سیاسی بھان متی کا کنبہ ٹوٹا

May 28, 2023

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ایک ڈرامے میں حنا دلپذیر نے مزاحیہ کردار نبھاتے ہوئے ایک مثالی جملہ بولا تھا جو غالباً فصیح باری خان کا لکھا تھا کہ ’’بھان متی نے کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘۔ اس مثالی جملے کا اطلاق پھر ہر شعبہ زندگی میں ہونے لگا، خاص کر سیاسی شعبہ جات میں زیادہ ہی یا یوں کہیے کہ جب سے پی ڈی ایم سیاسی جماعت کے طور پر ابھری تھی تب ہی سے ہر خاص و عام نے کہنا شروع کردیا تھا۔ لوگ شاید ایک دینی جماعت کے رہنما کی وجہ سے کہتے تھے کہ کہاں یہ دین دار سیاسی جماعتوں میں ضم ہوگئے ، اب عوام کو ان کی اندر کی طمع کا اندازہ نہیں کہ وہ کس قدر سیاسی قد کاٹھ بڑھانا چاہتے ہیں اتنا کہ صدارت کی کرسی کے خواب تو وہ ہمیشہ سوتے جاگتے دیکھتے رہتے ہیں۔بھان متی کے کنبے کے علاوہ بھی ملتے جلتے الفاظ ہیں جو ایسے ہی لوگوں کے اندرونی حالات کے غماز ہیں۔ ’’بھان متی‘‘ کے معنی مداری، شعبدہ باز، دھوکے باز، فریبی وغیرہ وغیرہ۔ یعنی بھان متی کا سوانگ کہ جو تماشہ دکھاتے ہیں ایسا تماشہ کہ جو کسی کی سمجھ میں نہ آئے، حیرت انگیز معاملات تو پی ڈی ایم کی صورت میں بھان متی کا منبہ جڑا تھا، بہت محنت کی ان سیاسی جماعتوں نے مل کر، تقریباً ایک سال سے یہ محبت اس کنبے کی پروان چڑھتی رہی، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال کرتے رہے۔ مولانا کی صدارت کی کرسی کا بھی ذہن میں تھا کہ انہیں صدر بنادیا جائے گا۔ ہم عوام بھی اسی سوچ میں تھے کہ چارلس کی تاجپوشی سے پہلے ہمارے ملک میں باقاعدہ حکومتی سیٹ اپ ہوجائے گا۔ مولانا صدر وغیرہ بن جائیں گے اور بلاول اپنے ڈیڈی کی خواہش کے مطابق وزیراعظم بن جائیں گے مگر اب تو اس سیٹ اپ کا الٹ ہوگیا، یعنی اپ سیٹ ہوگیا۔سن لیجئے کہ خبریں گرم اور ہر کان تک پہنچ چکی ہیں بلکہ بھان متی کے کنبے میں تو یہ خبر گرم پگھلے شیشے کی طرح کان منیں جاکر گری ہے کہ اب ہماری اسٹیبلشمنٹ نے عوام کو تبدیلی کی نئی خبر سنا دی ہے کہ اب نئی سیاسی جماعت عمل میں لائی جارہی ہے، جس سے ملک میں موجود خوف و مایوسی سے جان چھٹے گی، نئی فضا قائم ہوگی اور اصل تبدیلی اب آپ سب ہی کو دکھائی دے گی، اب امن کی فضا قائم ہوکر خوشگوار ماحول عوام کو دیکھنا نصیب ہوگا۔یعنی وقت آگیا ہے بیچ چوراہے میں ہانڈیاں پھوٹیں گی اور پھر سیاسی بھان متی کا کنبہ بھی ٹوٹ جائے گا تو جناب اب شور ہوا چاہتا ہے کہ نئی سیاسی جماعتیں عمل میں لائی جارہی ہیں، جنہیں ہم خیال گروپ گردانا جائے گا۔ بلکہ ہم پیالہ و ہم نوالہ بھی کافی حد تک ہوجائے گا۔بس اب تاریخ دہرائی جائے گی، جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ جب بھی ملک میں انارکی پھیلی، حالات ابتر ہوئے تو نوٹس لینا پڑتا ہے، پھر اسٹیبلشمنٹ کو، اس لیے نوٹس لینا پڑتا ہے کہ ملک کی بدنامی نہ ہو۔ ماحول میں تلخیاں نہ گھلیں، عوام کو مزید پریشان نہ کیا جائے اور عوام ہی کی بہتری کے لیے ان کی توجہ حالات سے دور کی جائے۔جیسے نئی دلہن آئے تو خوشی منائی جاتی ہے، گھر کی فضا میں خوشگوار اضافہ ہوتا ہے تو تمام توجہ اسی کی جانب ہوجاتی ہے۔ نئی دلہن دیکھنے کو کہ خوشیاں منائی جائیں، پھر اب سب ہی کو شدت سے نئی سیاسی دلہن کا انتظار ہے کہ کب یہ دھرتی کے آنگن میں اترتی ہے، بس اس نئی نویلی سیاسی دلہن کو قبول کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ نہ ہوکہ سسرال میں آکر اسے سبکی سہنا پڑے اور وہ کشش کھوجائے۔نئی سیاسی جماعت کی تیاری سنا ہے کہ اندرونے خانہ ہورہی ہے کہ کوئی ظالم ترین حسین ترین دلہن تیار ہورہی ہے جو عوام کو قبول ہوجائے بس، ورنہ یہ نہ ہوکہ وہ صرف سرکردہ لوگوں کی منظور نذر ہوکر رہ جائے اور عوام کے من پر نہ چڑھے، پھر ووٹ سے بھی محروم رہے۔ ویسے ٹوئٹر پر تو ہر سیاسی جماعت اپنی طرف سے گھن گرج سے ٹوئٹ کررہی ہے کہ وہ سیاسی طور پر خاصی اڑان میں ہے اور بھاری اکثریت ان کے نصیب میں ہے۔سیاسی بھان متی کا کنبہ دیکھیے کب ٹوٹتا ہے کیونکہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے بچے شدومد سے وزیراعظم پاکستان ہونا چاہتے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن ان پر صدر ہوں گے، ڈر ہے کہ لڑائی نہ پڑ جائے، اس متفق خاندان میں۔ پھر نئی دلہن کا انتظار بھی ہے۔ کب سے عوام کی تو نہیں مگر کچھ لوگوں کی تمنا ہے کہ حالات بدلیں جلدی سے کہ تنگ آگئے ہیں، کشمکش سیاست سے ہم ٹھکرانہ دیں سیاست کو بے دلی سے ہم۔