’’چٹوڑی‘‘ جہاں تالپور حکم راں محوِخواب ہیں

June 25, 2019

صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے مشرقی سمت میں 73کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع میرپور خاص واقع ہے، جسے ، 1806ء میں میر علی مراد تالپور نے بسایا تھا۔یہ شہر آموں کی مختلف اقسام کی وجہ سے معروف ہے۔ میر پور خاص ریلوے لائن اور سڑک کے ذریعے حیدرآبادسمیت ملک کے بیشترشہروں سے ملا ہوا ہے۔ میرپور خاص ریلوے اسٹیشن ،کھوکھراپار برانچ ریلوے لائن پر واقع ہے۔ 2006ء میں میرپور خاص - کھوکھراپار ریلوے سیکشن کی میٹر گیج سے براڈ گیج میں تبدیلی کے بعد یہ شہر بھارت کے ساتھ بھی بذریعہ ریل منسلک ہو گیا ہے۔ یہاں سے ٹرینیں جودھ پورتک جاتی ہیں جب کہ بھارت جانے والے مسافر وہاں اتر کر دہلی اور دیگر شہروں کی جانب عازم سفر ہوتے ہیں۔

میرپور خاص سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ایسا عظیم الشان شہر واقع ہے ، جہاں ہر سو خاموشی کا راج ہے ۔ یہاں تالپور حکم ران خاندان کے افراد ابدی نیند سو رہے ہیں، یہ تالپور میروں کا قبرستان کہلاتا ہے۔

یہاں پر سندھ کے حکمران تالپور خاندان کے مزار ہیں۔ اس قبرستان کو چٹوڑی قبرستان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔اس قبرستان میں سب سے پہلے تالپور میر، میر موسیٰ تالپور کو دفنایا گیا تھا ، لیکن اس سے قبل قبرستان میں مقامی افراد کی قبریں موجود تھیں۔’’ چٹوری‘‘ نام سے کچھ روایات بھی وابستہ ہیں۔

یہاں کےقدیم لوگوں کا کہنا ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان واقع ہے، اس مقام پر کسی زمانے میں ایک جھیل ہوا کرتی تھی، جس میں ایک مخصوص جلدی بیماری میں مبتلا افراد غسل کیا کرتے تھے اور حیرت انگیز طور پر وہ اس سے شفایاب ہوتے تھے۔ اس بیماری کو لوگ ’’چٹی ‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ روزانہ سندھ کے دور دراز کے علاقوں سے سےدرجنوں لوگ مذکورہ بیماری سے نجات پانے کے لیے اس جھیل پرغسل کرنے کی غرض سے آتے تھے ۔اس جھیل کے نام کی مناسبت سے مذکورہ قبرستان کانام ’’چٹوڑی قبرستان پڑ گیا۔

بعض لوگوںکی روایت کے مطابق کہ مذکورہ قبرستان کا یہ نام قبروں اور مقابرپہ کئے جانے والے نقاشی اور پچی کاری کے کاموں کی وجہ سے پڑا۔ سندھی زبان میں اس طرحکے نقش و نگار کو’’ چٹ ‘‘کہا جاتا ہے۔ اور جو چٹسالی ان مزاروں پہ کی گئی ہے اس کے پس منظر میں اسے چٹوڑی کا نام دیا گیا ہے۔

تیسری روایت کے مطابق جو لوک کہانی کی صورت میں ہے۔ کسی دور میں اس جگہ کو ’’چٹ کا میدان ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں تین دوستوں ، جن کی دوستی مثالی حیثیت رکھتی تھی، انہوں نے اپنے مرنے کے بعد اس جگہ پہ دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کا انتقال ایک ساتھ ہوا جس کے بعد انہیں ’’چٹ کے میدان‘‘ میں دفن کیا گیا جو بعد میں چٹوڑی قبرستان کے نام سے مشہور ہوا۔وچٹوڑی قبرستان 62 ایکڑرقبے پر محیط ہے، جس میں پرشکوہ مزارات اور مقابر ہیں مزاروں میں جس پتھر کا استعمال کیا گیا ہے وہ پرانے زمانے میں آگرہ اور جیسلمیر سے برآمد کیا جاتا تھا۔ جسے پیلا پتھر کہا جاتا ہے۔ مکلی کے قبرستان میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے یہ پتھر بھی اسی سے مشابہت رکھتا ہے۔ہرمقبرے پر جداگانہ نقاشی کی گئی ہےجسے دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ کر لگتا ہے کہ یہاس دور کے فن تعمیر کے بہترین شاہ کار ہیں۔ ان میں نہ صرف مختلف نمونے بنائے کئے ہیں بلکہ فارسی زبان میں چند عبارات بھی تحریر کی گئی ہیں۔ ہر مزار کے اوپر ایکگنبد تعمیر کیا گیا ہے۔

قبروں کی تعمیر میں بھی اسی پتھر کا استعمال کیا گیا ہے جس سے مقابر کی تعمیر ہوئی ہے۔ امتداد زمانہ کا شکار ہوکر اب ان میں سے زیادہ تر قبریں شکستہ حالت میں ہیں۔ بعض مزارات پر کاشی گری کا کام بھی نظر آتا ہے مگرعدم توجہی کی وجہ سے مقابر اور مزارت کی منقش اینٹیں بھی سالخوردہ ہوکر اکھڑ رہی ہیں۔ان مزاروںکی تعمیر کے وقت ، پتھر کی جالیاں بھی بنائی گئی ہیں اور مزار کی ہر دیوار پہ الگ الگ نقش نگار بنائے گئے ہیں تاکہ مزار یکسانیت کا شکار نہ ہوں۔ ہرگنبد پر سفید رنگ کیا ہوا ہےے مقابر کے اندر اور باہر جو نقش و نگار بنائے گئے ہیںوہجداگانہ انداز میںہیں۔گنبد کے اندرونی حصے پر بھی الگ ڈیزائن بنائے گئے ہیں جب کہ اندرونی دیواریں اور کونوں پر پچی کاری کا انتہائی خوب صورت کام کیا گیا ہے۔ مگر اب ان مزاروں کے در و دیوار اکھڑ رہے ہیں۔ باہر کی خوبصورتی تو کچھ قائم ہے مگر اندر کی ماند پڑ تی جارہی ہے۔جب کہ ایک مزار کے احاطے میں تالپور خاندان کےزیادہ تر افراد محو خواب ہیں۔ان میں تالپوردور کے پہلے حکمران سے لے کر آخری حکمران تکسبھی مدفون ہیں۔ تلاپور حکم رانوں کی قبروں کو سنگ مرمر اورپکی اینٹوں سے بنایاگیا ہے۔ ان میں پیلے پتھر کا استعمال نہیں کیا گیا۔ چونکہ یہ قبرستان تالپور حکمران خاندان سے قبل قائم تھا، اس لیے اس میں ہمیں عام لوگوں کی قبریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قبرستان 400 سال قدیم ہے۔

شاید یہ پاستکان کا واحد قربستان ہے جہاں ہندو اور مسلمانوں کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔چٹوڑی قبرستان میں ہندوؤںکی تدیفن کا عمل عرصہ دراز سے جاری ہے اور آج بھی میر پور خاص کے زیادہ تر ہندو گھرانے اپنے مردوں کو اسی قبرستان میں دفناتے ہیں۔اس قبرستان میں نجوانی برادری کیبھی ایک ساتھ متعدد قبریں بنی ہوئی ہیں۔ہر سال لنجوانی رادری سے تعلق رکھنے والے عقیدت مندیہاں آتے ہیں۔ اس وقت اس قبرستان میں ایک چھوٹے سے میلے کا سماں ہوتا ہے۔ مگر عام لوگ یہاں شاذ و نادر ہی آتے ہیں۔

2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تمام تاریخی مقامات و آثار وفاقی حکومت نے صوبوں کے حوالے کردیئے تو سندھ کے قدیم آثار بھی سندھ کی صوربائی حکومت کےحصے میں آئے۔ چٹوڑی کے قبرسشتان کو قومی ورثہ قرار دیا گیا۔ جنوری 2015میں اقوام متحدہ کے ادارے، یونیسکو کی جانب سے سندھ کے کئی قدیم آثار کی حالت تشویش ناک حد تک مخدوش قراردی گئی ، جس میں چٹوڑی کا قبرستان بھی شامل ہے۔ اس کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے قدیم آثار کی بحالی کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئیں۔ چٹوڑی قبرستان میں واقع مقابر، قبروںکی تعمیر ، مرمت اور بحالی کے کام کے لیے5کروڑ51لاکھ روپے کا فنڈ مختص کیا گیا لیکن اس میں سے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے مبینہ طور پر کرپشن کی نذر ہوگئے۔

سندھ حکومت کے سیاحت اور ٹؤرزم ڈپارٹمنٹ نے اسے مرمت کرانے کی ذمہ داری اٹھائی ہے، جس کے بعد قبرستان میں مزاروں کی مرمت کا سلسلہ جاری ہے۔ گو کہ اس کی مرمت میں پیلے پتھر کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے مگر وہ اصلی پتھر سے کافی مختلف نظر آتا ہے، لیکن بہر حال اس تاریخی قبرستان کی ازسر نو مرمت ، تزئین و آرائش کے علاوہ سیاحوں کے لیے اسے پرکشش مقام بنانے کے لیے بعض اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔