی تھیں جس سے مسافر وں کو نقل و حرکت میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ سوات کے سیاحتی مقام مینگورہ میں بھی سیکڑوں مکانات زیرِ آب آگئے تھے۔

گلگت بلتستان اور کشمیر جیسے سر سبز اور پر فضا مقامات بھی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکے ۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ان علاقوں میں مجموعی طور پر63 اموات ہوئیں، تقریباً دس ہزار افراد اور 1500کے قریب مکانات متاثر ہوئے۔ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں ہزاروں کنال زرعی اراضی، کئی گھرانے، فش فارمز، متعدد پلوں کے علاوہ اہم تنصیبات بھی سیلاب کی نذر ہوگئیں۔

شاہ راہِ نلتر کا بڑا حصہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا۔ سیلابی ریلے کے باعث گلگت کو بجلی فراہم کرنے والے 18 میگاواٹ کے بجلی گھر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کا دورہ کیا اور دنیا سے ہماری بھرپور انداز میں مدد کرنے کی اپیل کی۔

کوپ 27 اور ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کو موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مسائل کے حل کی عالمی تنظیم (سی او پی 27) کی نائب صدارت دینے کا اعلان کیا گیا ۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ایک بار پھر بڑے صنعتی ممالک سے مطالبہ کیا کہ سیلاب سے بری طرح متاثرہ ملک کی مدد کے لیے آگے آئیں کیوں کہ پاکستان سنگین موسمیاتی ناانصافی کا شکارہے۔

دوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کو ایک اور بڑی کام یابی ملی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہی پر قرارداد منظور ہوگئی ہے، چین، امریکا اور روس بھی پاکستان کے لیے ایک پیج پر آگئے ہیں۔

مصر میں موسمیاتی تبدیلی اور کم زور کمیونٹیزکے استحکام کے موضوع پر گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کم زور طبقے پر پڑتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے، 4410 ملین ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا ہے، تقریباً 40 لاکھ بچوں کو صحت کی خدمات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو دنیا میں 2050ءتک 216 ملین افراد بے گھر ہو جائیں گے۔

وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم کی کوششیں رنگ لائیں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ملکوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کر لیا گیا۔مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ کانفرنس میں اقوام متحدہ کے تحت کوپ 27 اجلاس میں ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے فنڈ قایم کرنے پر اتفاق ہوا۔

کانفرنس میں پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک نے مال دار اور آلودگی پھیلانے والے ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں پہنچنے والی نقصانات کی تلافی کی جائے۔ دو ہفتے کے مذاکرات کے بعد مطالبہ منظور کر لیا گیا۔قبل ازیں پاکستانی ٹیم کی قیادت کرنے والی وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان کا کہنا تھا کہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو یہ کم زور لوگوں کے لیے ایک مثال ہو گا۔ کم زور متحد ہو جائیں تو ناممکنات کی رکاوٹیں بھی ختم کر سکتے ہیں۔

موسمیاتی لیباریٹری اور ماحولیاتی نقشوں کا افتتاح

وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمداختر نے اِکتّیس اگست کو پنجاب یونیورسٹی کےشعبہ اسپیس سائنس میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں پر تحقیق اور مسائل کے حل کے لیے پہلی لیباریٹری اور جدید ترین ڈیٹا کی بنیادپر1959سے 2022 تک پاکستان کے پہلے ڈیجیٹل ماحولیاتی نقشوں کا افتتاح کیا۔

جنگلی حیات کی آبادی میں تباہ کن کمی

اکتوبر کے مہینے میں کسی بھی ماحول دوست شخص کے دل کو دہلا دینے والا یہ انکشاف سامنے آیا کہ پاکستان میں نصف صدی کے دوران جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف نے لِوِنگ پلانیٹ رپورٹ جاری کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں میٹھے پانی میں بسنے والی مختلف نسلوں کی آبادی میں 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پرندوں، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں کی آبادی میں 1970 کے بعد سے اب تک 69 فی صد کی کمی دیکھی گئی ہے۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومتیں، ادارے اور عوام فوری طور پر حیاتیاتی تنوع کی تباہی کے ازالے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میٹھے پانی میں رہنے والے مختلف اقسام کے جان داروں کی آبادی میں اوسطاً 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے، اور10لاکھ پودوں اور جانوروں کی نسلوں کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔2.5 فی صد پرندے، ممالیہ، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانور اور مچھلیاں پہلے ہی ناپید ہو چکی ہیں۔ آبادیاں بڑھنے سے جینیاتی تنوع میں کمی آئی ہے اور یہ جنگلی حیات اپنی ماحول دوست رہائش گاہوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق پاکستان نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے جو خطرات سے دوچار ہیں، ان میں برفانی چیتے اور عام چیتے، دریائے سندھ کی ڈولفن، سفید اور لمبے گدھ، اور بحیرہ عرب کی ہمپ بیک وہیل اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان میں جنگلی حیات کا تحفظ عام سطح پر ترجیحات میں شامل نہیں رکھا گیا، ہمیں جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کا تحفظ، جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے مسئلے کو حل کرنے اور ماحولیاتی نظام بحال کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان موسمیاتی آفات کی وجہ سے تیزی سے کم زور ہوتا جا رہا ہے، اور آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی حیات کے نقصان کو ہوا دے رہی ہے، جس سے مختلف جان داروں کی نسلیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف،پاکستان کے مطابق ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے جنگلی حیات کو بھی مشکلات کا سامنا ہےجس سے مختلف انواع کے جانوروں اور پرندوں کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے، ان کی رہائش گاہیں تباہ ہوگئی ہیں، انہیں خوراک کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اوران کی ہجرت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ان تبدیلیوں کے منفی اثرات کے شکار جان داروں پر ان کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ان اثرات سے رہائشی اور ہجرت کرنے والے پرندے، ڈولفن، برفانی اور عام چیتے، پینگولین اور دیگر جان دار بھی متاثر ہورہے ہیں۔ 2022کی شدید بارشوں اور سیلاب کے ساتھ خشک سالی اور جنگلات میں لگنے والی آگ نے جنگلی حیات کے مساکن کو شدید نقصان پہنچایا ہےجس کی وجہ سےانہیں شدید خطرات لاحق ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف، پاکستان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ جنگلی حیات کا غیر قانونی شکار اور تجارت،انسان اور جنگلی حیات کا تنازع، ناپائے دار ترقی، تجاوزات اور آبی آلودگی بھی جنگلی حیات میں کمی کا سبب بنتی ہے۔

یہ اطلاعات بھی آئیں کہ 2022کے سیلاب اورمون سون بارشوں سے جہاں انسانی آبادیوں، زراعت، لائیواسٹاک اورانفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے وہیں متاثرہ علاقوں میں جنگلی حیات اور ان کےمساکن کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں جانورمحفوظ اور اونچے مقامات کی طرف ہجرت کرگئے ہیں۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ جنگلی حیات متاثرہوئی ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے انسانی جانوں اورآبادیوں کو بچانے کے ساتھ جنگلی حیات کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے بعد کی صورت حال میں پنجاب کے متاثرہ علاقوں راجن پور، لیہ اورڈی جی خان میں پاڑہ ہرن، جنگلی خرگوش، کالا اور بھورا تیتر سمیت زمین پر رہنے والے دیگر جانور اور پرندے متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں سیلاب نے جنگلی اور آبی حیات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے کے دریائی جنگلات میں ہرن، جنگلی سور، تیتر، جنگلی بلی، لومڑی اور گیدڑ پائے جاتے ہیں، یہ علاقہ سانپوں، چھپکلیوں کا بھی مسکن ہے۔

سرکاری جنگلات کے علاوہ نجی جنگلات جنہیں مقامی طور پرکیٹی کہا جاتا ہے، وہ بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جوجنگلی حیات کااہم مسکن ہیں۔وائلڈلائف سندھ کے ذرائع کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاڑہ ہرن کی اچھی خاصی آبادی تھی ،خدشہ ہےکہ ہرنوں کی بڑی تعدادسیلابی پانی میں بہہ گئی ہے۔ سیلاب کاپانی اترنے کےبعد درست صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔ سندھ کے متاثرہ علاقوں کالا اوربھورا تیتربھی بکثرت پایا جاتا ہے۔اسی طرح پختون خوا اور بلوچستان میں بھی کافی نقصانات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

جانوروں کے حقوق کا تحفظ،نصاب کا حصہ بنا

دسمبر میں وفاقی حکومت نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیااور اس کا آغاز جانوروں کے حقوق کے عالمی دن یعنی نو دسمبر سے کیا گیا۔ پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہو ا اور اس کا مقصد بچوں میں جانوروں کے حقوق کے احساس کو اجاگر کرنا اور برداشت کے رویوں کو پروان چڑھانا ہے۔ وزیراعظم کے اسٹریٹجک ریفارمز سیل کے سربراہ سلمان صوفی کےمطابق معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رویوں کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جانوروں کے تحفظ کے معاملے کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے۔

پہلے مرحلے میں وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اور نجی اسکولوں میں پرائمری سطح کی تعلیم کے نصاب میں یہ شامل کیا گیاہے اور بہ تدریج اس عمل کو آگے بڑھایا جائے گا اور صوبائی حکومتوں سے کہا جائے گا کہ وہ بھی اس کا نفاذ یقینی بنائیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جولائی میں وفاقی حکومت نے گلیوں میں پھرنے والے جانوروں کو پکڑ کر ان پر ویٹنری تجربات پر بھی پابندی عائد کر دی تھی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر پولیس مقدمات بھی درج کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

جنگلات کی آگ

ملک میں وقتا فوقتا مختلف مقامات پر جنگلات میں آگ لگنے کے چھوٹے بڑے سیکڑوں واقعات رونما ہوئے لیکن مئی میں بلوچستان میں چلغوزے کےنایاب اور قدیم جنگلات میں لگنے والی آگ نے ملک کو کئی اعتبار سے شدید نقصان پہنچایا۔ آگ سے جلنے والے یہ جنگلات ہزاروں فٹ بلند پہاڑوں پر واقع تھے۔تیز طوفانی ہواؤں کے باعث یہ آگ تیزی سے پھیلتی چلی گئی اور قابو سے باہر ہو گئی۔ بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگل میں لگنے والی آگ نے ہزاروں ہیکٹرز پر موجود دنیا کے نایاب ترین چلغوزے کے جنگل کو جلا کر راکھ کر دیا۔

26,000 ہیکٹرز پر مشتمل ان انتہائی زرخیز جنگلات سے کئی ارب ڈالرز مالیت کا تقریباً 700 میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا تھا۔ اس جنگل کے ساتھ ہی چلغوزے کے کاروبار سے وابستہ کئی ہزار لوگوں کا روزگار بھی اس آگ میں جل کر راکھ ہو گیا اور وہ سڑک پر آ گئے ہیں۔ عینی شاہدین اور آگ بجھانے کے کام میں شریک لوگوں کے مطابق اس آگ کا پھیلاؤ پانچ سے چھ کلومیٹر رقبے پر محیط تھا۔ یہ آگ 10 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر موجود جنگلات میں لگی تھی جہاں صرف ہیلی کاپٹر ہی اسے بجھا سکتے تھے۔ اپنی مدد آپ کے تحت اس آگ کو بجھانے کی کوششوں میں تین مقامی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی زخمی ہوئے۔

پاکستانی فوج نے بھی آگ بجھانے کے کام میں حصہ لیا تھا۔یہ آگ بہت شدید تھی اور کوہ سلیمان کے درمیان ایک پیالہ نما وادی میں لگی تھی۔ آگ کی شدت اور ہوا اتنی تیز تھی کہ ہیلی کاپٹر کا بھی اوپر سے پرواز کرنا مشکل تھا۔پاکستانی فوج کے مطابق جنگل میں موجود آرمی کے فائر فائٹرز، ہیلی کاپٹر سٹاف اور فائر فائٹر جیٹ مسلسل رابطے میں تھے تاکہ آگ بجھانے کے اس عمل کو کام یابی سے مکمل کیا جاسکے۔ آرمی کے فائر فائٹر جیٹ طیاروں نے پانی، آگ بجھانے والا کیمیکل اور400 فائر بالز بھی آگ بجھانے کے لیے استعمال کیے۔

ایک اندازے کے مطابق شیرانی جنگل میں دس لاکھ چلغوزے کے درخت ہیں اور ایک درخت کی مالیت پچیس سے تیس ہزار روپے ہے۔ ان درختوں سے پونے سات سو میٹرک ٹن چلغوزے سالانہ ہوتے تھے جن کی ایک اندازے کے مطابق مالیت دو اعشاریہ چھ بلین ڈالر ہے۔ یہ چلغوزے چین، دبئی اور فرانس بھیجے جاتے ہیں۔

آگ سے ہونے والے نقصان کا ایک تخمینہ کم از کم پانچ کروڑ روپے ہے۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ جو درخت آگ میں جل گئے ان کے دوبارہ اگنے میں پچاس سال لگیں گے۔کیوں کہ چلغوزے کے درخت کو تجارتی کٹائی کے لیے گری دار میوے تیار کرنے میں 40 سے 50 سال لگتے ہیں۔

مئی سے جون کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ میں 200 سو سے زائد مقامات پر بھڑک اٹھنے والی آگ نے چودہ ہزار ایکٹر پر مشتمل جنگلات اور چراہ گاہوں کو تباہ کر دیا ہے۔ جون میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں جنگل میں آگ لگنے سے ایک ہی خاندان کے چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ صوبائی محکمہ جنگلی حیات کے ترجمان حبیب الرحمٰن کے مطابق 210 میں سے کم از کم 55 مقامات پر آگ مقامی لوگوں نے جان بوجھ کر ان افواہوں کے بعد لگائی تھی کہ حکومت جلنے والے ہر درخت کی تلافی کرے گی۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اپریل سے جولائی کے دوران گھنے جنگلات میں آگ کا بھڑک اٹھنا اب معمول بن چکا ہے۔ جس کی ایک اہم وجہ موسمیاتی تبدیلیاں بتائی جاتی ہے۔ گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق پاکستان میں 31 مئی 2021 سے لے کر 23مئی 2022 تک آگ کے 1921واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ یہ تنظیم بھی اتنی زیادہ تعداد میں آگ لگنے کے واقعات کے حوالے سے کافی پریشان تھی۔

گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق 2011 سے 2021 تک کی دہائی میں پاکستان میں تین ہزار ایکڑ سے زیادہ جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر جنگلات خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں ہیں۔

اسموگ کی آفت

پاکستان کو درپیش مختلف چیلنجز میں سے ایک بڑا مسئلہ ’’اسموگ‘‘ ہے جس کا سامنا ہر سال ہمیں موسم سرما میں کرنا پڑتا ہے۔ اس موسم میں چونکہ نمی اور دھند ہوتی ہے لہٰذا جب فضا میں موجود دھواں، زہریلی گیسیں اور گرد وغبار اس نمی کے ساتھ مل جاتے ہیں تو اسموگ بن جاتا ہے۔ یہ زہریلا ہوتا ہے اورانسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی۔

اسموگ کی روک تھام کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے ایمرجنسی لگا دی گئی ہے۔ دھواں پھیلانے والے کارخانوں اور بھٹوں کو حکومت کی جانب سے کسی بھی صورت کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

نومبر کے آخری ایام میں لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا تھا اور اس کا فضائی معیار انتہائی مضرِ صحت قرار پایا تھا۔ رپورٹس کے مطابق لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس مسلسل خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے، دنیا کے تمام ممالک میں ایئر کوالٹی کو مانیٹر کرنے والی ویب سائٹ آئی کیو ایئر ڈاٹ کام کے مطابق 29 نومبر کو صبح 9 بجے ائیر کوالٹی انڈیکس 493 تھا، جو انتہائی خطرناک ہے، جس کے بعد رات 8 بجکر 30 منٹ پر ائیر کوالٹی انڈیکس 353 پر تھا۔ان حالات میں اسموگ کو آفت قراردے کر لاہور سمیت پنجاب کےدیگر شہروں میں ماحولیاتی ایمرجنسی نافذکردی گئی تھی۔

دوسری جانب اسموگ پر قابو پانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ نےرات دس بجے بازار اور ریسٹورنٹس بند کرنے اور جمعے کے روز اسکول بند رکھنےکاحکم دے دیا تھا۔