افسانہ: قحط

February 01, 2023

بابا سائیں اپنے علاقے میں آج بھی دو مور مر گئے۔لگتا ہے رقص کرتے موروں پر موت ناچ رہی ہے۔ سونو بھیل نے ’’چونرے‘‘ میں داخل ہوتے ہوئے اپنے بوڑھے باپ سے کہا جو زمین پر بچھی خوب صورت "رلی " پر بیٹھا کھانس رہا تھا۔رلی کے خوب صورت رنگ اور اس کی منفرد بناوٹ اس چھوٹی سی مخروطی جھونپڑی میں کسی ایسے فنکار کی موجودگی کا پتا دے رہے تھے جس کے ہاتھ چومے جانے کے لائق تھے۔ لیکن جھونپڑی کی خستہ حالت اس فنکار کی بے قدری کا نوحہ پڑھ رہی تھی۔

کونے میں پڑی ایک چارپائی،گنتی کے چند برتن اس مخروطی جھونپڑی میں رہنے والوں کی داستان غم بیان کر رہے تھے۔بابا سائیں !"رانی کھیت " کی بیماری تو لگتا ہے تھر کو بےرونق کردے گی۔پہلے ہی بارش نہ ہونے سے خشک سالی ہے۔ اگر مور اسی طرح مرتے رہے تو "مارؤں " کا دیس ویران ہوجائےگا۔ "ابا" تجھے موروں کی پڑی ہے ،مجھے تو "مال" کی فکر ہے۔ موت تو انھیں بھی کھا رہی ہے۔ لگتا ہے موت کے پاس بھی کھانے کو کچھ اور نہیں۔

سونو کے بوڑھے باپ نے کھاننستے ہوئے اپنی کمزور نظر سے باہر کی جانب دیکھا جہاں ایک نحیف و لاغر گائے اپنی بھوک کا اعلان کر رہی تھی اور ایک نو مولود بچھڑا اس کے تھنوں سے زندگی کا رس نچوڑنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔سونو کی نظر بھی اس جانب اٹھی۔ وہ کچھ لمحے اداس اور مایوس نظروں سے گائے کی جانب دیکھتا رہا۔ اس کی ایک بکری اور دو بھیڑیں پہلے ہی "منہ کی بیماری" کا شکار ہوچکی تھیں اور اب خشک سالی کا عفریت قحط کا روپ دھارے اس کی اکلوتی گائے پر دانت گاڑھے کھڑا تھا۔

وہ مایوسی کے ساتھ مردہ قدموں سے چلتا ہوا گائے کے پاس جاکھڑا ہوا اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا،جیسے اسے تسلی دے رہا ہو کہ فکر نہ کر تجھے بہت جلد ہری گھاس مل جائے گی۔ سونو نے امید بھری نظروں سے مشرق کی سمت "کارون جھر "پہاڑکےافق پر دیکھا لیکن گیروئے پہاڑ کی چوٹی پر اسے کالی گھٹا کہیں نظر نہ آئی۔ اس کی آنکھ سے برسنے والی برسات اس "آس " کو بھی ببہا لے گئی جو کارون جھر کی بلندی پر بیٹھے "دیوتا " سے بندھی تھی۔وہ دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور بچھڑے کی گردن کو اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر پیار کرنے لگا۔ لیکن پیار بھوک کا بدل تو نہیں ہوسکتا۔

بچھڑے کو اپنی محبت کی حرارت پہنچا کر وہ کھڑا ہوا تو اس کی نظر دور سے آتی اپنی بیوی موہنی پر پڑی جو جو گاؤں کی دوسری عورتوں کے ہمراہ اپنے سر اور کولھے کے ابھار پر پانی کے "دِلے"لیے مورنی کی طرح چلی آرہی تھی۔ پیچھے پیچھے اس کا پانچ سالہ بیٹا موہن ہر دکھ سے بے نیاز اٹھکیلیاں کرتا آرہا تھا۔ اسے موہنی جو اسم ِ با مسمی تھی اس وقت اپنی گائے کی طرح لاغر اور کمزور نظر آئی۔

جب کھانے کو کچھ نہ ہو تو بھوک جسم کو کھانے لگتی ہے۔ موہنی کے جسم پر گوشت کی کمی نے ہڈیوں کے ڈھانچے کو نمایاں کردیا تھا۔ اس کی چھاتی اسی طرح خالی نظر آررہی تھی جیسے دودھ دھونے کے بعدگائے کے تھن۔گائے کا بچھڑا ہی نہیں موہنی کا شیر خوار بھائی مدن بھی دودھ کے لیے بلبلا رہا تھا ، پر وہ کیا کرتا آسمان دھرتی ماں پر مہربان نہ تھا اور دھرتی پانی کے بغیر ماں بننے پر آمادہ نہ تھی۔"آب حیات " کی غیر موجودگی میں دھرتی سے وابستہ ہر چیز پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا تھا۔

بن برسات صحرائے تھر ریت کا ایسا سمندر تھا جس میں صرف بھوک اگ رہی تھی۔قحط سے" مارو "پریشان اور مویشی بے حال تھے۔ سارا اناج ختم ہوگیا ہے ۔تھوڑا سا آٹا پڑا ہے۔ موہنی نے دِلے گھڑونچی پر رکھتے ہوئے با خبر کیا تو درد کی ایک بے رحم لہر سونو کے دماغ میں اٹھی اور اس کے پورے جسم میں سرایت کرگئی۔"تھر میں قحط پڑا ہے۔ لوگ بھوکے ہیں۔ اناج کس سے مانگوں؟" وہ گھبرا کر مندر کی جانب چل پڑا۔

"ادا حکومت کی امداد آگئی ہے۔ ایک دو دن میں ہم کو مل جائے گی۔"چھگن لال کی آواز سونو کے کانوں سے ٹکراائی جو مندر کے باہر بیٹھا گاؤں کے لوگوں میں خوش خبری بانٹ رہا تھا ۔وہ علاقے کے وڈیرے ارباب کا منشی تھا ۔اس کی بات سن کر سونو کو بھی ایک قسم کا اطمینان محسوس ہوا۔وہ بھی کچھ دیر "قحط" کا غم بھلا کر اس محفل میں بیٹھ گیا۔شام کے سائے رات کے اندھیرے میں ڈھلنے لگے تو سورج کی ح حرارت کی جگہ چاند کی ٹھنڈک صحرا کا مزاج بدلنے لگی۔ رات کی خنکی بڑھی تو لوگ گرمیء محفل کو چھوڑ کرچھت کی پناہ میں چلے۔

سونو بھی اپنی مخروطی جھونپڑی داخل ہوا۔دیے کی مدھم روشنی میں اس نے زمین پر سوئی ہوئی موہنی کی طرف دیکھا جو اپنے لختَ جگر مدن کو چھاتی سے لگائے بے خودی کے عالم میں "امرت " پلانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ بھوکے لوگ دوسرے لوگوں کی بھوک کیوں کر مٹا سکتے ہیں؟ خوف کا اژگر ایک بار پھر اس کے سامنے سوال کا پھن پھیلا کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ایک نظر چارپائی پر سوئے ہوئے بڑے بیٹے موہن پر ڈالی جوفکروں سے آزاد خوابَ خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔

اس کے معصوم چہرے کو دیکھ کر اس کے لبوں پر ایک لمحے کو مسکراہٹ ابھری اوراگلے ہی لمحے خوف کے سیاہ بادلوں میں چھپ گئی۔وہ خاموشی سے موہن کے برابر چارپائی پر جا لیٹا۔ لیکن آنکھوں میں نیند کی جگہ "رت جگا " تھا۔ وہ کروٹیں بدلتا رہا اوور رات اپنا سفر طے کرتی رہی۔ آخر کار رات کے پچھلے پہر نیند اس کی بے خوابی پر غالب آگئی۔

سونو او سونو! جلدی اٹھ ۔ دیکھ مدن کو کیا ہورہا ہے۔ موہنی نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا۔ کیا ہوا مدن کو ؟ سونو نے بےزاری سے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا ۔ مدن کو تیز بخار ہے ۔سانس بھی ٹھیک سے نہیں آرہی ۔موہنی نے مری ہوئی آواز میں کہا ۔سونو نے بڑی مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ جونہی اس کی نظر مدن پر پڑی وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ مدن کی حالت انتہائی خراب تھی۔سانس رک رک کر آرہی تھی۔ اس نے موہنی کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ سونو نے خود پر بڑی مشکل سے قابو پایا اور موہنی کو تسلی دیتے ہوئے بولا:"فکر نہ کر ابھی مٹھی چلتےہیں ۔مدن کو بڑے اسپتال میں دکھائیں گے۔"

سونو اور موہنی بچے کو لے کر بڑے اسپتال پہنچے تو وہاں انھیں بہت سے پریشان سونو ،گھبرائی ہوئی موہنیاں اور بیمار مدن دکھائی دیے۔ پرچی بنوانے کے لیے ایک لمبی قطار لگی تھی۔ لوگ آگے بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے۔سونو بھی اس بھیڑ میں جا گھسا۔ بڑی مشکل سے اس نے پرچی بنوائی۔"ڈاکٹر اشوک کمار بچوں کی بیماریوں کے ماہر" ایک کمرے کے سامنے جلی حروف میں لکھی تختی آویزاں دیکھ کروہ رک گیا۔بچے کی حالت بگڑ رہی تھی اور اس کی حالت دیکھ کر موہنی کی حالت بھی غیر ہورہی تھی۔

لیکن یہاں بھی مریضوں کی لمبی قطار تھی جیسے ملک میں بچوں کے ڈاکٹروں کا قحط ہو۔ڈیڑھ گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد آخر ان کا نمبر بھی آہی گیا۔کیا تکلیف ہے بچے کو ؟ ڈاکٹر نے چائے کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے پوچھا ۔ڈاکٹر صاحب پتا نہیں اسے کیا ہورہا ہے؟ بخار ہے،سردی بھی لگ رہی ہے ،سانس بھی رک رک کر آرہا ہے۔

موہنی نے روتی آواز میں بتایا۔"نمونیا لگتا ہے ۔"ڈاکٹر نے ایک اچٹتی نگاہ مدن پر ڈالی ۔چائے کا کپ میز پر رکھااور کاغذ پر جلدی جلدی چند سطریں لکھ ماریں۔"لو یہ دوائیں لے لینا ۔" ڈاکٹر نے بے رخی سےپرچہ موہنی کے ہاتھ میں تھمادیا۔ ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔ موہنی نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ ڈاکٹر نے ڈانٹنے کے انداز میں اسے چپ کراتے ہوئے کہا : مائی مجھے دوسرے مریضوں کو بھی دیکھنا ہے۔ موہنی خاموشی سے اٹھ آئی۔

صاحب ! یہ دوائیں کہاں سے ملیں گی؟ سونو نے ڈاکٹر کے کمرے سے نکل کر ایک آدمی سے پوچھا۔"اسٹور سے " تنک کر جواب دیا گیا۔یہاں تو اخلاق کا بھی قحط ہے ۔سونو نے حسرت سے سوچا۔ اسپتال کے اسٹور کے سامنے بھی ایک لمبی قطار لگی تھی۔ لوگ پرچیاں ہاتھ میں لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔مایوسی ان کے دلوں سے نکل کر آنکھوں سے جھانک رہی تھی۔سونو بھی دوا کے لیے قطار میں لگ گیا۔

ارے سونو !تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ چھگن لال کی آواز نے اسے چونکا دیا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑا بیگ تھا جو مختلف قسم کی دواؤں سے بھرا ہوا تھا۔سونو نے حسرت بھری نظروں سے چھگن لال کو دیکھا۔ارے بھئی جلدی جاؤ،ڈی۔سی آفس سے کنک مل رہی ہے ،کہیں خختم نہ ہوجائے۔ چھگن لال نے چیختے ہوئے کہا۔ مگر ابھی تو مجھے دوا چاہیےچھگن ! بچے کے لیے۔ سونو نے امید بھری نظروں سے چھگن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ارے بھئی دوا بھی مل جائے گی،تم ایسا کرو موہنی کو یہیں چھوڑو دوا کے لیے ،تم جاکے کنک کی قطار میں لگو ۔چھگن نے پنا خلاص جتلایا۔

سونو کے دماغ میں یہ بات آگئی۔ موہنی تم یہیں رکو ۔دوا لو۔میں کنک لےکر آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ڈی۔سی آفس کی جانب روانہ ہوگیا۔ جب سونو وہاں پہنچا تو اس کی امید پھر دم توڑنے لگی۔ ایک لمبی قطار وہاں بھی موجود تھی۔"کنک بھی ضرووری ہے۔" اس نے ایک لمحے سوچا اور قطار میں لگ کر کھڑا ہوگیا۔قطار بہت سست روی کے ساتھ آگے کھسک رہی تھی۔ اس کا دل کنک اور دوا کے درمیان اٹکا ہوا تھا ۔اگر دوا نہ ملی تو۔۔۔۔۔لیکن کنک بھی ضروری ہے ۔ اگر کنک نہ ملی تو۔۔۔۔۔

" گندم ختم ہوگئی" یہ اعلان سنتے ہی قطار کھسکنے کے بجائے ٹوٹ گئی۔لوگ غصے کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ مارکیٹ میں بیچیں گے سالے۔کسی نے کہا۔ اپنا پیٹ بھریں گے ہم بھونکوں کو تھوڑئی دیں گے۔ ایک اور آواز ابھری۔ ہم گندم لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ کسی کا نعرہء مستانہ فضا میں بلند ہوا۔ چند ہی لمحوں میں آنکھوں کا یہ غصہ پہلے زبان اور پھر ہاتھوں میں آگیا۔ پہلے پتھروں کی برسات شروع ہوئی ،پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ فضا میں گونجی اور ہجوم چھٹنے لگا۔ سونو کو موہنی کا خیال آیا۔ اس نے اسپتال کی طرف دوڑ لگائی۔ہانپتا کانپتا جب وہ اسپتال کے اسٹور کے سامنے پہنچا تو وہاں بھی بھیڑ چھٹ چکی تھی۔

موہنی بت بنی ایک کونے میں کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں ننھا مدن تھا اور انگلیوں کے درمیان دوا کی پرچی دبی تھی۔ دوائیں ملیں؟ سونو نے بے قراری سے پوچھا۔"نہیں" موہنی نے نفی میں گردن ہلادی۔ کنک ملی ؟موہنی نے مردار آواز میں پوچھا۔"نہیں" اس بار سونو نے انکار میں گردن ہلادی۔ دونوں کچھ دیر بت بنے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے پھر بوجھل قدموں سے باہر کی جانب چل پڑے۔ اسپتال سے نکلتے ہی ان کی نظر چھگن لال پر پڑی جو دواؤں سے بھرا تھیلا ہاتھ میں لیے ایک کھلی ڈاٹسن کے اگلے حصے میں سوار ہورہا تھا ۔گاڑی کے پچھلے حصے میں گندم کی بوریاں بھری تھیں۔