’’ضیا محی الدین‘‘ فن و ثقافت کا روشن ستارہ ڈوب گیا

February 14, 2023

ابھی ہم ممتاز ادیب، شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد کی اچانک موت کے صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ صرف تین روز بعد ہی عالمی شہرت یافتہ فن کارضیا محی الدین کے انتقال کی خبر نے مزید اُداس کردیا۔ ان کے سانحۂ ارتحال سے فن و ثقافت کا روشن ستارہ ڈُوب گیا۔ انہیں تلفظ اور لب و لہجے کا بادشاہ کہا جاتا تھا،جس محفل میں کلاسیکی شاعری اور دیگر تخلیقات اپنی آواز میں پیش کرتے تھے، سماں باندھ دیتے تھے۔ وہ آواز کے جادو گر تھے۔آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرس میں ہر سال میلہ لوٹتے تھے۔ 31 جنوری 2023 کو ناپا اکیڈمی میں منعقدہ تقریب ان کی آخری تقریب ثابت ہوئی، جس میں انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو مدعو کیا تھا۔

ضیا محی الدین 20 جون 1931ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کو پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کےمصنف اور مکالمہ نگار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ضیاء محی الدین نے 50ء کی دہائی میں لندن کے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ سے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ 1962ء میں انہوں نے مشہور فلم ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ میں یادگار کردار ادا کیا۔ انہوں نے ریڈیو آسٹریلیا سے صداکاری سے اپنے کام کا آغاز کیا، بہت عرصے تک برطانیہ کے تھیٹر پر بھی کردار نگاری کی، برطانوی سنیما اور ہالی وڈ میں بھی فن کے جوہر دکھائے۔

وہ براڈ وے کی زینت بننے والے جنوبی ایشیاء کے پہلے اداکار تھے، 70ء کی دہائی میں انہوں نے پی ٹی وی سے ’’ضیا محی الدین شو‘‘ کے نام سے منفرد پروگرام شروع کیا۔ 1973ء میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر کر دیے گئے، جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے بعد وہ واپس برطانیہ چلے گئے، 90ء کی دہائی میں انہوں نے مستقل پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ضیاء محی الدین نے جنگ گروپ کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں کالم بھی لکھے، ان کی ایک کتاب مکمل ادبی شہہ پارہ ثابت ہوئی ۔وہ واحد ادبی شخصیت تھے، جن کے پڑھنے اور بولنے کے انداز کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔ اردو طنزو مزاح کے بادشاہ مشتاق احمد یوسفی نے ضیا محی الدین کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’ ضیا اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے تو وہ زندہ ہوجاتا ہے۔‘‘

برطانیہ میں 1960ء میں عالمی شہرت یافتہ ادیب ایڈورڈ مورگن فوسٹر کے مشہور ناول ”A Passage to India“ پر بنے اسٹیج ڈرامے میں ضیا محی الدین نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کر کے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اس ڈرامے میں ایسی شان دار اور باکمال پرفارمنس دی کہ شائقین حیرت زدہ رہ گئے۔اس کے علاوہ ان کے انگریزی ٹی وی ڈراموں میں ”ڈینجرمین، دی ایونجرز مین، ان اے سوٹ کیس، ڈیٹیکٹو، ڈیتھ آف اے پرنسس، دی جیول پرائڈ، ان دی کرائون اور فیملی“ سرفہرست ہیں۔

ضیاء محی الدین نے اپنے فلمی سفر کا آغام 1962ء میں ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ کلاسیکی فلم ”لارنس آف عریبیہ“ سے کیا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے عربی بدو کا کردار ادا کیا۔ان کی مشہور انگریزی فلموں میں ”خرطوم، دی سیلر فرام جبرالٹر، بمبئے ٹاکی اور پارٹیشن‘‘ شامل ہیں۔ پاکستانی فلمی صنعت میں انہوں نے پہلی بار نامور ہدایت کاراسلم ڈارکی فلم ’’ مجرم کون‘‘میں بہ طور ہیرو کام کیا۔یہ فلم 1971 میں نمائش پزیر ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہدایت کار فرید احمد کی فلم سہاگ میں بھی کام کیا، جس میں شمیم آراء اورندیم نے مرکزی کردارکیے تھے۔ 1969ء اور 1973 ء میں انہوں نے پی ٹی وی سے ایک اسٹیج شو ’’ضیاء محی الدین شو‘‘ کا آغاز کیا اور بہ طور میزبان ایسی پرفارمنس دی کہ مقبولیت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ دیے۔ اس پروگرام کے ذریعے انہوں نے اردو ادب کی ترویج و تشریح اور پاکستانیوں میں اردو زبان سے محبت بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ ناپا کے طالب علم کو ڈگری دے رہے ہیں

اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن سے جو پروگرام پیش کیے، ان میں پائل، چچا چھکن، ضیاء کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے نام سب سے نمایاں ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کے نایاب شاعر و فلسفی مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط جس انداز میں پڑھے، اس سے بھی انہیں بہت شہرت ملی۔انہوں نے دو کتابیں ”دی گاڈ آف مائی ایڈولیٹری“ اور ”اے کیرٹ از اے کیرٹ: میموریز اینڈ ریفلیکشنز“ بھی تخلیق کیں۔انہیں 2003ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ 2004ء میں ناپا اکیڈمی( نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس ) قائم کی اور 2023 تک اس اکیڈمی کے بانی اور سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس(ناپا) اکیڈمی، ضیا محی الدین کی سرپرستی میں گزشتہ اٹھارہ برس سے پرفارمنگ آرٹس کے شعبے میں کام کر رہی ہے، جس کا افتتاح سابق صدرپرویز مشرف نے کیا تھا۔ ضیا محی الدین کے ساتھ نامور اداکار راحت کاظمی، طلعت حسین، ارشد محمود، نیاز احمد، نفیس احمد، ڈاکٹر انور سجاد اور دیگر نے اپنی خدمات انجام دیں۔ کراچی میں تھیٹر کو زندہ کرنے میں ضیا صاحب اور ناپا اکیڈمی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ضیاء محی الدین کی سرپرستی میں چلنے والی ناپا اکیڈمی کے بھارت میں بھی چرچے ہونے لگے۔

ناپا اکیڈمی میں منعقدہ ایک ڈرامے میں نصیرالدین شاہ اورضیامحی الدین

بھارت کے نامور ہدایت کار مہیش بھٹ، نصیر الدین شاہ اور اوم پوری نے اس اکیڈمی میں اپنے کھیل پیش کیے۔ انوپم کھیر سمیت کئی بین الاقوامی شہرت یافتہ فن کاروں نے اس کا رُخ کیا۔ درجنوں نیشنل اور انٹرنیشنل موسیقی اور تھیٹر کے کام یاب فیسٹیول منعقد کیے گئے۔ ناپا اکیڈمی سے ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کرنے والے فن کار آج ٹیلی ویژن اور فلموں میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ناپا اکیڈمی سے ڈپلومہ حاصل کرنےوالے فن کاروں میں ڈگریاں تقسیم کرنے کے سلسلے میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ضیا محی الدین کی ناپا اکیڈمی بڑی محنت سے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔ ناپا اکیڈمی کو فن و فن کاروں کی پروموٹ کرتے ہوئے اٹھارہ برس بیت گئے۔ اس اکیڈمی نے جو کام کیے، وہ ہماری توقعات سے بڑھ کر ہیں۔ اس کام یابی کا سہرا ضیا محی الدین اور ان کی پُوری ٹیم کو جاتا ہے۔ کراچی کی رونقیں بحال کرنے میں ناپا اکیڈمی نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ پرفارمنگ آرٹس کے میدان میں یہ انہی طرز کا واحد ادارہ ہے ۔ ‘‘

مہیش بھٹ اور پوجا بھٹ ناپا اکیڈمی میں گفتگو کرتے ہوئے

گزشتہ اٹھارہ برسوں سے ناپا اکیڈمی نے پرفارمنگ آرٹس کے میدان میں مثالی خدمات انجام دی ہیں۔ اس سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان میں فنون کے شعبوں میں ڈگری حاصل کی جا سکیں گی۔ ہندو جم خانہ میں قائم کی گئی ناپا اکیڈمی تو ان گنت مسائل کا سامنا رہا۔ کبھی اس کی گرانٹ روک دی جاتی تھی، تو کبھی عمارت خالی کرنے کا حکومتی آرڈر آجاتا تھا، لیکن ضیا صاحب نے ہمت نہیں ہاری، ہر طرح کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اس طرح کی اکیڈمیز ملک کے تمام شہروں میں قائم کی گئی تو نئے آنے والے باصلاحیت فن کاروں کو آسانی سے شوبزنس میں کام کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کا سارا کریڈٹ ضیا محی الدین کو جا تا ہے۔ ضیا محی الدین نے شوبزنس انڈسٹری کو ان گنت فن کاروں سے نوازا، جن میں معین اختر کا نام سب سے نمایاں ہے۔ایسی باکمال شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔

ضیا محی الدین شو میں معین اختر کی پہلی انٹری کس طرح ہوئی، مرحوم کی اپنی زبانی پڑھیے

ایک روز مجھے ٹی وی سے ظہیر بھٹی کا پیغام آیا کہ میں ان سے مل لوں۔ کراچی سے ’’ضیاء محی الدین شو‘‘ شروع ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ملنا چاہتے ہیں۔ میں ٹی وی گیا ، اب میری جھجک کچھ کم ہوگئی تھی، میری ایک عادت ہے کہ کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک ضرور دیتا ہوں، خیر میں ٹی وی گیا، وہاں جب میں نے ظہیر بھٹی کے کمرے کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے ایک رعب دار آواز آئی، جوں ہی میں کمرے میں داخل ہوا، تو اپنے سامنے ضیا محی الدین کو دیکھ کر میری سٹی گم ہوگئی، مجھ سے کہنے لگے جی فرمایئے! میں گھبرا گیا تھا، میں نے کہا جی ظہیر بھٹی نے بلوایا ہے۔ کہنے لگے، وہ تو اس وقت نہیں ہیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ارشد محمود اور ضیا محی الدین اکیڈمی میں ویلکم کرتے ہوئے

میں شکریہ کہہ کر وہاں سے نِکل آیا اور پھر میں چلا گیا، رشید عمر تھانوی مرحوم کے کمرے میں اور میں نے کہا کہ میری ملاقات ضیاء صاحب سے کروادیں، وہ ظہیر بھٹی کے کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ رشید عمر تھانوی مجھے ظہیر بھٹی کے کمرے کی طرف لے کر چل پڑے۔ ضیاء محی الدین کسی کام میں مگن تھے، انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا، تو رشید عمر تھانوی سے کہا!! ہاں رشید…؟ تو انہوں نے تعارف کرواتے ہوئے کہا ضیاء صاحب یہ بہت ٹیلینٹڈ لڑکا ہے، آپ اپنے شو میں اسے ٹرائی کیجیے۔

اسی دوران ظہیر بھٹی بھی آگئے، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے، آپ کو تو کافی دن پہلے بلوایا تھا۔ پھر انہوں نے ضیاء صاحب سے تعارف کرواتے ہوئے کہا، یہ ہی وہ لڑکا ہے، جس کے بارے میں مَیں نے آپ کو بتایا تھا۔ اس نے الیکشن کی ٹرانسمیشن میں بہت اچھے Skits کیے تھے۔ ضیاء صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔ مجھ پر بہت گھبراہٹ طاری تھی، وہ جن کا ایک زمانہ شیدائی ہے، جن کے فن کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر ہوچکا تھا، جن کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ فخر محسوس کرتے تھے، وہ میرے سامنے تھے، میں ان کی موجودگی میں ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پارہا تھا۔

اس دوران ظہیر بھٹی کیا کچھ کہتے رہے، مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔ میں ضیاء محی الدین کی شخصیت کے سحر میں کھو گیا تھا، پھر میں ضیاء صاحب سے اجازت لے کر رشید عمر تھانوی کے ساتھ باہر آگیا، جاتے ہوئے صرف اتنا یاد ہے ظہیر بھٹی کی آواز آئی معین! کل شام تم سے ملاقات ہونی چاہیے، آپ سے بات کریں گے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور رشید عمر تھانوی کے کمرے میں آکر بیٹھ گیا، انہوں نے چائے منگوائی اور ہم چائے پینے لگے، میں ضیاء محی الدین سے مل کر بہت خوش ہوا تھا، انہوں نے زیادہ بات نہیں کی تھی ، لیکن ان کا رعب مجھ پر پڑگیا تھا، نہ جانے ان کی شخصیت میں کیا بات تھی کہ ان کے سامنے بولا نہیں جارہا تھا۔

انور مقصود اور ضیا محی الدین

رشید عمر تھانوی پوچھنے لگے کیا، تم ضیاء صاحب سے پہلی دفعہ ملے ہو؟ میں نے کہا ہاں! کہنے لگے بڑے زبردست انسان ہیں اور بہت قابل۔ میں نے کہا ہمیں ان پر فخر کرنا چاہیے۔ بولے ٹھیک کہتے ہو، وہ اپنا شو شروع کررہے ہیں، معین! اگر انہوں نے تمہیں اپنے شو میں موقع دیا، تو تم دیکھنا تمہاری شہرت میں بہت اضافہ ہوگا اور پھر میں بھی خواب دیکھنے لگا کہ میں شہرت کی بلندیوں پر کھڑا ہوں۔

میرے اس سحر کو رشید عمر تھانوی کی آواز نے توڑ دیا، کہنے لگے، کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے کہا، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ضیاء صاحب مجھے اپنے شو میں موقع دیں؟ کہنے لگے دیکھو کہا تو ہے، اب تم کل ظہیر بھٹی سے ضرور مل لینا۔ میں واپس لوٹ آیا، دوسرے روز میں خصوصی طور پر تیار ہو کر جو بہترین لباس میرے پاس تھا، پہن کر ٹی وی چلا گیا۔ ظہیر بھٹی کمرے میں اکیلے تھے، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا، بیٹھو۔ پھر کہنے لگے معین! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو پہلا ضیاء محی الدین شو ہورہا ہے، اس میں تم سے ایک دس منٹ کی پرفارمنس کروانی ہے، لیکن کوئی نئی چیز ہونا چاہیے، جو تم اسٹیج پر کرتے ہو، وہ نہیں چاہیے۔ پھر کہنے لگے، کل ضیاء صاحب تم سے انٹرویو کریں گے، انہوں نے مجھے ٹائم بتادیا اور پھر میں خوشی خوشی گھر لوٹ آیا اور گھر والوں کو بتایا اور والدہ سے کہا، آپ دعا کریں کہ میں اس شو میں کام یاب ہوجاؤں۔

اگلے دل میری زندگی کا اہم ترین دن تھا، ضیاء محی الدین نے میرا انٹرویو کرنا تھا، میں خاصا ڈرا ہوا تھا کہ نہ جانے وہ انٹرویو میں کیا پوچھیں، ان کی قابلیت کے آگے ہمارا چراغ کہاں جل سکتا تھا، سچ بات تو یہ ہے کہ میں نروس تھا۔ اسی دوران میں ٹی وی پہنچ گیا، ڈرتے ڈرتے ظہیر بھٹی کے دروازہ پر دستک دی، اجازت ملنے پر میں کمرے میں داخل ہوا، ضیاء صاحب موجود تھے، میں نے ان کو سلام کیا، ہاتھ ملایا، پھر ظہیر بھٹی سے ہاتھ ملایا، لیکن میری حیرت کی انتہا ہ رہی، جب ضیاء صاحب مجھ سے باتیں کرنے لگے اور بہت ہی شائستہ اور مہذب انداز میں ان کی انگریزی کے ساتھ ساتھ ان کی اردو بھی سننے والی تھی، ان کا یہ کمال ہے کہ جب اردو بولتے ہیں تو اس میں ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں استعمال کرتے ہیں اور جب انگریزی بولتے ہیں تواس میں ایک لفظ اردو کا نہیں بولتے۔

مجھ جیسا آرٹسٹ ان کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالنے کی کیا جسارت کرسکتا ہے، لیکن چوں کہ آج میں جو بھی ہُوں، اس میں ضیاء صاحب کی تربیت کا بڑا دخل ہے۔ ضیاء صاحب نے بات مختصر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نئی چیز ہونا چاہیے، جو پہلے آپ نے ٹی وی پر نہ کی ہو۔ میں نے ان دنوں ایک نیا خاکہ تیار کیا تھا ، جس میں الیکشن کے چند Compares کے انداز کی کاپی کی تھی، جن میں صدیق ارشد، قریش پور، وقار احمد وغیرہ تھے۔ جب میں نے ان کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے، بہت ہنسے، کہنے لگے، میرا خیال ہے تمہیں یہ کرنا چاہیے، پھر کہنے لگے، اس میں ابھی کچا پن ہے، اس پر خوب محنت کریں۔ مجھے ان کے شو میں کام مل گیا تھا اور میں اسے اپنے خوش نصیبی تصور کررہا تھا۔

اب مجھے کیا پتہ تھا کہ قدرت کی طرف سے مجھ پر شہرت کے دروازے کھلنے والے تھے، خدا خدا کر کے شو کا دن آپہنچا، دوپہر سے ہم ریہرسل میں تھے، ضیاء صاحب بڑے Perfectionist ہیں، ہر ہر پل وہ اسکرپٹ کی نوک پلک دُرست کررہے تھے اور ٹہل ٹہل کر کچھ یاد بھی کررہے تھے، میں اسٹیج کے سائیڈ میں کھڑا ان کی ہر حرکت کا بہ غور جائزہ لے رہا تھا۔ میں ان سے بہت متاثر تھا، لیکن ان کے ساتھ تھوڑا کام کر کے میں ان کا دیوانہ ہوگیا، اتنی محنت، اتنی لگن اور اتنے انہماک سے کام کرتے ہوئے میں نے پاکستان میں کسی دوسرے آرٹسٹ کو نہیں دیکھا، ان کا دس فی صد بھی اگر ہم اپنے کام پر توجہ دیں، تو ہم کہاں سے کہاں نکل جائیں۔

شو شروع ہونے والا تھا، فلیٹ کلب میں اس شو کی ریکارڈنگ تھی، ہم سب اور جتنے شو کے مہمان تھے، سب اسٹیج کے پیچھے بیٹھے تھے اور ضیاء صاحب مسلسل ٹہل رہے تھے، میں ڈرتے ڈرتے ان کے پاس گیا اور میں نے کہا سر! میرے لیے دعا کیجیے گا۔ مسکرا کر انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا "Wish you all the best" ۔ میں نروس تھا، اس کا ان کو علم تھا، شو شروع ہوا آواز آئی، آپ کی خدمت میں ضیاء محی الدین! پھر تالیوں کا ایک نہ رکنے والا طوفان تھا اور پھر شو نہایت کام یابی سے چلتا رہا، اسی دوران انہوں نے میرا اعلان کیا، میں داخل ہوا اور اپنی پرفارمنس کی، چوں کہ جن Compares کے انداز میں نے پیش کیے، ان سب سے ہال میں موجود لوگ واقف تھے، خوب تالیاں بجیں۔ میں اس شو میں ہٹ ہوگیا تھا، اسٹیج اور ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ ضیاء صاحب سمیت خوب ہنس رہے تھے اور تالیاں بجا رہے تھے۔