وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی کابینہ کے ارکان او رمشاورتی رفقا کی ٹیم سے شاکی ہونے کی خبریں گزشتہ دنوں کور کمیٹی کے ہونے والے اجلاس کے حوالے سے سامنے آئیں جس میں وزیر اعظم نے بعض امور پر وزرا کے منقسم طرز عمل، انفرادی سوچ اور ہم آہنگی کے فقدان پر تحفظات اور شکوؤں کا اظہار بھی کیا،امر واقعہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے بعض فیصلوں کے جو بیانات سامنے آتے ہیں اور پھرجن اقدامات کے اعلانات بعد میں کسی دوسری شکل میں واپس لے لئے جاتے ہیں ان سے وزیر اعظم کی اپنے وزرا سے ناراضی اور شکوے درست دکھائی دیتے ہیں۔
وزیر اعظم ہاؤس کے ذرائع کے مطابق اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بعض وزیر، مشیر اور وزیر اعظم کے رفقا ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کیلئے جن سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اس سے بھی بعض معاملات میں خرابی پیدا ہوتی ہے ایک وزیر یا مشیر جب حالات حاضرہ پر وزیر اعظم کو کوئی مشورہ دیتا ہے اور وہ میڈیا کی ذینت بنتا ہے تو دوسری لابی فوراً حرکت میں آتی ہے جس سے انہیں وہ فیصلہ واپس لینا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے مذکورہ ذرائع کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج لانگ مارچ کے دوران بھی صورتحال اسی وجہ سے خراب ہوئی۔
دوسری جانب اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے ایک بار پھر یکجا ہونے کی اطلاعات ہیں گوکہ اس بارے میں پی پی پی اور اے این پی کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی تاہم پی۔ ڈی۔ ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آنے والی صورتحال اس امر کی متقاضی ہوگی اس لئے جلد ہی”آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک“جبکہ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا فی الوقت کوئی ماحول نہیں ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی اس حوالے سے خاموشی اختیار کر کے نیم رضا مندی ظاہر کی ہے۔
تاہم یہ صورتحال پی۔ ڈی۔ ایم کے آئندہ اجلاس میں جو جلد ہی اسلام آباد میں متوقع ہے واضح ہو جائے گی دوسری طرف وزیر اعظم نے کو ر کمیٹی اور اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں کی جانے والی گفتگو میں اپنے آئندہ کے اقدامات کے حوالے سے کمیٹی کے اراکین کو اعتماد میں لیتے ہوئے ایک با رپھر یہ اشارے دیئے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ملک میں عام انتخابات وقت مقررہ پر ہیں اس لیے ہم نے پہلے اپنی طاقت بلدیاتی انتخابات میں شو کرنی ہے اس لئے آپ سب بھر پور طریقے سے اس کی تیاری کریں اس حوالے سے وزیر اعظم نے پارٹی راہنمائوں اور اتحادی جماعتوں کو بھی فوری طو ر پر بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع کرنے کی ہدایات دیں ہو سکتا ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک وزیر اعظم قوم سے خطاب کر چکے ہوں گوکہ انہوں نے قوم سے خطاب کچھ دن قبل کرنا تھا لیکن تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کی صورتحال کے پیش نظر یہ خطاب موخر کر دیا گیا تھا تاکہ صورتحال واضح ہونے پر تمام امور پر بات ہو سکے۔
بہر حال مہنگائی کے باعث وزیر اعظم اپنے ووٹر ز، حامیوں اور کروڑوں لوگوں کی ناراضی اور حکومت سے ان کے بد ظن ہونے کے بعد انہیں خوش کرنے کیلئے عوامی سطح پر بڑا ریلیف دینے کا پروگرام بنا چکے ہیں جس کا ایک حصہ بلدیاتی انتخابات اور دوسرا بڑا پیکج جنرل انتخابات سے قبل پیش کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔ تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے جسکی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئیں اس لئے اسے خفیہ معاہدہ ہی کہا جارہا ہے جبکہ حکومت نے اس معاہدے کو معاملات طے پانے کا نام بھی دیا تھا۔
اس معاہدے کے حوالے سے سوال ہی سوال اٹھ رہے ہیں حتیٰ کہ قابل احترام پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن جنہوں نے اس معاہدے میں تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا ان کے بارے میں بھی یہ استفسار کیا جارہا ہے کہ انہیں اس سارے معاملے میں اہم کردار کیلئے کس نے اور کیوں منتخب کیا، مفتی منیب الرحمٰن کی دینی خدمات، وسیع مطالعہ دس سے زیادہ کتابوں کی تصنیف کے علاوہ دنیا بھر میں متعدد اسلامی موضوعات پر ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت بھی اہم ہے تاہم عوامی سطح پر ان کی پہچان اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے زیادہ ہوئی اس منصب پر وہ دو دھائیوں سے زیادہ عرصے تک ذمہ داریاں انجام دیتے رہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے اس سے قبل کبھی کوئی اس نوعیت کی ذمہ داریاں قبول نہیں کی جو اس وقت وہ انجام دے رہے ہیں۔
ٹی، ایل، پی اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار اد ا کرنے کیلئے فریقین کے مابین ہونے والا معاہدہ بھی انہی کی کاوشوں کا مرہون منت ہے اور اس حوالے سے انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ٹی۔ ایل۔ پی کی جانب سے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری، سفارتخانے کی بندش اور تعلقات منقطع کئے جانے کی خبروں میں بارے سے کوئی صداقت نہیں ہے یہ سراسر جھوٹ اور کذب تھا اور ہے جبکہ دوسری طرف حکومت کی جانب سے میڈیا کوفر اہم کی جاننے والی خبریں ہی نہیں بلکہ حکومتی وزرا امور اپنے بیانات، ٹاک شو ز اور انٹر ویوز میں مسلسل تحریک لبیک کی جانب سے اس مطالبے کو عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں حتیٰ کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی ٹی۔ ایل۔پی کے ان مطالبات پر طویل بحث ہو چکی ہے۔
یقینا مفتی صاحب جیسے عالم دین اور ان کے شفاف پس منظر کے پیش نظر انکی کسی غیر ذمہ دارانہ بات کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے فرانس کے ساتھ تعلقات، یورپی یونین کا دباؤ جیسے بیانات سامنے کیوں آئے یہ صورتحال خاصی گھمبیر سے ہو سکتی ہے مگر حکومت نے اس ضمن میں کوئی قابل یقین وضاحت نہیں کی۔