زمین اور انسانیت کی بقا کا مسئلہ

March 02, 2023

ماحولیات کیا ہے؟قدرتی ماحول جس میں ہم سب زندہ ہیں۔ حیوان، پودے، چرند پرند، آبی حیاتیات اور تمام حشرات الارض زندہ رہتے ہیں اور اپنے اپنے خطوں کی بارش ،سردی، گرمی ،طوفان سب برداشت کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قدرتی طور پر جو بھی ماحول ہوتا ہے وہ ماحولیات میں شمار ہوتا ہے۔ یہی قدرتی ماحول ہمیں زندہ رکھتا ہے خوراک مہیا کرتا ہے۔

EnvioronMent فرانسیسی زبان کا لفظ ہے تمام زمینی حیات موسمی، تبدیلیاں، ہوا پانی فضا زمین سب اس زمرے میں شامل ہیں۔ زمین کی سب سے اوپری سطح اوزون کہلاتی ہے۔ یہ ایک فضائی غلاف ہے جو زمین کو سورج کی الٹراوائیلنٹ شعاعوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ سورج سے تابکاری شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو زمین اور تمام حیاتیات کے لئے مضر ہے۔

بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میں آسٹریلیا کے ساحلوں پر دھوپ سیکنے والے یاسن باتھ لینے والوں میں ایک بارہ سالہ بچی کی کمر کے قریب ایک پھنسی ابھرآئی،کسی نے خاص توجہ نہ دی چند روز بعد وہ مزید بڑی ہوئی اور اس میں درد شروع ہوا، تب ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تومعلوم ہوا کہ پھنسی اندر گھٹلی بن چکی جس سے تکلیف بڑھ رہی ہے۔ بچی کا آپریشن ہوا گٹھلی نکال دی گئی۔ اس پر تحقیق شروع ہوئی پورے ایک سال بعد کی تحقیق و تفتیش کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ یہ پھنسی الٹرا وائیلنٹ شعاعوں کی وجہ سے ہوئی ۔ فضائی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہواکہ اوزون کے غلاف میں چھوٹا سا سوراخ ہوگیا ہے ،جس سے نکلی یہ شعاعیں بچی پر اثرانداز ہوئیں۔ اس انکشاف کے بعد سائنس دانوں اور ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ ماحولیات سمیت دیگر ممالک سائنس دان بھی سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ اوزون کے سوراخ پر مسلسل نظررکھی جاتی رہی مگر وہ آہستگی سے اپنا حجم بڑھا رہا تھا۔ مکمل تحقیق کے بعد یہ تشویشناک حقیقت سامنے آئی کہ زمین پر بہت تیزی سے پھیلتی آلودگی کی وجہ سے اوزون میںسوراخ پیداہوا تب اس سوراخ کو بند کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ گزری بیسویں صدی کے نصف کے بعد دنیا جان گئی ہے کہ زمین پر جو موسمی تغیرات کا سلسلہ چل پڑا ہے درحقیقت اس میں انسانوں کا خود سب سے بڑا حصہ ہے۔ زمین پر پھیلتی آلودگی ،زمین ،فضا ،سمندر ہر جگہ اپنا منفی اثردکھا رہی ہے۔ درحقیقت قدرتی آفات کوئلہ پر تیل اور گیس کے بڑھتے استعمال اورکارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا کثیف دھواں، ہزاروں گیلن آلودہ پانی اور ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ روز سمندروں میں بہایا جاتا ہے جن کی وجہ ہسے زمین ،پانی اور ہوا آلودہ ہو رہی ہیں ،وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔

اب موسمی تبدیلیوں کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہیں طوفانی بارشیں، ہوائی طوفان، شدید برفباری کہیں گرمی میں شدت تو کہیں سیلاب ،دوسرے لفظوں میں قدرتی ماحول اور موسمی صورتحال سب کچھ تتر بتر ہو کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ سال شدید طوفانی بارشوں نے تھالی لینڈ کے ایک بڑے شہر کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ امریکی ریاست فلوریڈا ایک طرح سے مکمل کھنڈر بن چکا۔بارشوں اور سمندری طوفانوں نے کیوبا تا کیریبین جزائر تک شدید ترین نقصان پہنچائے اور ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہوگئے۔

پاکستان کے شمالی خطوں میں موسلا دھار بارشوں شدید طوفانی ہوائوں نے تین کروڑ سے زائد افراد کے گھر ڈھا دیئے، کھڑی فصلیں تباہ کردیں اورکئی ماہ تک لاکھوں ہیکٹر ایکڑ زمین پانچ چھ فٹ پانی بھرا رہا۔ بھارت کے بھی شمالی علاقوں کا برا حال ہوا۔ لوگوں کو بارشوں اور سیلاب سے بڑے بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان اناج کی پیداوار کو ہوا۔ کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ زرعی زمین پانچ پانچ فٹ پانی کھڑا رہا،ایسے میں کا شتکار کیا کر سکتا ہے۔ ادارہ عالمی خوراک کو تشویش اس پر ہے کہ لوگ اسٹاک اناج استعمال کررہے ہیں جو تیزی سے ختم ہو رہا ہے جبکہ مزید اسٹاک میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ایسے میں آئندہ دو تین برسوں میں خوراک میں کمی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

دنیا میں کچھ سائنس دان اور ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ماحولیات میں بگاڑ اور موسمی تبدیلیوں کا شور برپا ہے یہ محض چند سائنس دانوں اور ان کے حاشیہ بردار ماہرین کا ڈرامہ ہے، تاکہ اس طرح کروڑوں ڈالر جمع کر سکیں دوچار کانفرنسیں کریں نام بھی اور دام بھی پیدا کر سکیں، جبکہ ان عناصر کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا میں صدیوں سے ہوتا رہا ہے۔ دریافت تاریخ میں دریائے نیل کے سیلابوں نے مصر اور دیگر ممالک کی زندگیاں اجیرن کر رکھی تھیں۔ روما اسمارٹا ،سوسووشیما اور گنگا کی وادیوں میں بڑے بڑے سیلاب ، زلزلے آتے رہے، وبائی امراض پھیلتے رہے۔ کم و بیش یہی صورتحال ماضی بعید میں بھی تھی ،کچھ نیا نہیں ہو رہا ،یہ محض واویلا ہے، دنیا وہی ہے جو لاکھوں برسوں سے ہے۔

کرئہ ارض کے حوالے سے جیسا اوپر بیان کیا گیا اوزون میں سوراخ ہونے کے نتیجے میں زمین گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات کے مسئلے سے دوچار ہوئی۔ اس حوالے سے یہ کہنا کہ محض واویلا اور پیسہ بٹورنے کا کھیل ہے قطعی غلط ہے۔ قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ موسمی تبدیلیاں عمل میں آرہی ہیں۔ آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اس لئے دنیا کے ہوش مند، سنجیدہ ماہرین اور سائنس دانوں کوکرئہ ارض کے قدرتی ماحول میں سدھار لانے ،آلودگی کو کم سے کم کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ انسانیت کی بقاء کیلئے جنگ لڑنا ہوگی۔ ہمیں اختلاف رائے رکھنے والوں کو قطعی نظرانداز کرنا ہوگا۔

کرئہ ارض کے تحفظ کے عنوان سے پہلی عالمی سربراہی کانفرنس 1982ء میں برازیل میں منعقد ہوئی۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بڑی کانفرنس دسمبر 1988ء میں، نیویارک میں 1997ء میں اور۔2002ء میں جوہانسبرگ میں ماحولیات میں سدھار پر کانفرنس منعقد ہوئی۔ بعدازاں نومبر 2015ء میں پیرس میں دنیا کے تمام سربراہوں کی کانفرنس منعقد ہوئی اس میں پیرس معاہدہ پر تمام سربراہوں نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدہ سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علیحدگی اختیار کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا، تاہم یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا محض پبلسٹی اسسٹنٹ تھا۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے دوبارہ امریکہ کو معاہدہ میں شریک کردیا۔ دنیا علامتی طور پر لیفٹ لبرل اور رائٹ قدامت پسندوں کے گروہ عالمی سیاست میں سرگرم ہیں۔ ان میں رائٹ ونگ کے اکثر رہنما ماحولیات کے موضوع پر اپنے شک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں اور اکثریت ان کے خیالات کی مذمت کرتی رہی ہے۔ تمام دنیا کو اب یہ بات تسلیم کرلینا چاہئے کہ قدرتی ماحول اور موسمی حالات میں زبردست بگاڑ ہوچکا ہے ۔ ہر فرد کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو آلودگی سے محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ،یہ زمین اور انسانیت کی بقاء کا مسئلہ ہے۔

نومبر 2022ء میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں عالمی سربراہوں کی کانفرنس ہوئی۔ اس دو روزہ کانفرنس میں ماہرین نے مقالات اور جائزہ رپورٹس پیش کیں وہ انتہائی تشویشناک تھیں ۔کانفرنس میں فرانس کے سائنس دانوں نے خلاء سے اتاری گئیں تصاویر پیش کیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ چار سال قبل اتاری تصاویر اور حالیہ تصاویر میں بہت زیادہ فرق ہے، کبھی ہری بھری زمین اب بیش تر جگہوں پر خشک سالی کا شکار نظر آرہی ہے۔ ان تصاویر نے دنیا کو حیرت اور شدید خوف میں مبتلا کر دیا ہے ۔ سائنس دانوں کا خیال ہے ،جو سبزہ اب نظر آرہا ہے، سال 2050 تک شاید یہ بھی نہ رہے۔ اس تشویشناک صورتحال میں انسان کرئہ ارض کے تحفظ کے لئے جو بھی کر سکتا ہے کر ڈالے۔

ماہرین نے گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات کو عالمی دہشت گردی سے کہیں زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ یہ پوری انسانیت کا سنگین مسئلہ ہے۔ دراصل دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ کی بدولت دنیا گوناگوں مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے،اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب تیس کروڑ ہے ،خیال ہے اس صدی میں نو ارب سے زیادہ بڑھ سکتی ہے ،ایسے میں ماحولیات کو بہتر بنانے کی کوششیں عبث ہو جائیں گی ،آبادی میں اضافے کے حوالے سے پہلی بار 1954 سے سال 2022ء تک ماحولیات کے موضوع پر ستائیس کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں مگر نتیجہ لاحاصل۔

آدمیت کے احترام اور اعلیٰ انسانی اقدار سے انحراف ،بدعنوانی ،طبقاتی تفریق اورعالمی دہشت گردی میں زیادہ اضافہ جیسے منفی اعمال اور رویئے اس کا ثبوت ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے حصار سے بالاتر ہو کر اس کرئہ ارض کے تحفظ اور اس پر آباد حیاتیات کی سلامی کے لئے سنجیدہ اور بامقصد پالیسی وضع کریں، بصورت دیگر یہ امکانات قوی ہیں کہ اس جھلستی مسائل سے نبردآزما دھرتی پر کوئی شعار بھڑک کر اس پورے کرئہ ارض کوکسی بڑی جنگ میں جھونک سکتا ہے، جس کا تصور بھی قیامت سے کم نہیں۔

کرئہ ارض پر قدرتی ماحول میں خرابی اور موسمی تبدیلیوں کے اسباب کے جائزوں میں یہ بالکل واضح ہے کہ پلاسٹک کی اشیاء کی بہتات، سمندر میں آلودہ پانی اور پلاسٹک کا کچرا بحری آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ درختوں کی کٹائی پر روزانہ بچی ہوئی ٹنوں خوراک کوڑے دان کی نذر ہو رہی ہے جس سے خوراک کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

گزشتہ سال مخض افریقی ممالک میں ڈھائی لاکھ افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ ہزاروں ہوائی جہاز فضا میں ہر روز گردش کرتے اور گیسولین کا دھواں شامل کرتے رہتے ہیں جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرف لاکھوں وہیکل سڑکوں پر دھواں چھوڑ رہی ہیں دوسری طرف ہزاروں طیارے ہر روز گیسولین کا دھواں فضا میں شامل کر رہے ہیں جس سے پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔

گزشتہ سال چین میں پانچ لیول کا سیلاب آیا تھا جس سے چین کو زبردست نقصان پہنچا مگر حکومت نے اپنے طور پر قابو پالیا۔ ایک جائزہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بیشتر ترقی پذیر ممالک میں غیر مؤثر حکمرانی عوام کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔ درحقیقت بیشتر ترقی پذیر ممالک میں رشوت ستانی ،بدعنوانی ،ناانصافی اور بدامنی عام ہے، جس کی وجہ سے ان ملکوں کے معاشرے بے چینی،اضطراب اور افراتفری کا شکار ہیں ،ایسے میں عوام بے بس اورگومگو کا شکار ہیں ،بیشتر ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت ناپید ہے، بولنے پر پابندی ہے۔ ایسے معاشروں میں گھٹن کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ جدید دنیا کے عصری تقاضوں کی تکمیل ادھوری رہ جاتی ہے۔

تذبذب، مایوسی اور افراتفری عام ہو جاتی ہے۔ نظم و ضبط کی کمی، سماجی شعور میں کمی، قانون کی بالادستی میں کمی کی وجہ سے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل اور سماجی آلودگی میں اضافہ عمل میں آرہا ہے۔ لاطینی امریکی ممالک، افریقی اور ایشیائی ممالک کے زیادہ معاشرے مذکورہ مسائل کا شکار ہیں اور ان ممالک میں ترقی کی افتاہ صفر سے کچھ اوپر ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا میں فیشن کی صنعت نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں بڑے فیشن ہاؤسز کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ دلچسپ حقیقت ہے کہ اس سے بھی دنیا میں آلودگی میں اضافہ ہو رہاہے، جب کہ اس صنعت سے لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔

درحقیقت سرمایہ کار کیلئے پیداوار ضروری ہوتی ہے، اسی سے وہ منافع کماتا ہے۔ جب پیداوار میں اضافہ کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس کے لئے انرجی بہت ضروری ہے اور انرجی کے حصول کے لئے قدرتی گیس، کوئلہ اور تیل کا استعمال بڑھ جاتا ہے جو آخرکار آلودگی میں اضافہ کا سبب بنتا ہے، مگر سرمایہ دار اور سرمایہ کار کے لئے اہم پیداوار اور منافع ہے ،اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سرمایہ کے تحفظ کے حوالے سے بھی اقدام کرتا ہے ایسے میں اس کیلئے قدرتی ماحول ،کرئہ ارض کا تحفظ محض رسمی باتیں ہوتی ہیں۔ بحری آلودگی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بارہ فیصد لوگ مچھلی اور دیگر سمندری حیاتیات سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، گویا اجناس کے بعد سمندری حیاتیات بھی انسانی خوراک کا اہم ذریعہ ہیں۔

بعض ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول میں بگاڑ اور موسمی تغیرات کے سبب خدشہ بڑھ رہا ہے کہ یہ مسائل عالمی جنگ میں نہ تبدیل ہو جائیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا اپنے تمام مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے محض پورا زور بین البراعظمی میزائل سسٹم کو ترقی دینے اور دور مار میزائلوں کے تجربے کرنے میں مصروف ہے۔ وہ بار بارامریکہ کو للکارتا ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جو اپنے اسلحہ خانے کو بھرنے کیلئے روس، امریکہ اور یورپ سے جدید تر ہتھیاروں کی خریداری میں مصروف ہے۔ ایسے میں امریکہ جو بھارت سے دوستی تو رکھتا ہے مگر اس نے ایف سولہ طیاروں کے اہم کل پرزے پاکستان کو فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس پر بھارت اور امریکہ کے مابین قدرے کشیدگی عود کر آئی ہے۔

ایسے میں بھارت مزید روس کی طرف جا سکتاہے اور پاکستان امریکہ کی طرف ،یہ دوبارہ سرد جنگ کے دور کا نقشہ بن سکتا ہے۔ درحقیقت ترقی پذیر ممالک کے رہنمائوں کو سوچنا ہوگا کہ بدلتی دنیا میں عالمی سیاست کروٹ بدلتی رہتی ہے، کچھ بھی دائمی نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں نیروبی میں ہونے والی ماحولیات کی کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد میں چالیس فیصد کمی ہو چکی ہے۔ ماحول، گلوبل وارمنگ کے اثرات حیوانات پر زیادہ پڑے ہیں۔ ہاتھیوں سمیت دیگر جانور بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔

کینیا کی حکومت نے حیوانات کے شکار بالخصوص ہاتھیوں کے شکار پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ دنیا کے ماہرین حیوانات نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ افریقہ سمیت دیگر ممالک میں جانوروں کے شکار پر پابندیاں عائد کروائے۔ بیشتر جانوروں کی نسلیں ختم ہورہی ہیں۔ گلاسکو کانفرنس اور نیروبی کانفرنسوں میں ہاتھیوں کی اموات پرگہری تشویش کا اظہارکیا گیا اور دنیا کے سربراہوں نے اس نوعیت کے مسائل کا فوری سدباب کرنے کا اعادہ کیا۔

ان کانفرنس میں ایمزون اورآسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ پر بھی تشویش ظاہر کی ،ایمزون کے جنگلات کی کٹائی پر پہلے ہی پابندی عائد کردی گئی ہے مگر ایمزون کے جنگلات کی کٹائی مقامی آبادیوں کا کاروبار بن چکا ہے اور ماہرین کے مطابق ایمزون کے ہاتھی جنگلات کا تقریباً سترہ فیصد حصہ درختوں سے خالی ہو چکا ہے۔

ماہرین ماحولیات نے برازیل، بولیویا، ایکوڈور، کولمبیا، گیانا اور وینزویلا کی حکومتوں پر زوردیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جنگلات کی کٹائی روکنے کیلئے سخت اقدام کریں اور ایمزون کے جنگلات کی حفاظت کریں۔ زمین کے قدرتی ماحول میں ایمزون کے جنگلات کو زمین کے پھیپھڑوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انواع اقسام کے پرندے پودے اور دیگرحشرات الارض یہاں موجود ہیں مگر جنگلات کی کٹائی ان جنگلی حیاتیات کو بھی شدید متاثر کر رہی ہے۔

درحقیقت آبادی میں اضافہ کی وجہ سے نئی نئی بستیاں تعمیر ہو رہی ہیں ایسے میں لکڑی کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے۔ جنوبی امریکہ یوں بھی ترقی پذیر اور غریب ہے۔

نیروبی کانفرنس میں ماہرین جنگلات کی اہمیت اور شجرکاری کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ جنگلات کی حفاظت بہت ضروری پہلے ہی خاصا بگاڑ ہو چکا ہے۔ فضائی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔

فضائی آلودگی وہ ہے جس میں فیکٹریوں کارخانوں، قدرتی کوئلہ گیس کا دھواں شامل ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں کاروں کی ہر سال بڑی تعداد میں اضافہ ہوا۔ بجلی کے آلات سے نکلنے وای مہین گیسیں یہ سب فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

بین الاقوامی ہوائی کمپنیوںکی فیڈریشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے ہزاروں طیارے ہر وقت ہوا میں پرواز کرتے ہیں ان کی گیسولین کا دھواں فضا میں جمع ہوتا رہتا ہے اور فضائی آلودگی کا سبب بن رہا ہے جبکہ ہوائی سفر میں دن بدن اضافہ بھی ہو رہا ہے اس وجہ سے بھی فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے اس کے علاوہ دنیا بھرکی کاروں، ریلوں، مشینری کا دھواں بھی فضاء میں جذب ہوتا ہے اور بڑے نقصانات کا سبب بن رہا ہے آئے دن کسی نہ کسی جگہ تیزابی بارش کا برسنا بھی انسانی حیوانی اور نباتیات کے ضرررساں ثابت ہو رہا ہے۔

پانی کی آلودگی یا بحری سمندری آلودگی بھی بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا میں ماہرین کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں سمندری آلودگی کی وجہ سے سمندری حیاتیات کی اقسام میں کمی ہو چکی ہے بے شمار اقسام معدوم ہو چکی ہیں۔ کثافت نے مچھلیوں کی حیات کو شدید خطرات پیدا کردئیے ہیں۔ اس طرح زمین پر آلودگی کی شرح زیادہ ہے، فصلوں کی تیاری میں خطرناک کیمیکل زدہ مصنوعی کھادوں کا استعمال، آلودہ پانی، گندا کوڑا کرکٹ دراصل کرئہ ارض اور اس پر موجود تمام حیاتیات کو قدرتی ماحول میں بتدریج تبدیلی سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلی ایک سچائی ہے۔ پوری انسانیت اور دیگر حیاتیات کو شدید خدشات ہیں۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے ماحولیات میں بگاڑ کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ اگر ابھی سے ہنگامی طور پر ماحولیات میں بگاڑ اورآلودگی میں کمی نہ کی گئی تو آنے والی نسلوں کو شدید گلوبل وارمنگ اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ موسمی اور ماحولیات میں بگاڑ کا تدارک کرنے کے لئے سالانہ چھ سوبلین کاخرچہ آئے گا۔ جس میں پچیس فیصد رقم امریکہ کو ادا کرنا ہوگی کیونکہ آلودگی میں اضافہ کا سبب امریکی بڑے بڑے کارخانے فیکٹریاں اورکاریں ہیں، تاہم امریکہ نے سال 2021ء میں دس ارب ڈالر ماحولیات کے فنڈ میں ادا کئے ہیں اور فنڈز لینے کا وعدہ کیا ہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک آلودگی میں اضافہ کا ذمہ دارہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک پر الزام لاد رہے ہیں کہ یہ ممالک آلودگی پھیلانے اور اضافہ کے ذمہ دار ہیں۔ برطانیہ کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں جواباً لکھا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، بیلجیم، سوئیڈن سالانہ بجٹ میں خاصی رقم ماحولیات میں سدھار لانے اور آلودگی میں کمی کرنے کے لئے بجٹ میں رکھ رہے ہیں۔