ظالم اور مظلوم میں فرق کرنا سیکھنا ہوگا

March 10, 2024

گزشتہ ہفتے ’’ کام کی جگہ پر ہراسانی سے تحفّظ‘‘ کے موضوع پر زیبسٹ یونیورسٹی میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ مہمان خصوصی نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان کی رُکن، صحافی اور سوشل ایکٹو یسٹ مسز انیس ہارون ،جب کہ کی نوٹ اسپیکر وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت، فوزیہ وقار تھیں۔ اس موقعے پر این جی اوز، سِول سوسائٹیز کے ارکان، فیکلٹی اسٹاف، طلباء و طالبات اور سینئر مینجمنٹ سمیت مختلف یونی ورسٹیز سے تعلق رکھنے والی’’ انسدادِ ہراسانی کمیٹیز‘‘ کے ممبران اور یونی ورسٹی کی صدر شہناز وزیر علی نے بھی شرکت کی۔ پروگرام کا آغاز اسٹوڈنٹ ایڈوائزر، اسسٹنٹ پروفیسر مِس حاریم صدیقی نے کیا۔

شہناز وزیر علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر طلبہ قانون کی تاریخ پڑھیں، تو انھیں پتا چلے گا کہ قوانین کیسے وجود میں آئے، بلز کو کتنی جدوجہد کے بعد پاس کروا کر قانون کی شکل میں پیش کیا گیا۔ مخصوص سیاسی پارٹی اور مخصوص گروپس نے ہیومن رائٹس، ویمن رائٹس، رائٹس آف لیبر اور رائٹس آف چلڈرن کے قوانین کے بارے میں سندھ اور قومی اسمبلی میں بات کی اور ان قوانین کو منظور کروایا۔

’’کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے خلا ف تحفظ ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں لیاگیاگروپ فوٹو

آج سے کئی سال قبل، جب ویمن ایکشن فورم بنا، تو خواتین کے سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق پر آواز اٹھائی گئی۔ نوّے کی دہائی میں کام کی جگہ پر خواتین کے ہراسانی کے مسائل سے متعلق بات کی گئی۔پاکستان کی تاریخ میں2008 ء تک ہمارے ایوانوں میں ویمن پارلیمینٹری کوکس( caucus)نہیں بنا تھا،لیکن اُس وقت کچھ سیاسی جماعتوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کرنے والے گروپس نے مل کراسے بنایا۔

اسمبلی میںموجود چند خواتین نے دن رات محنت کرکے خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور قوانین بنوائے۔2009 ء میں خواتین کے لیے کام کی جگہ پر ہراسانی سے تحفظ سے متعلق ایک بل پیش کیا گیا، جسے جنوری 2010 ء میں ایک ایکٹ کے طور پر پاس کیا گیا۔2022 ء میں اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ نیشنل کمیشن فارہیومن رائٹس پاکستان کی رُکن ،صحافی اور سوشل ایکٹویسٹ مسز انیس ہارون نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 2009 ء سے2012 ء تک مَیں نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن رہی۔ خوش قسمتی سے یہ وہ وقت تھا، جب خواتین کے لیے کچھ خاص قوانین سامنے آئے۔

انیس ہارون،اپنے خیالات کا اظہار
کررہی ہیں

ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اُس وقت اسمبلی کی اسپیکر بھی ایک خاتون تھیں۔’’ویمن کوکس‘‘ بھی بن گیا تھا، اس نے بھی قوانین بنانے میں بہت معاونت کی۔ اُس وقت ویمن ایکشن فورم، ویمن آرگنائزیشن، ہیومن رائٹس کیمشن اور دیگر اداروں نے اپنے مطالبات کوکس میں پیش کیے، پھر انھیں لیگل کمیٹی میں زیرِ غور لایا گیا، ان پر کام کرکے انھیں قانون کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اِس طرح 2010 ء میں جو اینٹی ہراسمنٹ ایکٹ آیا تھا، یہ اس کی بنیاد تھی۔اُس وقت پبلک اور پرائیوٹ اداروں میں ہراسمنٹ کے کیسز بڑی تعداد میں رپورٹ ہو رہے تھے۔

ہم چوں کہ ایک پدرانہ معاشرے میں رہتے ہیں، لہٰذا یہاں کسی خاتون کو کچھ کہہ دینا، لباس پر تنقید کردینا، کوئی اشارہ کرنا بُرا نہیں سمجھا جاتا یا ان سب کو بڑی بات نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی لوگوں کا یہ مائنڈ سیٹ ہے کہ کچھ کام خواتین نہیں کرسکتیں،اِسی لیے انھیں وہ کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہراسمنٹ کے جو کسیز ہوتے ہیں، اُن کا کوئی گواہ بھی نہیں ہوتا۔عموماًایسے کیسز میں کوئی تیسرا شخص نہیں ہوتا، جو متاثرہ خاتون کے حق میں گواہی دینے کے لیے کھڑا ہو سکے۔اِسی لیے اس جرم کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔

خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین پر عمل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جس کی ایک اہم وجہ پدرانہ اصول ہیں، جن سے ہم ابھی تک پوری طرح باہر نہیں نکل پائے۔ البتہ، بہت سی چیزیں تبدیل ضرور ہوئی ہیں۔ 1979ء میں جو حدود آرڈیننس آیا تھا، اُس کے مطابق، جس عورت پر الزام لگایا گیا ہو، اب وہی ثابت کرے کہ اُس نے یہ گناہ نہیں کیا۔ بعدازاں، اس میں2013 ء اور پھر 2022 ء میں تبدیلیاں آئیں۔ اس جدوجہد میں ویمن ایکشن فورم اور ویمن آرگنائزیشن کا بہت عمل دخل رہا ہے کہ وہ باربار ان ایشوز کو ہائی لائٹ کرتی رہیں اور ان پر مسلسل آواز اُٹھاتی رہیں۔

قوانین پر100 فی صد تو عمل در آمد نہیں ہوا، لیکن اِتنا ضرور ہوگیا ہے کہ اگر اب کوئی لڑکی یا خاتون یہ کہتی ہے کہ اُسے ہراساں کیا گیا ہے، تو لوگ اُس کی بات سُنتے ہیں، اُس پر شک نہیں کرتے۔ اس کے برعکس، پہلے یہ کہہ کر چُپ کر وادیا جاتا تھا کہ خواتین کا تو کام ہی شکایتیں کرنا ہے۔اب یہ چیز تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے، جس میں میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل پر پُرزور آواز اُٹھا رہی ہیں، سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں اپنے حقوق کے حوالے سے شعور اُجاگر ہو رہا ہے۔خواتین کے حقوق، فیمنزم اور برابری پر بات کرنے کا مقصد ہر گز مَردوں کو کم تر ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ ہمارا مقصد تو یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے حقوق کی عزّت کریں تاکہ سب کو برابری کے حقوق ملیں۔ظالم اور مظلوم کا فرق کرنا ضروری ہے اور جب یہ کرنا آجائے گا، تو معاشرے میں امن بھی ہو جائے گا۔ہراسمنٹ صرف جنسی طور پر ہراساں کرنے کو نہیں کہتے، بلکہ غلط بات کہنا، غلط اشارہ کرنا، پیچھا کرنا اور گھورنا بھی ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

اِس قانون کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اِس نے آواز اُٹھانے کے لیے زبان دی ہے اور اِن قوانین کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کا اسٹیٹس بنا ہے، لیکن ہم اب بھی اُس اسٹیج تک نہیں پہنچے، جہاں ہم یہ کہہ سکیں کہ’’اب خواتین بہ حفاظت ہر جگہ جاسکتی ہیں، انھیں مساوی حقوق مل گئے ہیں اور انھیں کوئی ڈر وخوف لاحق نہیں ہے۔‘‘ اس مرحلے تک پہنچنے میں ہمیں وقت لگے گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں تعلیم اور شعور و آگاہی کی ضرورت ہے۔

فوزیہ وقار

وفاقی محتسب برائےانسداد ہراسیت، فوزیہ وقار کا سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’گلوبل جینڈر انڈیکس ‘‘ میں موجود 146 ممالک میں سے پاکستان 143 نمبر پر ہے۔

پاکستا ن کے آئین میں خواتین کے حقوق واضح طو پر موجود ہیں ۔آرٹیکل 25 میں کسی بھی شہری کے تحفظ اور خود اعتمادی کے بارے میں ہے اور آرٹیکل 34 میں خواتین کے عوامی زندگی میں حصّہ لینے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

پھر یہ کہ ہمارے پاس حقوقِ نسواں سے متعلق خصوصی قوانین بھی موجود ہیں۔ 2010 ء سے اب تک متعدّد قوانین بنائے گئے، جو ایک خاص اور منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ ان قوانین میں سب سے اہم ’’کام کی جگہ پر ہراسانی کا قانون‘‘ ہے۔گزشتہ بیس برسوں میں خواتین کے حقوق کے ضمن میں کئی قوانین بنائے گئے، جن کی مدد سے خواتین کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی شکایات کے اندراج میں آسانی ہوئی۔

اب نہ صرف ہراسمنٹ، بلکہ گھریلو تشدّد کی بھی شکایت درج کروائی جاسکتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ شکایت صرف خواتین ہی نہیں، مرد اور خواجہ سرا بھی درج کرواسکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس لیگل فریم ورک بھی موجود ہے۔ جہاں تک اِن قوانین پر عمل درآمد کی بات ہے، تو اِس کی راہ میں مشکلات کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک مائنڈ سیٹ کا مسئلہ اور دوسرا قوانین کے حوالے سے آگاہی کا نہ ہونا۔‘‘فوزیہ وقار نے صنفی بنیاد پر امتیازی قانون کے تحت کام کی جگہ پر ہراسانی کے اثرات کو بھی واضح کیا۔نیز، اُنھوں نے قانونی ذمّے داریوں سے آگاہی کے لیے فیکلٹی اور عملے کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز کے انعقاد پر بھی زور دیا۔

بلاشبہ، اِس سیمینار نے نتیجہ خیز تبادلۂ خیال کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم کے طور پر کردار ادا کیا، جس میں تمام افراد کے لیے محفوظ اور باعزّت کام کے ماحول کے قیام پر روشنی ڈالی گئی۔ سیمینار کا آخری سیشن سوالات کے لیے مختص تھا، جس میں ماہرین نے شرکاء کے سوالات کے جوابات دئیے۔