نسلِ نو کی ’’ذہنی آلودگی‘‘

October 10, 2020

سید اطہرحسین نقوی

نوجوان نسل ہمارے معاشرتی ماحول کا بنیادی حصہ ہیں ان کی تربیت میں والدین کی بہت زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے۔وہ صحیح، غلط، اچھے، برے کا فرق اپنےبچوں کو بتائیں۔ بچہ اسکول جاتا ہے تو اساتذہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں طبقے ہیں غریب ، متوسط اور اشرافیہ کا طبقہ۔ ہمارے نوجوان بھی ان تینوں طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہم ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں اور اسلام ہمیں مساوات، محبت، امن، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے لیکن عدم معاشی حالات، غربت، حق تلفی، نچلے درجہ کا شہری نے ہم سب میں ایک تفریق کردی ہے، جس کی وجہ سے موجودہ دور میں نوجوانوں کے رویئے میں بہت زیادہ تبدیلی رونما ہوئی ہے، اس کی بدولت آج کے دور جدید میں نسلِ نو کو جس سے زیادہ خطرہ ہے وہ ہے’’ ذہنی آلودگی‘‘۔

پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد تقریباََ20فیصد اور غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد80 فیصد ہے، جس کی وجہ سے ہمارے معاشرتی ماحول میں منفی سوچ بڑھتی جا رہی ہے،پھر جو تعلیم یافتہ نوجوان ہیںان میں بھی دوفیصد ذہنی طور پر بیمار اور پس ماندہ ہیں اس کےا اسباب ملاحظہ کریں

والدین کی نافرمانیا اُن سے لاپروائی۔رات گئے گھروں سے باہر رہنا،دوستوں کی محفلیں۔ اسکول، کالج اور تدریسی مراکز سے غائب رہنا،انٹرنیٹ، موبائل اور کمپیوٹر کا غلط استعمال۔سگریٹ نوشی، پان، گٹکا کیساتھ نشہ آور اشیاء کا استعمال،مختلف قسم کے کیفے جوائن کرنااوراخلاقیات سے گری ہوئی غیر معیاری گفتگو کرنا۔

یہ تو 2فیصد پڑھے لکھے جاہل طبقہ کا مختصر سا خاکہ ہے ہم معاشرے کے ان 80فیصد ان پڑھ نوجوانوں کی بات کریںتو اس میں بھی نوجوانوں کی وہ کثیر تعداد شامل ہے جو معاشی حالات کی بہتری اور اپنے گھر والوںکےلئے صبح و شام رات دن محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے کنبے کی کفالت کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں وہ اسی امید اور آس کے ساتھ مختلف کارخانوں، بازاروں، دکانوں فٹ پاتھوں پر حلال رزق کیلئے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں کہ گھر کے افراد کو تکلیف نہ ہو۔

اس کے برعکس نوجوانوں کا وہ طبقہ جو آوارہ گردی کرتے ہوئے مختلف گروپ بنالیتے ہیں یا کسی جرائم پیشہ گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے ان کے اندر حلال و حرام کا احساس تقریباً ختم ہو جاتا ہے اور مختلف جرائم پیشہ کے افراد بھی انہیں استعمال کرتے ہیں جس کے باعث وہ جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں اور پھر اخلاقیات کی تمام حدود کو عبور کرلیتے ہیں۔ وہ مقدس رشتوں کی بے حرمتی کرتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں پناہ گاہوں میں تحفظ مل جاتا ہے۔ ان کا خوف، احساس اور انسانیت سے بالکل عاری ہو جاتا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے بچوں کے اغوا، بچوں اور خواتین کی بے حرمتی اور دیگر جرائم کی شدت میں کافی اضافہ ہوا ہے ان جرائم میں کثیر تعداد ایسے ہی نوجوانوں کی ہے جو مختلف علاقوں، محلوں، اسکول، کالج، کوچنگ سینٹرز اور دیگر تفریحی مقامات پر نازیبا حرکات میں مصروف عمل ہوتے ہیں گفتگو کا انداز بازاری ہوتا ہے طلباء و طالبات اور دیگر خواتین پر جملے کسنا، بیہودگی کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔

ایسے نوجوانوں کی دہری شخصیت ہوتی ہےان کا اپنے گھر والوں کے ساتھ رویہ مختلف اور باہر کچھ اور ہوتا ہے جب ایسے نوجوان کسی جرم کی پاداش میں پکڑے جاتے ہیں یا کسی پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں تو گھر والے اپنے لخت جگر کو معصوم تصور کرتے ہیں لیکن جب صورتِ حال سے آگاہ ہوتے ہیں تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

ان حرکات اور مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے وہ نوجوان اور ہماری نسل نو جو واقعی حقیقی معنوں میں علم کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں، جو دوستی اور بھروسے کی اہمیت کو

جانتے ہیں جو ہر رشتے کی اہمیت کوسمجھتے ہیں، وہ اپنی ذات سے کسی کو تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے، جو صرف علم حاصل کر کے اس معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے نئی راہیں ہموار کرنا چاہتے ہیں جو ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنا چاہتے ہیںاور ہر بچے کے ہاتھ میں کتاب و قلم دیکھنا چاہتے ہیں۔آج وہ نوجوان طبقہ جرائم پیشہ نوجوانوں کی وجہ سے ایک ذہنی تنائو اور کرب میں مبتلا ہے، کیونکہ لوگ ان کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

لہٰذا اس ذہنی آلودگی کو ختم کرنے کےلئے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام وسائل کو بروئے کار لائے اور دیگر قومی اداروں کے ساتھ مل کر ضرب عضب اور ردالفساد کی طرح ایسے جرائم پیشہ نوجوانوں، افراد، گروپ اور مافیا کے خلاف آپریشن کیا جائے اور اس سلسلے میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لا کر فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ جس تیزی سے ہمارے معاشرے میں نوعمر بچوں، طلباء و طالبات اور خواتین کے ساتھ ناانصافی، بے حرمتی اور زیادتی کے واقعات ہو رہے ہیں ان کوروکا جائے۔

مجرموں کو فوری طور پر سزا دی جائے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مقدمات کو کسی نہ کسی طرح اتنا طویل کردیا جاتا ہے کہ ملزمان کو شک کا فائدہ یا گواہان کی غیر موجودگی کو جواز بنا کر ضمانت دے دی جاتی ہے یا باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ عرصے بعد دوبارہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے مقدس شعبہ جات جو انصاف اور قانون کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ہمارے محافظ ہیں،انہیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تا کہ برائی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

ہر طبقہ فکر اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلباء و طالبات کو ایک فورم پر جمع ہونا چاہئے اور ایسے مجرمانہ ذہنیت کے افراد کی نشاندہی کرنی چاہئے جو اس ذہنی آلودگی کے زمرے میں آتے ہیں اس سلسلے میں تمام اداروں اور گھرانوں کو مکمل جانچ پڑتال کے بعد ملازمین کو اپنے ادارے اور گھر میں کام کرنے کی اجازت دیں تاکہ ہم ایک باعزت شہری کی طرح اپنی زندگیاں گزار سکیں اور اس نفسیاتی جنگ میں فتح حاصل کر سکیں جس نے ہمارے ارد گرد کے ماحول اور ہماری نسل کو خوفزدہ کیا ہوا ہے۔

مختلف طبقات میں تقسیم تمام نوجوان خواہ کو ان کا تعلق کسی بھی مذہب، زبان، قوم اور فرقے سے ہو بحیثیت پاکستانی ایک نصب العین کے ساتھ یکجا ہو کر اپنے اپنے نظریات کے ساتھ معاشرے میں پیدا ہونے والی اس سنگین صورتحال کو قابو میں کرنےکےلئے اور اپنی نوجوان نسل کی اصلاح، تحفظ کیلئے مل کر کام کریں اور ان مجرمانہ ذہنیت کے حامل نوجوان اور دیگر افراد کو قانون کے حوالے کریں جنہوں نے بے چینی کی فضا قائم کی ہوئی ہے تاکہ پرسکون ، صاف و شفاف ماحول دوبارہ قائم ہو سکے ۔ معیشت کا پہیہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور وہ نوجوان جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں، ان پڑھ افراد کو بنیادی تعلیم کی طرف راغب کر سکیں تاکہ قوم آلودہ ماحول سے پاک ہو سکے۔