قربانی کا نصاب اور قضا کا حکم

June 09, 2023

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: قربانی کے نصاب میں مال مویشی بھی شامل ہوتے ہیں؟ سائمہ اور غیر سائمہ ضروری اور شوقیہ وغیرہ سب کی وضاحت فرما دیں کہ مثلا ً ایک شخص کے پاس اضافی تیس ہزار ہے، دو جانور بھی ہیں تو کیا قربانی کے نصاب میں ان جانوروں کی قیمت شمار ہوگی؟ قربانی کی قضا ہو سکتی ہے یا صرف توبہ واجب ہے؟فرض علوم کون سے ہیں جن کا سیکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے تفصیل سے وضاحت فرما دیں یا کسی کتاب کی طرف رہبری فرمائیں۔

جواب: قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں ذمہ میں واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو ،جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے، لہٰذا اگر کسی کے پاس تیس ہزار روپے ہوں اور دوجانور(سائمہ یا غیر سائمہ) ضرورت کےلیے ہیں تو ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں ہوگی، اور اگر اس شخص کے پاس تیس ہزار روپے اوردوجانور چاہے سائمہ ہو یاغیر سائمہ ضرورت سے زائد ہوں تو قربانی واجب ہوگی۔

اگر قربانی کے ایام گزر جائیں اور صاحب نصاب شخص نے قربانی ہی نہ کی تو اب قربانی کی قضا تو نہیں ہوتی، البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے، بعض کے نزدیک قربانی کے ایک حصے کے برابررقم صدقہ کرنا کافی ہے۔

ہر مسلمان پر اتنا علم حاصل کرنا کہ جس سے وہ فرائض ادا کرسکے اور اسے حلال،حرام چیزوں کا علم ہوجائے کہ کون سی چیز جائز ہے اور کون سی چیز ناجائز ہے، تاکہ حرام چیزوں سے بچ سکے اور اسلام کی بنیادی ضروری باتیں معلوم کرلے، یہ فرضِ عین ہے، اور باقی علوم کی تفصیلات، قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل، پھر ان سے نکالے ہوئے اَحکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے، نہ ہر ایک پر فرضِ عین ہے، البتہ پورے عالمِ اسلام کے ذمہ فرضِ کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں، تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتویٰ لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں۔