• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ایسا سنگین ، ہیبت اور ہولناک واقعہ ہے یہ کربلا کا کہ جہر و قہر کے جسقدر بھی الفاظ و معنی دنیا بھر میں رائج ہیں ان سب کی تشریح کا لب لباب واقعہ کربلا ہے جس کاعکس کرب وبلا کی صورت ایک ایک مومن کے ذہن سے محو نہیں ہوتا بلکہ چپٹا رہتا ہے۔ یہ بات و معاملات زندگی کے مصروف ترین حالات میں، اپنوں پرایوں کے شدید ترین غم میں بھی بھلائے نہیں بھولتے۔ صرف سوگ کے دنوں اور محرم کے ماہ تک شہیدان کربلا کی یاد نہیں آتی بلکہ افق پر جب بھی دھیان و نظر جائے اور وہاں افق کی سرخی ظاہر ہو تو وہ عکس خون شہیداں ہے۔ یہ لالی بیکس خون کی نشانی ہے، معصوم شہدا کے خون نے افق پر قوس و قزح کو رنگ تبھی سے دینا شروع کئے تھے یوں جانئے کہ آسمانی فضا بھی ماتم و سوگوار رنگ میں ڈھل چکی تھی۔ کبھی آسماں کو خون بھرا دیکھا ہے؟۔یہ آسمان کا حال ہے تو زمین کی فضا اس سے کیا مختلف ہوگی کیا کسی کی سانسوں میں کرب وبلا کا درد نہ اترے گا۔ دل اس غم سے روح تک کو سوگوار نہ کرے گا۔ ہر آنکھ کے کنارے پر آنسو بند باندھ رکھتے ہیں کہ کربلا کے شہیدو یہ پانی تمہاری پیاس کی صورت ہماری آنکھوں میں در آیا۔ تمہاری پیاس بجھتی تو یہ غم کے آنسو ہماری آنکھوں میں نہ رہتے آج اہل سوگواران کے آنسو اسقدر ہیںکہ تمام معصومین کی پیاس بجھ کر بھی باقی آنسو دریا میں بہا دیئے جائیں۔ اہل دل بتائو تو حسینؑ کی محبت تو اس سے کہیں زیادہ ہے نا؟ یہ تو الفاظ ہیں اور الفاظ درد کادرماں نہیں ہوتے، نقشہ نہیں کھینچ سکتے۔ شعرا کے مرثیے کافی سے زیادہ نقشہ کشی کرتے ہیں۔ بقول ظل ہما کے
اداسیوں نے اڑائی وہ ریت سانسوں میں
میرے مزاج میں اتری ہو کربلا جیسے
زمین دل پر چلی یوں ہوائے آہ و بکا
ہو ریگزار میں خیمہ کوئی جلا جیسے
قافلہ ، خیمہ اور لشکر یہ کربلا کی زمین کے اہم ترین عناصر ہیں ہی مگر جو خون اس زمین کو بھگو گئے وہ قیامت تک گیلی ہی رہے گی۔لشکر، لشکر اور لشکر! کتنے بھیجنے تھے ایک چھوٹے سے قافلے کے مقابلے کیلئے، دشمنوں کو چین کہاں تھا۔ ایک پوشیدہ سا دھڑکا تھا یزید کو کہاں نواسۂ رسولؐ سے میرا موازنہ اور مقابلہ! خیر یزید لشکر پر لشکر تیار کرکے بھیجتا رہا۔ کبھی خونی ابن یزید کو دس ہزار، کعب ابن الحرو کو تین ہزار، حجاج ابن حر کو ایک ہزار کا لشکر دیکر روانہ کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ چھوٹے بڑے اور کئی لشکر ارسال کرنے کے بعد بھی اندر کی گھٹن کہیں بتا رہی تھی کہ ہم پھر بھی چھوٹے سے قافلہ والے بہادروں کا مقابلہ نہ کر سکیں گے۔ پھر بھی دشمن کی کمان میں کھلبلی مچی تھی کہ ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو کہلا بھیجا کہ اب تک تجھے اسی ہزار کا کوفی لشکر بھیج چکا ہوں، ان میں شامی اور حجازی شامل نہیں ہیں اتنی لشکری بزدل کیوں ثابت ہو رہی ہے؟ تجھے تو چاہیئے کہ بلاحیلہ و حجت قتل حسینؑ کو عمل میں لایا جائے۔اسی طرح کی سرکشی معاویہ نے بھی حضرت علیؓ کے ساتھ جاری رکھی تھی اور اپنی معزولی پر بھنا رہا تھا۔ حاکم وقت ہونےکی وجہ سے حضرت علیؓ نے اسے معزول کردیا۔ معزولی کی خبرپر وہ بھی مقابلے کی ٹھان چکا تھا اور کھل کر میدان میں آنے کو بے چین! اور پھر وہی بات کہ لشکر کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک لاکھ 20 ہزار کا لشکر لیکر حضرت علیؓ پر حملہ کرنے کو چل دیاپھر پکا ارادہ بھی کرلیا ۔ حضرت علیؓ بھی 90 ہزار کی فوج سمیت مقابلے کو تیار اور صفین کی راہ لی۔ راستے میں کربلا کا مقام آگیا، آپ نے پوچھا کہ اسزمین کو کیاکہتے ہیں؟ کہا گیاکہ ’’کربلا‘‘ ۔ یہ سن کرآپ اتنا روئے کہ زمین بھی تر ہوگئی۔ اصحاب نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں ایک مرتبہ رسول کریمؐ کی خدمت میں اس وقت پہنچا کہ وہ رو رہے تھے۔ میں نے بھی رونے کا سبب پوچھا تو آپؐ فرمانے لگے کہ ابھی ابھی جبرائیل آئے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ تمہارے حسین کو کربلا میں شہید کر دیا جائےگا۔ بلکہ ایک اور بھی خبر تھی کہ اسی سرزمین پر آل محمد کا ایک برگزیدہ گروہ قتل کیا جائے گا جس کے غم میں زمین و آسمان روئیں گے۔ پھر جب حضرت علیؓ نینوا کے قریب پہنچے تو آپ کے لشکر کا پانی بھی ختم ہوگیا تھا۔ ٹھیک کربلا میں بھی اسی طرح حسینؑ پر بھی پانی ہر طرف سے بند کر دیا جائے گا۔ یعنی واقعہ کربلا سے پہلے حضرت علیؓ اور دیگر اصحاب کربلا کی صورت حال سے کافی حد تک آگاہی پا چکے تھے۔یوں ہی ہوتا رہا کہ 72 اصحاب کے مقابلے کیلئے کئی دن سے 72 ہزار سے بھی زیادہ فوجی لشکر آتے رہے۔ ایک ایک ہزار کیلئے ایک ایک شخص مقابلے پر آتارہا۔ پھر بھی انگلیوں پر گنے جانے والی تعداد لاکھوں کا مقابلہ نہ کر سکی مگر مقام شہادت تک پہنچ کر اسلام زندہ کر گئی۔ وہ ہی افق پر شفق نمودار ہوئی مانند خون شہیدان کربلا کہ قیامت تک یہی منظر رہے گا۔
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اہل حق ہوںتو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں
یورپ سے سے مزید