دو دوست، دو سشمن

May 29, 2021

ڈاکٹر جمیل جالبی

ڈاکٹر جمیل جالبی کا اصل نام محمد جمیل خان تھالیکن اپنے قریبی عزیز، نامور ادیب اور صحافی سید جالب دہلوی کی شخصیت سےمتاثر ہوکر اپنے نام کے ساتھ ’’جالبی‘‘ کا اضافہ کیا۔7؍جون 1929ء میںمیرٹھ میں جنم لینے والےڈاکٹر جمیل جالبی ، پاکستان کے نامور اردو نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی، چیئرمین مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) اور صدر اردو لُغت بورڈ تھے۔انہوں نے مختلف موضوعات پر لاتعد اد کتابیں لکھیں ۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں ’’حیرت ناک کہانیاں ‘‘ اور ’’خوجی ‘‘ ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی تحریر کردہ کہانی پیش کی جارہی ہے جو یقیناًآپ کو پسند آئے گی۔

گھنے جنگل میں دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور مینڈک رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘ چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا ، ’’میرا خاندان بھی یہاںسیکڑوںسال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘ یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اوردونوں میں’’ تو تو، میں میں‘‘ شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آوازیں کسیں جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔ آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوت کا پتا چلے۔‘‘ چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا، اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پرزوردار حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔ اب وہاںنہ چوہا ہے نہ مینڈک۔۔۔دلدل اب بھی موجود ہے۔