پاکستانی خواجہ سراؤں کیلئے امریکی گرانٹ

June 11, 2023

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
کہانی تو اس کی دکھوں سےبھرپور تھی جسےوہ عاجزی سے سنا رہی تھی یا سنا رہا تھا کہ معاشرے میں ان کے ساتھ جانوروں والا سلوک بھی نہیں ہوتا کہ جانوروں کو پھر بھی پیار سے سدھار لیا جاتا ہے، چمکار لیا جاتا ہے مگر ہمیں تو کوئی حقارت سے دیکھنےکو بھی تیار نہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے گھر والے بھی رکھنے کو تیار نہیں ہوتے، یعنی کہ روز اول سے ایسا ہوتا آرہا ہے اور اب ترقی یافتہ دور کا بھی یہ ہی حال ہے جبکہ خواجہ سرائوں کا عالمی دن بھی منایا جانےلگا ہے۔ مغربی دنیا میں حالات بدل چکے ہیں وہاں ٹرانسجینڈر اور خواجہ سرائوں کو معاشرے میں رہنے جیسے مسائل کا سامنا نہیں بلکہ انہیں پارلیمنٹ تک میں جگہ دی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں بھی ماضی میں بادشاہت کے دور میں خواجہ سرائوں کو محل کے زنان خانے سے لیکر حکمرانی تک سونپی گئی بلکہ سلطنت کے اہم امور کی ذمہ داری بھی ان کی تھی یہ کافی محلاتی سازشوں میں شامل رہے ہیں مگر اب بادشاہی دور نہیں تو انکی معاشرے میں عزت نہیں مگر یورپین معاشرے میں ہے۔ اپنے دور کی خواجہ سرائوں میں عاشی بٹ ایک خاص نام تھا وہ اپنی کہانی سنا رہی تھیں کہ ’’میں ایک مشہور سیاستدان کی اولاد ہوں میرے بھائی بھی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں مگر ہمیں گھر والے قبول نہیں کرتےپھر اگر گھر والے قبول کر بھی لیں تو انہیں رشتے دار اورمعاشرہ اجازت نہیں دیتا اور وہ ہمارے گھر والوں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں۔ پھر ہم لوگ بھی گھر والوں کی مجبوری دیکھتے ہیں۔‘‘ اب بہت سے معاملات اسکے برعکس ہیں بہت سے خواجہ سرا یا کھسرے کہہ لیں یا پھر عربی میں مخنث کہہ لیںتو یہ لوگ معصوم، بے بس اور لاچارہوتے ہیں کہیں گھر والوں کیلئے یہ قابل قبول نہیںتو کہیں گھر والے ان کی صورت دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔ عموماً ایسے بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں جب وہ اپنے اندر کوئی کمی محسوس کرتے ہیں اور گھر والے انہیں ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں یا پھر خواجہ سرائوں کی ٹیم آتی ہے اور ایسے بچوں کو گھر سے زبردستی اٹھا کر لے جاتے ہیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے آپ کا نہیں ہمارا اختیار ہے اس پر اور اب ہم اسکی دیکھ بھال کریں گے۔ پھر معلوم نہیں وہ کون سے حالات میںاور کس وقت ان کے پائوں میں گھنگرئوں کی زنجیر ڈال دیتے ہیں۔ایک بات ہے کہ ہم لوگ معذور بچے گھر میں نہایت محبت سے پالتےہیں ان کیساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی اورناروا سلوک کو گناہ جانتے ہیں تو اسی طرح ہم مخنث بچوں کو کیوں نہیں گھر میں رکھ سکتے۔ زمانہ کہیں تو ان کی بددعا سےڈرتا ہے اورکہیں قبولنے ہی کو تیار نہیں۔ یورپ و امریکہ میں معاملہ اسکے برعکس ہو چلا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو معاشرے میں عزت دی جاتی ہے ویسے کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہوتے گوشت پوست کے بنےنہیں ہوتے، یا ان کی جان مختلف ہوتی ہے یا یہ انسانوں جیسے نہیں لگتے کہ انہیں دھتکارا جائے۔ انہیں کسی محلے میں گھر نہیں دیا جاتا کہ لوگ باتیں کرتے ہیں کہ کیا اب اس محلے میں کھسرے رہیںگے۔ اسی لئے عام کھسرے اپنے گرو کے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کے گرو کو گھر ان کے پرانے گرو نے وراثت میں دیا ہوتا ہے کہ یہ گھر، گھر ناچ گا کر اپنے گرو کو کمائی کا حصہ دیتے ہیں جس سے گرو ان کی بہتری کے کاموں میںاستعمال کرتا ہے اور کفن دفن میں بھی۔ہمارے معاشرے و ملک نے خواجہ سرائوں کیلئے کچھ خاص نہیںکیا جو کچھ کیا انہوں نے اپنےبل بوتے پر کیا۔ اپنی بہبود کیلئے ان میںسےبہت سے لوگوں نے دینی تعلیم کیلئے مدرسے قائم کر رکھےہیں کیونکہ انہیں بھی مذہب سےمحبت ہوتی ہے۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں ان سے یہ سلوک ہمارے ہی ہاتھوں ہوتا ہے کہ ہم انہیں معاشرتی طور پر بھی تنہا کر دیتے ہیں کہ وہ عام مسجد میں جاکر نماز ادا نہیں کر سکتے۔ نہ ہی انکی تعلیم و روزگار کیلئے ہم کچھ کرسکے۔ مگر اب امریکہ کو پاکستانی عام عوام سے زیادہ ہماری اس تیسری مخلوق کا احساس ہو ا کہ انہیں بھی یعنی پاکستانی خواجہ سرائوں کو انگریزی کی تعلیم دی جائے۔ اس سلسلے میں امریکہ نے پاکستان میں انگریزی میں نوجوان ٹرانسجینڈر اور خواجہ سرائوںکو تعلیم کیلئے پانچ لاکھ ڈالرز کی گرانٹ مہیا کی ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سےدی گئی اس رقم کو تعلیمی مد میں استعمال کیا جائے گا۔خصوصاً ٹرانسجینڈرزاور خواجہ سرائوں کو انگریزی میںبہتر کرنا کہ وہ عالمی سطح پرزیادہ بہتر کردار ادا کرسکیں اورپیشہ ورانہ طور پر بھی انہیں فائدہ ہو۔ اس گرانٹ کے تین بنیادی مقاصد ہیںکہ ان سے اساتذہ کی بھی تربیت ہو اور ٹرانسجینڈر کی پروفیشنل تربیت بھی اس کاحصہ ہے۔ اساتذہ کی تربیت کیلئے 25 سے 75 ہزار تک کی گرانٹ فراہم کرنےکی درخواست غور طلب ہے۔ اب دیکھئے کہ اس دھتکاری ہوئی قوم کو یورپ وامریکہ میں انسان ہی سمجھا جاتا ہے گوشت پوست کا بنا انسان! کہ ہمارے یہاں جن کے مدرسے، محلے اور قبرستان تک الگ کرنے کو سوچتے ہیں وہاں امریکہ و یورپ تیسری دنیا کا سوچتے ہیں۔ وہ والدین جواپنے بیٹے کیلئے سوچتے ہیں کہ وہ نیک راہ پر چلے اور بیٹی کیلئے سوچتے ہیں کہ اسکی عصمت و عزت کی حفاظت کی جائے مگران کی مخنث اولاد کہیں روپوش ہو جائے گھر سے دور ہو جائے مگر والدین کو پرواہ نہیں ہوتی انہیں بوجھ سمجھ کر بھلا دیا جاتا ہے مگر ترقی یافتہ ممالک ہر جنس کو انسان جیسی اہمیت دیتے ہیں۔