تحریر: محمد صادق کھوکھر… لیسٹر
علامہ اقبال نے امتِ مسلمہ کو جو ولولہ انگیز پیغام شاعری میں دیا۔ وہی پیغام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی دل نشین اور سحر انگیز نثر میں دیا۔ جس زمانے میں سید مودودیؒ نے ہوش سنبھالا اس وقت امتِ مسلمہ سامراجی قوتوں کے نرغے میں بری طرح جکڑی ہوئی تھی، یہ تسلط صرف سیاسی اور معاشی نہیں تھا بلکہ ان پر تہذیبی غلامی بھی مسلط تھی۔ نوجوان نسل یورپی افکار و نظریات کو ہاتھوں ہاتھ اپنا رہی تھی۔ انہیں یہ تو احساس تھا کہ وہ سیاسی اور معاشی طور پر غیروں کے چنگل میں ہیں۔ لیکن وہ اپنی غلامی کی بڑی وجہ وہ مذہب کو قرار دیتے تھے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ مغربی افکار و نظریات کی طرف ایسے مائل ہوا گویا امتِ مسلمہ کے دکھوں کا علاج فقط انہی نظریات میں مضمر ہے۔ جسے اہلِ مغرب پیش کرتے ہیں۔ ان حالات کا ادراک کرتے ہوئے پہلے تو علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ان باطل نظریات کو ہدفِ تنقید بنایا اور پھر سید مودودیؒ نے اپنی نثر میں کھل کر ان نظریات کا تارو پود بکھیر کر رکھ دیا۔ انہوں نے تہذیبِ جدید کی فلسفیانہ بنیادوں پر بھی بحث کرتے ہوئے اس کی خرابیوں کو عیاں کیا۔ انکی کتب کا مطالعہ آج بھی کیا جائے تو انسان کا دل و دماغ پوری طرح اسلام کی صداقت کیلئے مطمین ہو جاتا ہے۔ اس کیوجہ ان کا عقلی استدلال ہے، یہی طرزِتحریر جدید تعلیم یافتہ طبقے کو پسند آتا ہے، مذہب کو موردِ الزم ٹھہرانا اس زمانے میں گویا فیشن بن چکا تھا۔ اسلام پر پے در پے حملے ہو رہے تھے،کوئی کہتا اسلام ظلم کا نظام ہے یہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے، کوئی مقامِ سنت کو چیلنج کر رہا تھا، کسی کی نگاہ میں مسلمانوں کی ترقی راہ میں سود حائل بنا ہوا تھا۔ حالت یہ تھی کہ علما بھی ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر سود کا دفاع کرنے لگے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو جہاد کے مسئلہ پر بھی پسپائی کا انداز اختیار کرنے لگے۔ سید مودودیؒ ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے ʼالجہاد فی الاسلامʼ کے نام سے وہ شاہکار کتاب تحریر کی۔ جس کی تعریف علامہ اقبال نے بھی کی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے ان تجدد پسندوں کی خبر لی ۔ جو ہر معاملہ میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کر کے ایک طرف اسلام کی بد نامی کا باعث بنتے ہیں اور دوسری طرف من پسند کا اسلام نئی نسل کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل سے نئی نسل کا بھی اسلام کی حقانیت پر اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی شاہکار تصنیف ʼتنقیحاتʼ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب کے اولین باب میں مسلمانوں کی ذہنی پستی اور انحطاط کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔ تنقیحات کے دیگر ابواب میں انہوں نے ان دانشوروں کی دانش کا پردہ چاک کیا ہےجو تعلیم یافتہ طبقے میں مغربی افکار و نظریات کا زہر گھول گول رہے تھے۔ اسی دور میں انہوں نے تین سو سے زائد صفحات پر سود کے موضوع پر ʼسودʼ نامی کتاب لکھی۔ جس میں سود کی تاریخ اور اس کے نقصانات کا جائزہ لیا۔ اسی طرح سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ اسلام کے معاشی نظام سے کیا اور دونوں باطل نظاموں کی خرابیوں کو اجاگر کر کے بتایا کہ درست راستہ کونسا ہے۔ اس بحث کو سمجھنے کے لیے ان کی کتاب ʼاسلام اور جدید معاشی نظریاتʼ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ نیز " معاشیاتِ اسلام" میں بھی یہ بحث موجود ہے۔ اسی طرح جو لوگ حدیث کا انکار کرنے لگے اور اسے دین کا ماخذ نہیں سمجھتے تھے انہوں نے خود ہی سید مودودیؒ سے تحریری مباحثہ بلکہ مناظرہ شروع کر دیا۔ سید مودودیؒ نے ان کے اٹھائے ہوئے ہر سوال کا مسکت جواب دیا۔ اب یہ مراسلت ʼسنت کی آئینی حیثیتʼ سے نام سے کتابی صورت میں ڈھل چکی ہے۔ اسی طرح انہوں نے اسلامی ریاست، اسلامی قانون، اسلامی معاشرت اور اسلامی تہذیب و تمدن، سیرت النبیؐ، اور مختلف استفسارات پر مبنی تقریبا" سو کے لگ بھگ کتب تحریر کی ہیں جو گمراہ کن اور تشکیک زدہ ذہنیت کے شبہات کا ازالہ کرتی ہیں۔ ان کتب کے تراجم بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ البتہ ان کی شہرہ آفاق تصنیف قرآن کی جامع تفسیرʼ تفہیم القرآنʼ ہے۔ یہ چھے جلدوں پر مشتمل ہے تفہیم القرآن اب تک لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے ہر سورت کے آٖغاز میں سورت کا پسِ منظر بیان کیا ہے اسکی شانِ نزول اور سورت کی مباحث اور مضامین کا خاکہ ہے۔ پھر قرآن کا بامحاورہ ترجمہ اور دلنشین تشریح فٹ نوٹس میں پیش کی ہے ہر جلد کے آخر میں موضوعاتی اشاریہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔ جا بجا پیراگراف اور مقا ماتِ مقدسہ کے فوٹو اور نقشہ جات بھی ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ قرآن کو شاہ کلید قرار دیتے تھے۔ ان کی دعوت کا مرکز و محور یہی سرچشمہ ہدایت تھا۔ سید مودودیؒ نے واقعی جدید پڑھے لکھے طبقے کو اسلام کی طرف نہ صرف راغب کیا بلکہ ان کے دل و دماغ کو پوری طرح مطمئن بھی کیا۔ ان سے متاثر ہونے والے افراد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اور کڑوروں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ وہ شاندارمفکر تھے جنہوں نے دنیا بھر کے نوجوانوں کی فکری رہنمائی کی۔ یہی نوجوان اسلام کے روشن مستقبل کی امید ہیں۔ اللہ سید مودودیؒ کی قبر کو نور سے بھر دے آمین۔ ثمہ آمین