پاکستان میں جینڈر گیپ ختم کرنے میں 190 سال تک لگ سکتے ہیں، نرگس رحمن

March 20, 2023

کراچی (بابر علی اعوان / اسٹاف رپورٹر) پاکستان ویمنز فاؤنڈیشن فار پیس کے تحت عورتوں کا عالمی دن منایا گیا ۔ اس سلسلے میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی۔

تقریب میں خواتین کی زیبائش و آرائش کی اشیاء کے اسٹالز بھی لگائے گئے۔ اس موقع پر ایک سیمینار بھی منعقد کیا گیا جس کا عنوا ن ’’وننگ ان اے مینز ورلڈ‘‘تھا۔

سیمینار سے پاکستان ویمنز فاؤنڈیشن فار پیس کی چیئرپرسن نرگس رحمان، ملینیئم انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انٹرپرینیور کی ریکٹر ڈاکٹر ہما بقائی، انفرازمین کی سی ای او ماہین رحمان، ایکٹیوسٹ نازو دھاریجو ، اوریکل پاور کی سی ای او ناہید میمن، حصار فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن سیمی کمال ، سکھر بیوریجز کی سی ای او سعید ہ لغاری اور پاکستان ڈیجیٹل ایوارڈز کی سی ای او آشفہ پراچہ نے خطاب کیا۔

پاکستان ویمنز فاؤنڈیشن فار پیس کی نائب صدر فرحت ملک نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ صدر ہما ہشوری نے تعارف پیش کیا جبکہ جنرل سیکریٹری سیمیں ٹپال نے اراکین کا تعارف کرایا ۔ سیمینار کی نظامت کے فرائض شہناز رمزی نے سرانجام دیئے جبکہ فنانس سیکریٹری روحی رضا نے اظہار تشکر کیا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان ویمنز فاؤنڈیشن فار پیس کی چیئرپرسن نرگس رحمان نے کہا کہ آج کے سیمینار کا عنوان مردوں کی دنیا میں جیتنا ہے حالانکہ یہ عنوان مردوں کی دنیا میں لڑنا یا جدوجہد کرنا بھی ہوسکتا تھا لیکن ہم اس میں مثبت اور ممکنہ بات پر زور دینا چاہیں گے کہ یہ مردوں کی دنیا ہے۔

عالمی معاشی فورم نے اپنے گلوبل جینڈر گیپ کے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ یہ مردوں کی دنیا ہے اور اس جینڈر گیپ کو ختم کرنےمیں 132 سال لگیں گے ۔ پاکستان میں اس سلسلے میں 150 سال سے190 تک لگ سکتے ہیں ۔گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ 2022 کے مطابق پاکستان خواتین کی معاشی شراکت کے حوالے سے دنیا کے 146ممالک میں 145 ویں نمبر پر ہے ۔

تعلیمی لحاظ سے 135ویں ، صحت اور بقا کے لیے 143ویں اور سیاسی بااختیار بنانے کےلحاظ سے 95ویںنمبر پر ہے تو کیا پاکستان مردوں کا ملک نہیں ؟۔ انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات کو محفوظ بنانے کے لیے ہیومن ڈیولپمنٹ کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

آج ہم جنوبی ایشیا کے 192 ممالک میں سے 161 ویں نمبر پر ہیں۔ انسانی ترقی کا تصور ڈاکٹر محبوب الحق نے ڈیزائن کیا تھا جس کی بنیاد علم، اسکول، اندراج ، صحت ، متوقع عمر اور فی کس آمدنی پر مبنی ہے ۔

انہوں نے مذید کہا کہ اس بنیاد پر ترقی صرف اس ملک میں ہو سکتی ہے جس کی مضبوط جمہوری بنیاد اور اچھی حکمرانی ہو۔اس موقع پر انہوں نے قرار پیش کی جس کے مطابق خواتین کو آئینی طور پر دیئے گئے حقوق کا تحفظ اور خواتین کے حامی قوانین کی کثرت کو نافذ کرنا

معاشرے میں خواتین کے کردار اور حیثیت سے متعلق انتشار پسندانہ، توہین آمیز روایات کی ادارہ جاتی اور سماجی رکاوٹوں کو دور کرنا، تعلیم تک رسائی، ٹیک کی حوصلہ افزائی کرنا، ایسی تعلیم جس میں کم سرمایہ کاری اور زیادہ نتائج ہوں اور یہ زراعت میں بھی اعلیٰ ترین جدید ٹیکنالوجی سے حامل ہو ، انٹرپرینیورشپ میں خواتین کی مدد کرنا، بنیادی صحت اور تولیدی صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا، پارلیمان میں خواتین کے کاکس کے ذریعے صنفی مساوات کی وکالت کرنا،پدرانہ نظام، دقیانوسی تصورات، سماجی اصولوں اور ممنوعات کی رکاوٹوں کو دور کرنا، زیادہ آبادی کو کنٹرول کرنا، مثبت قومی ترقی اسی وقت حاصل کی جاسکتی ہے جب خواتین اور مرد زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں مواقع، حقوق اور ذمہ داریوں سے لطف اندوز ہوں۔ یہی واحد راستہ ہے۔قبل ازیں سیمینا ر سے خطاب کے دوران ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ عورتوںکے حقوق انسانی حقوق ہیں ۔

عورت کو دو چیزیں بروقت مانگنی چاہییں ۔ ایک تو ہمیں فیصلہ سازی میں حصہ دیا جائے کہ ہم اپنے فیصلے خود کر سکیں ۔ دوسرا ہمیں پارلیمنٹ میں جگہ دی جائے ۔ جس دن عورت اپنے فیصلے خود کرے گی اس دن مسائل حل ہو جائیں گے ۔

ماہین رحمان نے کہا کہ میں الفلاح میں مینیجر تعینات ہوئی تو وہ اس وقت تیرہویں نمبر پر تھا لیکن میں نے سات سالوں میں اسے چوتھے نمبر پر لایا حالانکہ میرے مقابلے کی تمام کمپنیوں میں مرد مینیجر تھے۔جی ڈی پی اور معاشی نشونما کے لئے خواتین کا پڑھے لکھے ہونا ضروری ہے ۔ ہم عورتوں کو تعلیم تو حاصل کرنے دیتے ہیں لیکن انہیں کام کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے ۔ ترقی کے لئے اسے تبدیل کرنا ضروری ہے ۔

نازو دھاریجو نے کہا کہ میرے والد نے مجھے پڑھایا اور میری تعلیم میری طاقت بن گئی ۔ہمیں اس سوچ کو بڑھانا ہوگا کہ جو بیٹا کر سکتا ہے وہ بیٹی بھی کر سکتی ہے ۔ میرے والد کی وفات کے بعد میرے رشتے داروں نے مل کر میری زمینوں پر قبضے کرائے لیکن میں بندوق سے نہیں ڈری ۔ عورت اگر چاہے تو مرد سے زیادہ بہادر ہےاور اچھا کام کر سکتی ہے ۔ ناہید میمن نے کہا کہ امریکہ میں اگر 100عہدے ہوتے ہیں تو اس میں سے 66پر خواتین فائز ہوتی ہیں ۔

پاکستان کی ترقی کے لئے خواتین کو معاشی طور پرمضبوط اور مستحکم کرنا ہوگا۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ معاشرے کی بھی ذمہ داری لیں ۔ سیمی کمال نے کہا کہ ہم ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری ماؤں نے ہماری کتنی مدد کی اور کس طرح ہماری پروش کی۔ ہم اپنی ماؤں اور بہنوں کے بغیر کچھ بھی نہیں ۔ میری بہنیں ہمیشہ میری مدد کے لئے موجود رہیں ۔ اس لئے اگر ہم آگے بڑھنا چاہتی ہیں تو ہمیں تمام خواتین کی مدد کرنی ہوگی ۔

سعیدہ لغاری نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کود کو مردوں کے برابر تصور کیا ہے ۔ خواتین کو ماں ، بہن ، بیٹی اور بہو کی صورت میں طاقت ملتی ہے ۔ خواتین جب اپنا خاندان بڑھاتی ہیں تو اہل خانہ کو مضبوط کرتی ہیں ۔ خواتین ہر شعبے میں توازن کو برقرار رکھیں ۔ اگر کوئی عورت ڈاکٹر بن کر کام نہیں کر رہی تو وہ ایک اچھے خاندان کی نشونما تو کر سکتی ہے ۔

آشفہ پراچہ نے کہا کہ ٹیک کے میدان میں خواتین کم ہیں جب انہوںنے کام کرنا شروع کیا تو اس بات کو محسوس کیا پھر اپنا کاروبار چلانا شروع کر دیا ۔ ہر کام کے لئے کوشش اور جدوجہد ضروری ہوتی ہے۔ سیمینار کے اختتام پر مقررین کو شیلڈ پیش کی گئیں۔