لوڈشیڈنگ کا شکار، انٹرنیٹ سے محروم

August 15, 2020

عفان سلیم

کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال معاشی اور سماجی خطرہ بن کر پوری دنیا کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے چکی ہے۔معیشت، معمولات زندگی کے بعد سب سے زیادہ طلبا کا تعلیمی سال متاثر ہو رہا ہے۔اس ضمن میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اعلان کیا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی آن لائن کلاسز شروع کرائی جائیں گی ،تاکہ طالب علموں کی تعلیم کا حرج ہونے سے بچایا جا سکے۔

پاکستان کی یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن کلاسز کا مربوط نظام نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود ذرائع جن میں گوگل پلس، زوم، یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کا سہارا لیا جا رہا ہے۔آن لائن کلاسز کے اجرا ءکے بعد پاکستان کے طول و عرض میں رہنے والے طالب علم انٹرنیٹ سروس کے نہ ہونے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے انھیں آن لائن کلاسز میں مشکلات کا سامنا ہے۔متعدد طالب علموں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو اس پریشانی سے آگاہ کیا ہے، جس کا تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نہ تو موبائل چارج ہو پاتا ہے اور نہ ہی لیپ ٹاپ۔

آن لائن کلاسز کا جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اس پر ملک کے چند بڑے شہروں کی حد تک ہی عملدرآمد ہو سکا ہے۔ آن لائن کلاسز کے اجراء کے اقدام کو جہاں عوام نے سراہا وہیں اس سسٹم نے کئی سوالات اور مسائل کو بھی جنم دیا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس حوالے سے سہولیات کا فقدان ہے کیونکہ یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی ، مزید آن لائن ایجوکیشن کے لئے یوزر کے پاس لیپ ٹاپ یا انڈرائید فون کا ہونا ضروری ہے ،اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی تیز اسپیڈ بھی اہم ضرورت ہے، مگر یہ تمام سہولیات ہر طالب علم کو میسر نہیں ہیں ۔

بلوچستان کے تو اکثر ایسے اضلاع ہیں جہاں 20 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث طلباء کے لئےآن لائن ذرائع سے سیکھنا ممکن ہی نہیں اور اکیسویں صدی میں یقینا ًیہ ایک المیہ ہے کہ یہاں کے لوگ بجلی اور انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ ایسے افراد جن کی مالی حالت کمزور ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے روزگار کے ذرائع بند ہوگئے تو اس صورت میں ان کے لئے اپنے بچوں کو یہ سب سہولیات فراہم کرنا ہرگز آسان کام نہیں اور مہنگے ڈیٹا پیکجز کروانا بھی ناممکن ہے۔

طلبہ اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ آن لائن سسٹم نےشہری اور دیہی علاقوں میں طبقاتی تقسیم پیدا کررہی ہے کیونکہ دونوں قسم کے ماحول میں سہولیات یکساں نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ان کے گریڈز پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے کیونکہ ابھی تک امتحانات کے طریقہ کار کو بھی وضع نہیں کیا گیا ہے۔تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے لیے طلباء سے رابطہ کرنا اور ویڈيو کانفرنسنگ کے ذریعے کلاسز منعقد کرنا ناممکن ثابت ہورہا ہے۔سائنس سے تعلق رکھنے والے طلبہ گھر بیٹھ کر پریکٹیکل نہیں کر سکتےطلبہ کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ طلبہ ہر روز مہنگے انٹرنیٹ پیکچز کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتےہیں۔

ہمارا تعلیمی نظام یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہے۔ اساتذہ کو ٹیکنالوجی کے استعمال پر زیادہ عبور حاصل ہے اور نہ طلبا وطالبات کو۔آن لائن سسٹم سے آگہی نہ رکھنا بھی پروفیسرز اور طلباء کے لئے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ، ملک کے مختلف پوش علاقوں میں انٹرنیٹ سروس میں تھری جی اور فور جی صحیح کام کرتاہے، مگر جو پسماندہ علاقے ہیں وہاں پر تو انٹرنیٹ دور موبائل سگنل بھی کام نہیں کررہا توایسے میں وہ طلباء وطالبات کیسے آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں۔

ہائیرایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کلاسز میں حاضری لازمی قرار دی ہے ، جس کےلئے لرننگ مینجمنٹ سسٹم یعنی ایل ایم ایس لگایا گیا ہے اور اس اٹینڈنٹس کی بنیاد پر ہی طلبا و طالبات کو پروموٹ کیا جائے گا تو انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے جو ہزاروں طلبا و طالبات آن لائن کلاسز سے محروم ہو رہے ہیں، ان کا کیا بنے گا ؟کسی کو ان کی کوئی فکر نہیں۔آن لائن کلاسز لینا بلا شبہ اتنا آسان نہیں ،مگر موجودہ حالات میں جب دنیا بھر میں گھر سے کام کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے وہیں گھر میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر بھی بحث جاری ہے۔

ویسے تو آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کا رواج پوری دنیا میں پہلے سے ہی موجود تھا لیکن پاکستان بھر کے طلبہ کے لئے تدریس کا یہ ایک بالکل نیا تجربہ ہے ،جس کے لئے نہ تو ہمارے اساتذہ تیار تھے اور نہ ہی طالب علم، بلکہ ہمارا تو انفرااسٹرکچر بھی اس قابل نہیں ہے کہ ہم اس جدید طرز تعلیم کو برداشت کر سکیں، نہ ہی ہم جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہیں اور نہ تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت ہر گھر میں موجود ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں وہ تمام تر سہولیات مُیسر ہیں جو کہ آن لائن کلاسز کےلئے ضروری ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں آن لائن کلاسز لینے والے طلباء ان سہولیات سے قاصر ہیں لہذا طلباء کے مستقبل کو تباہی سے بچایا جائے۔تعلیمی اداروں نے طلباء سے فیس وصول کرنے کی غرض سے آن لائن کلاسز کا اجراء کرتے ہوئے فیسیں ادا کرنے کا حکم نامہ جاری کر رکھا ہے۔

آن لائن تعلیم کورونا وائرس کی وجہ سے یہ اب ایک مجبوری بن چکی ہے ۔ وقت ضائع کرنے کے بجائے آن لائن لیکچرز کے ذریعے پڑھائی کا حرج ہونے سے خود کو بچا لیا جائے۔آن لائن کلاسز کے علاوہ دوسرا کوئی ایسا حل پیش نظر نہیں ہے ،جس کے ذریعے جامع انداز میں تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا جا سکے۔