رمضان مبارک یا عید کی مبارک باد دینا کیسا ہے…!

May 22, 2020

تفہیم المسائل

سوال:کیا ہم کسی اسلامی مہینے(مثلا رمضان شریف)اسلامی تہوار(عید ین وغیرہ)یا کسی مخصوص اسلامی دن یا تاریخ(مثلا فتح مکہ اور ایسے بہت سے اوردن ہیں)کو منا سکتے ہیں یا ایک دوسرے کو مبارکباد دے سکتے ہیں،(محمد محمود ، کراچی )

جواب:رمضان مبارک کوتوحدیثِ پاک میں رسول اللہ ﷺنے شَھْرٌ مُبَارَکٌ (برکت والا مہینہ)فرمایا ہے اور برکت کے معنی ہیں:اجر میں اضافہ ، اس کی حدیث پاک میں تشریح فرمادی گئی ہے :رمضان مبارک میں نفلی عبادت کا ثواب دیگر ایّام کی فرض عبادت کے برابر ہوتا ہے اور فرض عبادت کا ثواب دیگر ایام کے مقابلے میں ستّر گنا زیادہ ہوتا ہے ، نیز اس میں رزق میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، لہٰذارمضان کی آمد مبارک ہو، کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ بعض لوگ ایک موضوع روایت سوشل میڈیا پرچلاتے رہتے ہیں : جس نے رمضان کی سب سے پہلے مبارک دی ،اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے، یہ حدیث ثابت نہیں ہے ۔

عید کا دن بھی یومِ عبادت ہے اور ایک دوسرے کو عیدکی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، البتہ یہ حدیث سے ثابت نہیں ہے ،علامہ زین الدین ابن نجیم لکھتے ہیں:تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ(اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے اس عبادت کو قبول فرمائے)کہہ کر مبارک باد دینے کا انکار کسی سے ثابت نہیں ہے، (البحر الرائق، جلد:2، ص:277)۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:ترجمہ:اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سےآنا، اپنے رویّے سے مسرّت کا اظہار کرنا، زیادہ صدقہ کرنا، انگوٹھی پہننا اور تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ کہہ کر مبارک باد دینا مستحب ہے اور اس کا انکار ثابت نہیں ہے…اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:یہ اس لیے کہا کہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب سے اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے اور قُنْیَہ میں بیان کیا :اس بارے میں ہمارے اصحاب سے کراہت کا قول بھی ثابت نہیں ہے اور امام مالک نے اسے مکروہ کہا ہے اور امام اوزاعی نے کہا:یہ بدعت ہے اور مُحقِّق ابنِ امیرحاجّ نے کہا:بلکہ زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ یہ فی الجملہ جائز اور مستحب ہے ، پھر انہوں نے صحیح اسناد کے ساتھ اس حوالے سے صحابہ کرامؓ کے آثارکو بھی بیان کیا اورکہا: شام اور مصر کے بلاد میں عید مبارک وغیرہ کہنے کامعمول ہے اور کہا:اسے مشروع اور مستحب بھی کہہ سکتے ہیں ،کیونکہ دونوں (معنیٰ )لازم وملزوم ہیں، اس لیے کہ جس زمانے میں کسی کا نیک عمل قبول کرلیا جائے ،وہ زمانہ اُس کے لیے مبارک ہے اور برکت کی دعا بہت سے معاملات میں وارد ہوئی ہے ، سو یہاں بھی دعا کو بطورِ مستحب کے لے سکتے ہیں، (ردّ المحتار علی الدرالمختار،حاشیہ ابن عابدین،جلد:5،ص:110)۔

نوٹ: مبارک ہو،کلمۂ دعا ہے، اس کے معنی ہیں: آپ کو جو خوشی یا نعمت نصیب ہوئی ہے ،ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ فرمائے۔

فتحِ مکہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ النصر نازل فرمائی، یہ تاریخِ اسلام میں ایک سنگ میل اور ایک فیصلہ کن موڑ تھا کہ وہیں سے اسلام کے غلبے اور عروج کا دور شروع ہوا اور رسالت مآب ﷺکے سامنے باطل کے سارے چراغ گُل ہوگئے، کفر وشرک مٹ گیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ لہٰذا اگر ہم اسے سیرتِ سیّد المرسلین ﷺکا سب سے مبارک اور فیصلہ کُن دن کہیں ،تو یہ سو فیصد درست ہے، اس کی یاد کو تازہ کرنا مستحسن امر ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمت ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اور اپنے رب کی نعمت کو بار بار بیان کرو، (الضحیٰ:11)۔