……فیض اور میں……
فیض صاحب کے متعلق کچھ لکھتے ہوئے مجھے تامل ہوتا ہے۔ دنیا حاسدان بد سے خالی نہیں۔ اگر کسی نے کہہ دیا کہ ہم نے تو اس شخص کو کبھی فیض صاحب کے پاس اٹھتے بیٹھتے نہیں دیکھا تو کون ان کا قلم پکڑ سکتا ہے۔ احباب پرزور اصرار نہ کرتے تو یہ بندہ بھی اپنے گوشہ گمنامی میں مست رہتا۔ پھر بعض باتیں ایسی بھی ہیں کہ لکھتے ہوئے خیال ہوتا ہے کہ آیا یہ لکھنے کی ہیں بھی یا نہیں۔ مثلاً یہی کہ فیض صاحب جس زمانے میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، کوئی اداریہ اس وقت تک پریس میں نہ دیتے تھے جب تک مجھے دکھا نہ لیتے۔ کئی بار عرض کیا کہ ماشاء اللہ آپ خود اچھی انگریزی لکھ لیتے ہیں لیکن وہ نہ مانتے اور اگر میں کوئی لفظ یا فقرہ بدل دیتا تو ایسے ممنون ہوتے کہ خود مجھے شرمندگی ہونے لگتی۔
٭……بٹیر کی نہاری……٭
ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوران میں جانا ہوا۔ بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘ بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘ ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں، خیریت دریافت نہیں کر رہے، کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی ظاہر ہے۔‘‘ کہنے لگا، ’’حلیم کھائیے۔ بڑی عمدہ پکی ہے۔ ابھی ابھی میں نے باورچی خانے سے لاتے ایک صاحب کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیا تھا۔‘‘
’’لیکن آج تو گوشت کا ناغہ ہے۔‘‘ بولا، ’’ہوا کرے۔ یہ مرغ کی حلیم ہے۔ آپ کھاکے تو دیکھیے۔ فوراً بانگ دینے کو جی چاہے گا۔‘‘
’’نہاری ہے؟‘‘
’’جی ہاں ہے، مرغ کی نہاری بھی ہے، بٹیر کی نہاری بھی ہے۔‘‘
’’بٹیر کی نہاری؟‘‘
بولا، ’’جی ہاں اور اس کے علاوہ پدی کا شوربا بھی ہے۔ تیتر کے سری پائے ہیں۔ مسور کی دال کے تکے کباب ہیں۔ آپ کل آئیں تو بھینسے کے گوشت کا مرغ پلاؤ بھی مل سکتا ہے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’بٹیر کی نہاری لاؤ فی الحال۔‘‘
ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست تھے۔ دلی کے چٹورے، نہاری آئی تو بولے، ’’میاں نلیاں تو اس نہاری میں ہیں نہیں۔ ہم لوگ جب تک نلیوں کو پیالی کے سرے پر بجا بجا کرکے نہ چوسیں مزا نہیں آتا۔‘‘ بیرا جانے کیا سمجھا۔ ایک طشتری میں خلال اٹھا لایا۔ ہم نے کہا، ’’میاں خلال تو کھانے کے بعد درکار ہوتے ہیں، کچھ تمیز ہے کہ نہیں۔‘‘ بولا، ’’حضور یہ خلال نہیں، نلیاں ہیں، بٹیر کی نلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے ہم آئندہ نلیوں کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی نلیاں بنوارہے ہیں۔ ناغے کے دن نہاری اورشوربے کے ساتھ پیش کی جایا کریں گی۔ گودا ان کے اندر آلوؤں کا ہوا کرے گا۔‘‘