دبستانِ شعر

October 18, 2021

وہ سارا دن سائیکلوں کو پنکچر لگاتے، درمیان میں کوئی شعر ہوجاتا تو کاغذ پر لکھہ کر دیوار پر لگے سائیکل ہی کے تار میں پرو دیتے۔شام ہوتے ہی اصلاح لینے والے شاگرد جمع ہوجاتے یا کسی مشاعرے کے منتظمین کی بھیجی گاڑی آجاتی اور مشاعرے کو چل دیتے۔ مخصوص ترنم اور سلاستِ زبان کی حامل شاعری سے مشاعرے لوٹ لیتے۔ یہ تھے استاد قمر جلالوی، ذیل میں ان کی ایک مشہور نظم ملاحظہ کریں۔

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں

غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے

دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شب فرقت والوں سے

وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں

پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو

سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں ہے بھی تو فقط رسوائی کا

تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں

تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو

پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں