جنوبی ایشیائی افراد کے تنہائی کا شکار محسوس ہونے کی وجہ ’’لون پیرنٹنگ‘‘

March 01, 2024

لندن (پی اے) لون پیرنٹنگ کو لندن میں بہت سارے جنوبی ایشیائی افراد کو تنہائی اور بدنامی کا شکار محسوس کرنے کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ انکشاف ایک سپورٹ گروپ نے کیا ہے ارونابنسال نے دو ارینجڈ میرجز سے دو طلاقوں کے بعد سنگل پیرنٹ رہنے پر 2011میں ایشین سنگل پیرنٹ نیٹ ورک کا آغاز کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اور اپنی بیٹی کیلئے ایسی جگہ جانا چاہتی ہے جہاں وہ تنہائی محسوس نہ کریں۔ ایسا کوئی بھی فرد نہیں جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ کن حالات سے گزر رہی ہے ۔ لندن میں واقع اسکاٹ لینڈ اور ویلز سے مجموعی طور پر زیادہ سنگل پیرنٹ گھرانوں کا گھر آفس آف نیشنل سٹیٹکٹس کے مطابق سنگل پیرنٹس کے ملنے کیلئے محفوظ جگہ قائم کرنے کیلئے ایشین سنگل پیرنٹ نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ واکس اینڈ ٹاکس ، بوٹ پارٹیز اور ہزانائٹس سے لے کر ویک اینڈ پریسر ، گروپ تھراپی سشینز تک مختلف ایونٹس کی میزبانی کرتا ہے اور ملک بھر میں اس کے سیکڑوں ارکان ہیں۔ آفس کے مطابق کسی بھی دوسرے نسلی گروپ کے مقابلے میں جنوبی ایشیائی افراد کے سنگل پیرنٹ ہائوس ہولڈ ہونے کا امکان کم ہے۔ طلاق یافتہ کوچ مسلمہ خان جو جنوبی ایشیائی جوڑی کے بارے میں سپلائزیشن رکھتی ہیں کا کہنا ہے کہ ایشیائی کمیونٹیز میں روائتی اقدار مضبوط خاندانی بنیاد پر زور دیتی ہیں اور ان سے انحراف کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اثر خاص طور پر خواتین پر پڑا ہے کیونکہ شادی ٹوٹنے پر اکثر انہیں کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ 40 سال سے زائد عمر کی سونیا کا کہنا ہے کہ اسے طلاق کے 12برسوں میں 8 سال تک کوئی فیملی سپورٹ نہیں ملی اور اس کی سب سے بڑی جنگ فیملی پانا ہے۔ سونیا کا 11سالہ بیٹا بھی نیٹ ورک کے ایونٹس میں شریک ہوتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ بہت شاندار ہے کیونکہ اسے اپنی طرح کے بچوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ اسکول میں ایک ماں یا باپ والے بہت سارے افراد نہیں تاہم اب میں ایسے دوستوں کا حامل ہو گیا ہوں جو جانتے ہیں کہ یہ کس طرح ہوتا ہے۔ 27سالہ مونیکا بھٹو نے کہا کہ طلاق کے وقت اس کے خاندان اور دوستوں نے بے سہارا چھوڑ دیا تھا کیونکہ طلاق کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے ۔ اسے سنگل ماں کی حیثیت سے کوئی سپورٹ حاصل نہیں۔ اس کے خاندان والے اور دوست چاہتے ہیں کہ وہ سابق شوہر کے پاس چلی جائے کیونکہ ان کے خیال میں ایک سنگل پیرنٹ کے طور پر بچے کو پالنا شرم کی بات ہے۔ اس نے بتایا کہ نیٹ ورک میں شمولیت اور دوسرے جنوبی ایشیائی سنگل پیرنٹس سے ملاقاتوں نے اسے سکون اور جذبہ دیا کہ وہ جی سکتی ہے۔