ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایل پی جی ترجیحی بنیادوں پر دینا ناگزیر

June 04, 2023

اسلام آباد (رپورٹ:حنیف خالد)ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایل پی جی ترجیحی بنیادوں پر دینا ناگزیر ہے،جاوید بلوانی نے کہا کہ وزیراعظم‘ وزیر خزانہ ٹیکسٹائل انڈسٹری‘ ایکسپورٹرز وفد سے ہنگامی ملاقات کریں‘ ڈی ایل/ٹی ایل سبسڈی نہیں‘ ایکسپورٹرز کو لوکل ٹیکسز کا ریفنڈ ہے،پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری نے موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کے ساتھ سخت سوتیلی ماں جیسے سلوک پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ قومی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا 60فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔ پاکستان کی کل برآمدات میں جولائی 2022ء سے اپریل 2023ءکے دوران سال بہ سال کی بنیاد پر 11اعشاریہ 61فیصد کی کمی ہوئی ہے جو 2022ء کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 23ارب 10کروڑ رہ گئی ہیں۔ اس سے 3ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ کم ہوا ہے جبکہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں جولائی 2022ء سے اپریل 2023ء کے دوران سال بہ سال کی بنیاد پر 14اعشاریہ دو فیصد کمی ہوئی ہے جو کہ 2022ء کے اسی عرصے کے مقابلے میں 2ارب 27کروڑ ڈالر کم ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت صورتحال پر قابو پانے کیلئے تیار نہیں ہے اور جان بوجھ کر پاکستان کی صنعت‘ برآمدات اور زرمبادلہ کی کمائی کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ اگر علاقائی مسابقتی توانائی نرخ کو بند کر دیا جاتا ہے تو اس سے پانچ بڑے برآمدی شعبوں کی برآمد میں مزید کمی آئے گی۔ ان کا تسلسل قومی مفاد میں ناگزیر ہے کیونکہ پاکستان میں جاری معاشی بدحالی اور سیاسی کشمکش کے پیش نظر صنعتکاروں اور تاجروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کاروباری سرگرمیوں میں ایک بڑا تعطل اور غیر یقینی صورتحال ہے۔ ان خیالات کا اظہار ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تمام شعبوں سپننگ‘ ویونگ‘ ڈائنگ‘ پرنٹنگ‘ میڈاپس‘ ٹاولز‘ بیڈ لینن‘ کچن ویئر اور قومی ٹیکسٹائل کے دوسرے برآمد ہونے والے شعبوں کے نمائندوں نے ایک جامع مشاورت کی ہے اور وزیر خزانہ و ریونیو سنیٹر اسحاق ڈار اور اُنکی ٹیم کو صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ قومی ٹیکسٹائل کے تمام شعبوں کے مشترکہ پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین محمد جاوید بلوانی نے جنگ کو بتایا کہ قومی برآمدات اور اسکے استحکام کیلئے علاقائی مسابقتی توانائی ٹیرف کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ برآمد کنندگان نے لفظ سبسڈی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت برآمدی صنعتوں کو رعایتی ٹیرف کیلئے رقم بجٹ میں مختص کرتی ہے تاکہ علاقائی مسابقت اور برآمدات میں اضافے کے مقاصد کیلئے برآمدی صنعتوں کیلئے برابری کے میدان کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ سبسڈی نہیں ہے‘ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ برآمدی صنعتوں پر کراس سبسڈی کا بوجھ ہے جو کھاد اور گھریلو شعبے کو سبسڈی دینے کیلئے انڈسٹریل ٹیرف پر کراس سبسڈی کی صورت میں ڈالا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا بھر میں یوٹیلیٹیز کیلئے ایکسپورٹ اور انڈسٹری کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں اسکے برعکس ہے اور سیاسی مفاد کی خاطر گھریلو او رتجارتی صارفین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ گھریلو اور تجارتی صارفین کو ایل پی جی کی طرف منتقل کیا جانا چاہئے جیسا کہ علاقائی ممالک کی حکومتوں نے اپنی برآمدات کو بڑھانے کیلئے کیا ہے۔ علاقائی ممالک میں گھریلو صارفین کو گیس پائپ لائنوں کے ذریعے نہیں بلکہ سلنڈرز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تمام شعبوں کی مشاورت سے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی برآمدات کیلئے حکومت کی ہدایت پر سخت ضابطے بنائے ہیں اور برآمد کنندگان کو برآمدات کی پروسیڈز کی مدت کو گزشتہ 180دنوں سے کم کر کے 120دنوں تک محدود کر دیا گیا ہے‘ اسے دوبارہ 180دن پر بحال کیا جائے جبکہ دوسری طرف درآمد کنندگان کو 365دن کی موخر ادائیگی پر درآمد کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اسی طرح ایل سی کھولنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور ادائیگی کی دیگر شرائط جیسے ڈی پی اور ڈی اے کو فروغ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے برآمدات کی وصولی میں تاخیر ہوئی ہے۔ چند ایکسپورٹرز جن کے اوورسیز میں دفاتر ہیں انکی ایکسپورٹ پروسیڈ میں تاخیر ہوتی ہے جس کا خمیازہ پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے ایل سیز کے علاوہ ڈی پی/ڈی اے کی بھی اجازت دی جس کے غیرملکی خریدار عادی ہو چکے ہیں اور وہ ایل سی کی بجائے اسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسلئے انکی ادائیگیوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔ ڈی پی اور ڈی اے کے تحت کاروبار کرنا بھی خطرناک ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈی پی اور ڈی اے کو بند کرنے پر غور کرے اور صرف ایل سی پر کام کرنے کیلئے ضابطے بنائے تاکہ غیرملکی خریدار اور برآمد کنندگان کے ساتھ صرف ایل سی کے کاروبار پر ڈیل کرے اور انکی ادائیگیوں میں تاخیر نہ ہو۔ اس سے برآمد کنندگان کو اپنے برآمدی کاروبار کی حفاظت کیلئے حوصلہ افزائی اور مدد ملے گی۔