اعلیٰ تعلیمی ادارے اور مستقبل کی تعلیم

January 08, 2023

دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو آج اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی ’’طلبہ کو مستقبل کی پیشہ ورانہ زندگی کے لیے تیار کرنا‘‘ میں پریشان کن چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف، آجر تعلیم اور ملازمت کے درمیان بتدریج کم ہوتے تعلق کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب اعلیٰ تعلیم کی لاگت میں ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر، امریکا میں ٹیوشن فیس میں اضافے نے افراطِ زر کی شرح کو نمایاں طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے اور طلبہ کے قرضوں کا حجم 1.75ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ حالیہ برسوں میں امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے بارے میں منفی رائے عامہ میں اضافہ ہوا ہے اور تعلیمی ادارے خود کو ایک بڑھتی ہوئی متضاد بحث میں اُلجھتے ہوئے پاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں ڈھانچہ جاتی مسائل کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ مسائل کی نوعیت عالمی بھی ہیں: بہت سے ممالک اعلیٰ تعلیم کو نمایاں طور پر زرِ اعانت فراہم کرتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم پر حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے 2.5فی صد تک زیادہ ہیں۔

اس تمام تر غیرتسلی بخش صورتِ حال میں آجر دو طرح سے ردِ عمل ظاہر کرنے لگے ہیں۔ کورونا وَبائی مرض کے پہلے سال میں امریکا میں ملازمت کے لیے انڈرگریجویٹ ہونے کی لازمی شرط میں 45فی صد کمی واقع ہوئی۔ دوسرا، بڑی کمپنیاں ملازمتوں کے لیے اہل امیدوار تلاش کرنے کے لیے متبادل تعلیمی راستے اختیار کرنے والے امیدواروں کو زیرِ غور لارہی ہیں، جیسے ’’گِرو وِدھ گوگل‘‘ تعلیمی پروگرام وغیرہ۔

ایسے حالات میں زیادہ تر صنعتوں نے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا ہے اور ماہرین سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی ہنگامی حالات نافذ کردے۔ بہتر حکمتِ عملی یہی ہوگی، اس سے پہلے کہ اعلیٰ تعلیمی شعبے پر غیرپسندیدہ حل تھونپے جائیں۔ اعلیٰ تعلیم سے وابستہ قائدین کو خود ہی وجودی سوالات کے جوابات کے ساتھ آنا چاہیے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جب مشینیں روز بہ روز پہلے سے زیادہ ذہین بنتی جارہی ہیں، ایسے میں تعلیمی ادارے طلبہ کو کس طرح مشینوں سے زیادہ ذہین اور کارآمد فرد کے طور پر تیا ر کرسکتے ہیں۔

ویریزون کمیونیکیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کہتے ہیں، ’میں نے اپنے کیریئر میں اقوام ِمتحدہ کےتحت، دنیا بھر کے صارفین اور معاشروں کو اختراع (اِنوویشن) کے فوائد پہنچانے کے لیے دنیا کے چند بہترین ٹیکنالوجی انجینئرز اور ہیومنیٹیرینز کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس میں تازہ ترین منصوبہ فائیو جی ٹیکنالوجی کا ہے، جس کی مدد سے فور جی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ برق رفتاری سے ڈیٹا منتقل کیا جاسکے گا۔ اس دوران، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ ہمارا تعلیمی نظام فائیو جی اور چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اُٹھانے کے لیے لوگوں کو تیار نہیں کرپارہا‘۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’تعلیم دان، پالیسی ساز، غیرمنافع بخش ادارے اور کاروبارے طبقہ، ان سب کو اس حقیقت اور اس کے ہمارے مستقبل پر پڑنے والے اثرات کو ماننے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘۔

ایسے میں، جب کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت عمومی انسانی صلاحیت کے برابر آچکی ہے یا اس سے آگے نکل رہی ہے، تعلیم کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ماہرین تین مقاصد بتاتے ہیں:

* سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ(STEM)کے میدان میںمہارت حاصل کرنا، تاکہ بتدریج اور تیزی سے ٹیکنالوجی کو اپناتے معاشرے کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔

* لوگوں میںشہری اور اخلاقی اقدار و شعور پیدا کرنا، تاکہ وہ ان طاقتور ٹیکنالوجیز کو اپنی ذہانت، نقطہ نظر کے مطابق دیگر انسانوں کے بہترفائدے کے لیے استعمال کرسکیں۔

* تمام عمروں اور زندگی کے ہر مرحلے پر، درج بالا دونوں ضروریات پر پورا اُترنے کے لیے، ہمارے تعلیم نظام میں اب تک جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، ان کے مقابلے میں زیادہ تخلیقی اور زیادہ پُرجوش طریقے اختیار کرنا۔

یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ مستقبل کی تعلیم میںSTEM کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کی کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بھی STEM کو ترجیحی حیثیت دی جارہی ہے۔ گوگل سے لے کر ویریزون تک، دنیا کی ساری بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں STEMپر کام کررہی ہیں۔ ایک ایسی دنیا، جسے ٹیکنالوجی آگے لے کر چل رہی ہے، اس دنیامیں STEMمضامین کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے، کم از کم جو چیز کرسکتےہیں اور کرنی چاہیے، وہ یہی ہے کہ آمدنی کے تمام طبقوں، عمروں اور دونوں صنفوں میں STEM تعلیم کو مساوی طور پر عام کرنا چاہیے۔

ہرچندکہ، دنیا کے کئی معاشروں کا STEMتعلیم میں رجحان بڑھ رہا ہے اور انھوں نے ان مضامین میں قابلِذکر کامیابی حاصل کی ہے، تاہم تعلیم کا ایک شعبہ ایسا ہے جسے بالکل نظرانداز کیا جارہا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے، جو آنے والی نسلوں میں ٹیکنالوجی کو دُرست سمت میںآگے لے جانے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ شعبہ تعلیم ہے ہیومینیٹیز کا۔ تاریخ، فلسفہ، ادب اور فنون لطیفہ وغیرہ ہیومینیٹیز کے چند بنیادی اور اہم مضامین ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ، عام خیال کے برعکس، ٹیکنالوجی کے عہد میں کچھ مضامین کو دیگر پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔ ہمارے معاشروں کو اس فضول بحث سے نکلنا ہوگا، جس میں ایک طبقہ سائنسز اور ایک طبقہ ہیومینیٹیز کو فوقیت دیتا ہے۔ نئے عہد کو دونوں کی مساوی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمارے نظام تعلیم میں ان دونوں طرح کے مضامین کو ضم کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ، دنیا کو ایسے انجینئرز کی ضرورت ہے جو جدید ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوں اور ساتھ ہی اسے ایسے مؤرخین بھی چاہئیں، جو حساس اور پیچیدہ مواد اور اعدادوشمار کو سمجھ کر اس سے مؤثر نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے سامنے ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں ٹیکنالوجی کے ماہرین سے جب صارف پوشیدگی (کنزیومر پرائیویسی) اور سیاسی نظام پر سوالات پوچھے گئے تو ان کے جوابات عمومی غلطیوں سے بھرپور تھے۔

ان باتوں سے ایک بات بالکل واضحہوجاتی ہے: اگر ٹیکنالوجی، انسانوں کا معیارِزندگی بلند کرنے کا کیا گیا وعدہ پورا کرنا چاہتی ہےتو اسے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا احاطہ کرنا ہوگا۔ وہ شعبہ جو اِن معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا احاطہ کرتا ہے، یعنی ہیومینیٹیز، اسے ایک طویل عرصے سے غلط زمانی قرار دے کر رد کیا جارہا ہے، حالانکہ معاشرے کی عمومی سوچ کے برعکس، درحقیقت یہی وہ شعبہ تعلیم ہے، جو ہمیںآنے والی خطرناک ٹیکنالوجیز کو بہترین انداز میں اور انسانوں کے بہترین فائدے میںاستعمال کرنے کے قابل بنائے گا۔