ہمیں مل کر ماحول کو آلودگی سے بچانا ہے

January 31, 2020

صاف ستھرا ماحول ہی ایک صحت مند معاشرےکی بنیاد رکھ سکتا ہے اور جب اس راز کو سماج کے نوجوان بہت جلد پا لیں تویقینی طور پرصحت مند ماحول کی بنیاد مستحکم ہو جاتی ہے۔اس کی مثال نوجوان سمید انیس کی ماحول دوست کاوش سے واضح ہوتی ہے، جب انہوں نے’’فوڈ پیکجنگ‘‘کے شعبے میں قدم رکھا توانہیں اندازہ ہوا کہ مضرصحت پلاسٹک کی پیکجنگ اور کراکری اس شعبے کا حصہ بن چکی ہے،لہذا انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بایوڈیگریڈیبل (تحلیل پزیر)پیکجنگ کے لیے کام شروع کیا۔

ماحول کو آلودگی سے بچانے کی اس کاوش میں انہیں مشکلات بھی پیش آئیں۔ایک ملاقات میں سمید انیس نے اپنی کاوش کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا ،’’میں نے 2014میں نجی یونیورسٹی سے فائنانس میں گریجویشن کیا تھا،چار برس ایڈورٹائزنگ کمپنی میں ملازمت کی۔میں کاروبارکرنا چاہتا تھا، میراارادہ خود کچھ کرنے کاتھا،لہذا ملازمت چھوڑ کر بزنس کی فیلڈ میں آگیا۔میرے لیے آئیڈیل شعبہ فوڈ انڈسٹری کا تھا،کیوں کہ یہاں عموماً لوگ انٹرٹینمنٹ، فوڈ سے ہی لیتے ہیں،’ڈائننگ آؤٹ‘ کونوجوان نسل بہت انجوائے کرتی ہے ،لہذا آج کل ریسٹورنٹ کا بزنس منافع بخش ہے، لہذا میں نے ’’فوڈ پیکیجنگ‘‘کے شعبے کو اپنایا۔

اس شعبے میں میں نے یہ چیز دیکھی کہ یہاں پرفوڈ پیکجنگ کا مطلب پلاسٹک کی مصنوعات کا استعمال ہے،جب میں نے ریسرچ کی تو پتا چلا کہ پلاسٹک انسانوں کے لیے زہر ہے،ہم اپنے چاہنے والوں کو اس میں کھانا نہیں کھلا سکتے،میرے لیے اس بزنس میں زیادہ فائدہ تھا،لیکن یہ بات مجھے بہت تنگ کر رہی تھی کہ غیر معیاری پلاسٹک کے برتن،پیکنگ کے ڈبے ،چمچے اور کانٹے وغیرہ انسانی صحت کے لیے مضر ہیں ،جب ہم اس میں گرم کھانا رکھتے ہیں تو کیمیکل پراسس کے بعد ایسی غذا جسم میں کینسرکا باعث بنتی ہے۔میں نے سوچااس کام میں منافع تو ہے لیکن یہ انسانیت کے لیے خطرناک ہے،مجھے کچھ کرنا چاہیے،کیوں کہ کینسر انسان کو ختم کر دے گا لیکن پلاسٹک کبھی تحلیل نہیں ہوگا، یہ دنیا میں رہ جائےگا۔

اسی لیے میں نے Biodegradable packagingکا سوچا۔دنیا بھر میں اس پر کام ہو رہا ہے۔پلاسٹک انسانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے اورماحول کو بھی آلودہ کرتا ہے، اسی لیےلوگ بایوڈیگریڈیبل ( تحلیل پزیر) پیکجنگ کی طرف آرہے ہیں۔میں نے ریسرچ کی کہ دنیا میں کس طرح لوگ بایوڈیگریڈیبل پیکجنگ کو عملی شکل میں لا رہے ہیں ۔سب سے اہم بات اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی پھیلاناہے۔

میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ ریسٹورنٹس والوں کو کس طرح آمادہ کیا جائے کہ وہ اس مٹیریل کو خریدیں کیوں کہ ان کے لیے پلاسٹک زیادہ سستی ہوتی ہے اور ان کا کہنا یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ہمارے کسٹمرز کو مسئلہ نہیں ہے پلاسٹک میںکھانے سے تو ہم کیوں بایوڈیگریڈیبل پلیٹیں اور چمچے ریسٹورنٹس میں رکھیں یا پیکنگ میں سپلائی کریں۔

میں نے باقاعدہ ریسٹورنٹس کو آمادہ کرنے کی مہم چلائی،ایک ریسٹورنٹ کوبایوڈیگریڈیبل پیکجنگ کے لیے راضی کرنے میں تین سے چار ماہ لگتے ہیں‘‘۔آپ بایوڈیگریڈیبل میٹریل بنانے کے لیے کون سے اجزاءاستعمال کرتے ہیں؟اس سوال کے جواب میں سمید نے بتایا کہ،’’کٹلری birch woodسے بنتی ہے یعنی یہ ایک بہت ہلکی لکڑی ہوتی ہے اور ڈبے Bagasse سے بنتے ہیں،یہ گنّے کاپھوک ہوتا ہے،اس سے بہت مضبوط ڈبے بنتے ہیں،اسی طرح کرافٹ پیپر اوربانس کی لکڑی سے بھی کٹلری بنتی ہے، یہ میٹریل فضا میں تحلیل ہوجاتا ہے اور ماحول کو آلودہ نہیں ہونے دیتا‘‘۔

اس کام کے لیے آپ کو مالی معاونت کہاں سے ملی؟سمید نے بتایا کہ ’’میں نے مٹیریل بنانے میں اپنی جمع پونجی خرچ کی ،کچھ رقم والد صاحب سے لی،دراصل پاکستان میںیہ ایک نئی انڈسٹری ہے،ایسا ممکن نہیں تھا کہ میں سامان بنا کر بیٹھ جاتا اور کوئی اسے قبول نہیں کرتا لہذا پہلے میں نے لوگوں کوقائل کیا،انہیں پلاسٹک کے مضر اثرات بتائے، کہ ہم زہر کھارہے ہیں،جب ڈیمانڈ بڑھی تو میں نے میٹریل بنانا شروع کیا ،شروع میں بہت مشکلات پیش آئیں، کوئی سامان لینے کو تیارنہیں تھا، یہاں تک کہ جتنی لاگت آئی تھی اُس پر ہی فروخت کرنا چاہا، اس طرح آہستہ آہستہ مارکیٹ تک رسائی ہوگئی۔

میں نے ایک ریسٹورنٹ سے آغازکیا تھا، آج 25 ریسٹورنٹس کوبایوڈیگریڈیبل ڈبے،تھیلے،چمچے،اسٹرازاور کانٹے فروخت کررہا ہوں‘‘۔کیا آپ سمجھتے ہیں پلاسٹک کے مضر اثرات کے حوالے سے لوگوں میں شعور پھیلانے میں آپ کامیاب ہیں؟سمید کا کہنا تھا کہ ’’بنیادی طور پر اگر لوگوں میں یہ شعور آجائے کہ جو ہم کھا رہےہیں وہ زہر ہے تو یقیناً لوگ کوئی متبادل تلاش کریں گے۔

یا تو کنزیومر یہ میٹریل خود خریدے گا یا ریسٹورنٹس کو مجبور کرے گا کہ پلاسٹک کی جگہ بایوڈیگریڈیبل کراکری میں کھاناسپلائی کریں ۔کنزیومر کی طرف سے ڈیمانڈ آئے گی تو ریسٹورنٹ کی مجبوری بن جائےگی۔ہم سب کو مل کر ماحول کو آلودگی سے بچانا ہے،میں نے چار سال ملازمت کی ،میری بہت معقول تنخواہ تھی،لیکن جب میں نے اس کام کا آغاز کیا توکبھی اکاؤنٹ میں ہزار روپے بھی نہیں ہوتے تھے، میں نے معاشرے کی خدمت کے لیے اس کاز کوجاری رکھا ہے،یہ ماحول اور انسانیت کے لیےایک نیک مقصد ہے‘‘