ناصر خورشید
پاکستان کے مشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاست دان اوربلند پایہ خطیب تھے۔ آغا شورشؔ کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبد الکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورشؔ کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبد الکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔
عبد الکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کا ہدی خواں تھے، شمشیربرہا ں تھے، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورشؔ کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت اور عشق خاتم النبیؐ آغا شورشؔ کے مزاج میں سرایت کرتا چلا گیا، خون میں حلاوت کرتا چلا گیا۔
اب شورش بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانے جانے لگے۔ سارا ہندوستان ان کے نام سے شناسا ہوا۔ آغا صاحب کا ایک سیاسی قد کاٹھ بن گیا جس دوران مسلم لیگ علیحدہ وطن کے لیے کوشاں تھی اس وقت آغا شورش کاشمیری مجلس احرار کے چنیدہ رہنماؤں میں شامل ہو چکے تھے۔ مجلس کے ایک روزنامہ (آزاد) کے ایڈیٹر بن گئے مگر قیام پاکستان کے بعد آغا شورشؔ کاشمیری وطن عزیز کی بقا اور استحکام کے لیے آخری سانسوں تک میدان عمل میں رہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطہ نظر کو دلائل کے ساتھ پُرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بڑے استقلال سے کھڑے ہو جانا آغا شورش کا مزاج بن چکا تھا۔
تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثہ عظیم تھا وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ کر لیا۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران عمر عزیز کے قیمتی ساڑھے بارہ سال قید و بند کی صعوبتوں کو کشادہ دلی اور وقار کے ساتھ برداشت کرکے گزارے۔ آپ تحریک پاکستان میں تو نہ تھے مگر تعمیر پاکستان میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی کا مرحلہ ہو یا جمہوری اقدار کے احیاء کی بات ہو۔ پاک بھارت جنگ ہو یا ملک میں مارشل لا کے ضابطے آڑے آئیں۔
شورش ایک محب وطن رہبر بن کر میدان میں ڈٹے نظر آئینگے۔ آپ قادر الکلام شاعر میدان صحافت کے جریں سالار سیاسی سٹیج کے بے تاج بادشاہ تھے ۔1946ء میں انہیں مجلس احرار اسلام کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا اور1974ء میں انہوں نے ختم نبوت کے لیے اہم کردار ادا کیا جسے رہتی دُنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اور ان کا علمی، ادبی اور سیاسی جریدہ چٹان بلاشبہ اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے۔
آغا شورشؔ کاشمیری کے حلقئہ احباب میں ڈاکٹر سید عبد اللہ، احسان دانش، سردار اللہ نواز خان نواز درانی، حمید نظامی ، مجید نظامی، شہید حسین سہروردی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ، مفتی شفیع عثمانی ، ذو الفقار علی بھٹو ، نوبزادہ نصراللہ خان اور دیگر افراد شامل تھے۔تصانیف’’فیضان اقبال‘‘، ’’چہرے‘‘، ’’قلمی چہرے‘‘،’’گفتنی و نا گفتنی‘،’’فن خطابت‘‘،’’اس بازار میں‘‘۔آغا شورش کاشمیری 25اکتوبر 1975ء کو لاہور ،پاکستان میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
منتخب کلام اقبال سے ہم کلامی
کل اذان صبح سے پہلے فضائے قدس میں
میں نے دیکھا کچھ شناسا صورتیں ہیں ہم نشیں
تھے حکیم شرق سے شیخ مجدد ہم کلام
گوش بر آواز سب دانش وران علم و دیں
بوالکلام آزاد سے غالبؔ تھے مصروف سخن
میرؔ و مومنؔ دور حاضر کی غزل پہ نکتہ چیں
اس سے کچھ ہٹ کر گلابی شاخچوں کی چھاؤں میں
تھے ولی اللہ کے فرزند نکتہ آفریں
ایستادہ سرو کے سائے میں تھے مولائے روم
جن کے فرمودات میں مضمر ہیں آیات مبیں
سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے حالیٔؔ درویش خو
باندھ کر بیٹھے حلقہ شبلیٔؔ عہد آفریں
میں نے بڑھ کر مرشد اقبال سے یہ عرض کی
آپ کو ہم تیرہ بختوں کی خبر ہے یا نہیں
دل شکستہ ہو کے فرمایا مجھے معلوم ہے
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں سلطنت
لے کر خدا و مصطفی کے نام پر
اب خدا و مصطفی کی راہ پر کوئی نہیں ہے
ابھی شہباز کی غیرت پر کرگس خندہ زن
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
کون سمجھائے اندھیری رات کو آئین مہر
وائے بد بختی کہ خود مومن ہے محروم یقیں
خون دے کر خانۂ صیاد کو روشن کرو
جاؤ مشرق کے خراب آباد کو روشن کرو
اب جی رہا ہوں گردش دوراں کے ساتھ ساتھ
یہ ناگوار فرض ادا کر رہا ہوں میں
اے رب ذو الجلال تری برتری کی خیر
اب ظالموں کی مدح و ثنا کر رہا ہوں میں
شورشؔ مری نوا سے خفا ہے فقیہ شہر
لیکن جو کر رہا ہوں بجا کر رہا ہوں میں
اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے
جیسے صحرا سے کوئی تشنہ دہاں گزرے ہے
اس طرح تلخیٔ ایام سے بڑھتی ہے خراش
جیسے دشنام عزیزوں پہ گراں گزرے ہے
اس طرح دوست دغا دے کے چلے جاتے ہیں
جیسے ہر نفع کے رستے سے زیاں گزرے ہے
یوں بھی پہنچے ہیں کچھ افسانے حقیقت کے قریب
جیسے کعبہ سے کوئی پیر مغاں گزرے ہے
ہم گنہ گار جو اس سمت نکل جاتے ہیں
ایک آواز سی آتی ہے فلاں گزرے ہے
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی