پنجاب انتخابات، الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی درخواست کی سماعت

May 29, 2023

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت—فائل فوٹو

پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہآپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہوگا، ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا،کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں، میں خود پرمشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا لیکن کسی اور جج سےتحقیقات کرائی جا سکتی ہیں، یہ سیاسی پارہ معیشت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی آج بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

سپریم کورٹ نظرِ ثانی ایکٹ بن چکا: اٹارنی جنرل

سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ نظرِ ثانی ایکٹ بن چکا ہے، صدرِ مملکت نے سپریم کورٹ نظرِ ثانی ایکٹ پر دستخط بھی کر دیے ہیں، سپریم کورٹ نظرِثانی ایکٹ کی شق 2 میں آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دے دیا گیا ہے، اس قانون سازی کا اطلاق ماضی سے بھی ہو گا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے چہرے پر مسکراہٹ ہے: جسٹس منیب

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اسی لیے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار آرٹیکل 184 تھری میں نظرِ ثانی کا قانون بنایا گیا ہے، سپریم کورٹ کے نظرِ ثانی اختیار کو وسیع کیا گیا ہے۔

آڈیو لیکس کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے قانون کو لاگو کرتی ہے، سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 184 تھری کے دائرہ اختیار کے کیسز میں نظرِ ثانی ہونی چاہیے، سپریم کورٹ کے ہی فیصلے آرٹیکل 187 کے تحت نظرِ ثانی کا دائرہ اختیار بڑھانے کی راہ دے رہے ہیں، جج کی جانبداری کا بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے، کیوریٹیو ریویو کا جو معاملہ آپ نے اٹھایا اس کو بھی دیکھ رہے ہیں، تحریکِ انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہو جائے گا، جمعرات کو جوڈیشل کمیشن والا کیس مقرر ہے، اٹارنی جنرل اس بارے میں بھی حکومت سے ہدایات لے لیں، آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہو گا، ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا۔

خود پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا: چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے، یہ تاریخی ایکسیڈنٹ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتا ہے، ہم نے میمو گیٹ، ایبٹ آباد کمیشن اور شہزاد سلیم قتل کے کمیشنز کا نوٹیفکیشن دکھایا، تمام جوڈیشل کمیشنز چیف جسٹس کی مرضی سے تشکیل دیے جاتے ہیں، کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں، میں خود پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا، کسی اور جج سے تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں، یہ سیاسی پارہ معیشت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔

چیف جسٹس سے مشاورت کی روایت کیوں توڑ دی؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت دلچسپ ہے، ہم 184/3 کے فیصلے پر نظرِ ثانی کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں، اس کی ضرورت بھی ہے اور ہمارے فیصلے بھی ہیں، آپ نے انکوائری کمیشن میں ہمارے آرڈر کو پڑھا، ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم عدلیہ کی آزادی اور تحفظ چاہتے ہیں، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں، یہ رابطہ شفاف ہونا چاہیے، یہ رابطہ خفیہ یا زبردستی نہیں ہونا چاہیے، حکومت روایات کو نہ توڑے، مناسب طریقہ کار کے تحت رابطہ کرے، یقیناً کمیشن میں نہیں بیٹھتا کسی اور جج کو ہی نامزد کرتا، میمو گیٹ کمیشن، ایبٹ آباد کمیشن اور سلیم شہزاد کمیشن کے نوٹیفکیشن آپ کے سامنے ہیں، اس سے پہلے بننے والے تمام کمیشن چیف جسٹس کی منظوری یا اجازت سے بنائے گئے، ہمیشہ ججز کے نام چیف جسٹس کی منظوری سے ہوئے، اہم نکتہ ہے کہ چیف جسٹس سے مشاورت کی روایت کو کیوں توڑ دیا؟

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ دوسری جانب سے کون آیا ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہعلی ظفر آج نظر نہیں آئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہکیا آپ نے علی ظفر کو کچھ برا کہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے بیرسٹر علی ظفر کو کچھ نہیں کہا۔

اٹارنی جنرل پل کا کردار ادا کریں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ پل کا کردار ادا کریں، آئین کے تمام اداروں کو احترام دیا جانا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں حکومت نے نیا عدالتی دائرہ اختیار متعارف کرایا، حکومت نے عدالت کے انتظامی امور میں بھی مداخلت کی کوشش کی، خوشی ہے کہ موجودہ قانون صرف 184 (3) کے بارے میں ہے، سب کو دوبارہ سوچنا ہو گا،9 مئی کے واقعات کے بعد سلور لائننگ تلاش کریں، آپس میں فاصلے کم کریں، سسٹم میں توازن اور امن لے کر آئیں، درست راستے کا انتخاب کریں۔

کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی

جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فی الحال سماعت ملتوی کر رہے ہیں۔

عدالت نے پنجاب الیکشن نظرِ ثانی کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

گزشتہ سماعتوں کا مختصر احوال

یاد رہے کہ گزشتہ سماعتوں میں وفاقی حکومت، نگراں پنجاب حکومت اور الیکشن کمیشن جوابات جمع کرا چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔

14 مئی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔