جب شاعری کا فسوں اپنے حصار میں داخل کرلے ‘سرشاری کی لہر موج در موج بہاتی لے جائے تو اس کیفیت سے نکلنے کو دل کب چاہتا ہے۔ یہ طلسم آمیز خاموشی‘ گفتگو سے توڑنا ایسا ہی ہے جیسے حسن و خوشبو سے لطف اٹھانے کے بجائے پھول کی پنکھڑیاں بکھیر دی جائیں۔ فیضؔ کی شاعری پر بولنا یا لکھنا پنکھڑیاں بکھیرنے جیسا ہے۔
پھر میں فیضؔ پر کیوں لکھ رہی ہوں؟ شاید اس فسوں سے باہر آکر اُس فیضؔ کو دیکھنا چاہتی ہوں جو اپنی ذات میں ایک غیرمعمولی انسان تھا، جو فکری اور عملی دونوں حوالوں سے سچّا دانشور تھا‘ جس نے برے سے برے حالات میں بھی انسانی وقار قائم رکھا اور علم و دانش کی اُسی سطح پر رہا جہاں صرف سچ لکھا جاتا ہے۔ فیضؔ نے اپنے قلم اور لکھے ہوئے لفظوں پر معذرت خواہی کی نہ جواب دہی۔ کسی سے بھی نہیں، نہ بڑوں سے نہ ہم عصروں سے‘ نہ قارئین سے۔فیضؔ کی شاعری میں علم و دانش کی جس روایت کا دخل ہے‘ وہ کہیں بہت گہری اُن کی ذات میں اتری ہوئی ہے۔
یہ دانش شعر میں اظہار پاتی ہے توسچّے شاعر کی کیفیت کے ساتھ فکر کی روشنی سے کچھ ایسی جہتیں بھی پیدا کرتی ہے جہاں شاعری الہام بن جاتی ہے۔ ایسی شاعری زبان و مقام کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ ہم روحِ عصر کی بات کرتے ہیں۔ یہ روح عصراگر شاعری میں موجود نہ ہو تو وہ بے جان لفظوں کے سوا کچھ نہیں رہتی۔ نہ کیفیت جگاتی ہے نہ فکر کو جھنجوڑتی ہے‘ نہ اُس غیرمرئی فضا کا احساس دلاتی ہے جسے محسوس کرنے کے لئے بڑے فن پارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاعری ایک غیرمرئی فضا کے حصار میں کس طرح داخل کردیتی ہے‘ اِس اسرار تک پہنچنا مشکل ہے۔ بس فیضؔ کی نظم پڑھئے اور اس حصار میں داخل ہوجائیے۔
دل سے پھر ہوگی مرے بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری محبت کا مداوا ہوگا
مشتعل ہوکے ابھی اُٹھّیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگا
جنگ ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
دشمنِ جاں ہیں سبھی، سارے کے سارے قاتل
یہ کڑی رات بھی، یہ سائے بھی، تنہائی بھی
درد اور جنگ میں کچھ میل نہی ہے اے دل
لائو، سلگائو کوئی جوشِ غضب کا انگار
طیش کی آتشِ جرار کہاں ہے لائو
وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لائو
جس میں گرمی بھی ہے، حرکت بھی، توانائی بھی
فیضؔ کی شاعری کے دو نمایاں رخ ہیں۔ مزاحمت جو سامراج اور استحصالی نظام کے خلاف ہے۔ عشق جو جیتی جاگتی محبوبہ سے ہے۔ رومانس دونوں میں شامل ہے۔ اس طرح یہ دونوں رخ خانوں میں بٹے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اکثرنظموں میں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں۔ چنانچہ انکی مزاحمت بھی بہت فطری لگتی ہے۔ پھر ان کا اپنا ڈکشن ہے جو ہر طرح کے جذبات میں یکساں رہتا ہے۔ خواہ حالات کی تلخی ہو یا محبت کی شیرینی‘ شعریت اور جمالیات ان کی شاعری میں موجود رہتی ہے بلکہ دونوں کا بہت خوبصورت امتزاج محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ایسی کئی نظموں میں وہ محبوبہ سے مخاطب بھی رہتے ہیں۔ انکی شاعری داخلیت اور خارجیت کے پیمانے سے ماورا ہے‘ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں اس میں انکا یقین‘ باطنی سچّائی اور بھرپور خلوص کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ اس طرح ان کی شاعری سپاٹ بیانیہ یا نعرہ نہیں بنتی۔ مثلاً
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لیکر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں، تاروں کی آخری منزل
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
فیضؔ کی شاعری میں خارجی دکھ باطن کی جس گہرائی سے ابھرتے ہیں‘ ان کا اثر ہی تو وہ سحر ہے جو شاعری جگاتی ہے۔
فیضؔ جو بہت سادہ انداز میں پڑھتے تھے‘ سننے والوں پر پوری طرح اثرانداز ہوتے تھے۔ فیضؔ کی شاعری چھپ کر بھی اتنی ہی پُر اثر رہتی ہے جتنی سن کر۔ اثراندازی کے لئے جس شد ّت کی ضرورت ہوتی ہے وہ فیضؔ کی شاعری میں کہاں سے آئی اور مسلسل کیسے آئی۔ یہ اسرار جاننے کے لئے ایک گہرا مطالعہ فیضؔ کی شاعری اورنثر دونوں کا ضروری ہے۔ پھر بھی کیا فیضؔ پوری طرح آشکار ہوسکیںگے؟ اگرچہ ان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ انہوںنے بھی لکھاہے جنہوںنے شب و روز اُن کے ساتھ گزارے ہیں اور اُنہوںنے بھی جنہوںنے اُنہیں صرف دیکھا ہے، سنا ہے یا پڑھا ہے۔
چند باتیں تو سب نے یکساں لکھی ہیں۔ فیض ؔبہت کم گفتگو کرتے تھے۔ وہ ہر صورت ِحال میں مطمئن نظر آتے تھے۔ ایک خفیف سی مسکراہٹ ہمیشہ اُن کے چہرے پر سجی رہتی تھی۔ کوئی تلاطم‘ کوئی اضطراب اُن کی ذات سے چھلکتا نظر نہیں آتاتھا۔ فیض جو شاعر تھے، فیض جو دانشور تھے۔ ان کی ذات اگر آشکار ہوتی ہے تو اُن کی تحریر میں اور شاعری میں تو صرف ایک جہت نہیں ہوتی۔ صرف ایک جہت ہو تو صحافت ہے۔ شاعری میں ایک بڑی جہت شاعر کے اپنے وجود کی ہوتی ہے۔
کسی سہہ جہتی تصویر کی طرح جس کینوس پر ابھرتی ہے وہ کینوس شاعر کا اپنا باطن ہوتا ہے۔ فیضؔ کی شاعری بڑی شاعری ہے کیونکہ اس میں ان کے وجود کے کینوس پر وہ تمام رنگ ابھر رہے ہیں جو بیک وقت دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں اور کیفیت بھی جگاتے ہیں۔ کیفیت خواہ سرشاری کی ہو، دکھوں کی ہو، رجائیت کی ہو، مایوسی کی ہو، اپنے قاری کو حصار میں رکھتی ہے۔ کیفیت کے اس حصار میں شاعر اُس وقت بالکل تنہا ہوتا ہے جب اسے جھیلتا اور لکھتا ہے۔ اگر میں اپنی بات میں مبہم ہوں تو فیضؔ کی نظم ’’تنہائی‘‘ پڑھ لیجئے۔
……تنہائی……
پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا‘ کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات‘ بکھرنے لگا تاورں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سُراغ
گل کرو شمعیں‘ بڑھا دو مَئے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفّل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا
یہ مضمون اس نظم ’’تنہائی‘‘ پر نہیں، نہ میں فیضؔ کو یاسیت زدہ سمجھتی ہوں۔ میں تو فیضؔ کو وہ بڑا شاعر ہی مانتی ہوں جس نے خود پر بیتا ہر تجربہ اس طرح شاعری میں سمودیا ہے کہ وہ ہر حسّاس فرد کو متاثرکرتی ہے اور اس طرح اجتماعی شعور کا حصّہ بن جاتی ہے۔ دکھ دینے اور دکھ سہنے والے ایک ہی سماج میں رہتے ہیں۔ حالات کا جبر خود پر جھیل کر لکھنے والے ان دونوں کو لکھتے ہیں۔ اُن طاغوتی قو ّتوں کو بھی للکارتے ہیں جو اندھیرے پھیلارہی ہیں۔
ان مظلوموں اور محکوموں کو بھی دعوتِ مبازرت دیتے ہیں جو یہ اندھیرے قبول کرنے پر تیّار ہیں۔ لیکن لکھنے والے کا ساتھ دینے کے لئے کتنے لوگ سامنے آتے ہیں؟ سوچئے، گنئے۔ نعروں کی آواز میں آواز ملا دینا، کسی تقریب میں بیٹھ کر تعریف کردینا اور بات ہے مگر جس گوشۂ تنہائی میں وہ شاعر، وہ دانشور اپنے اردگرد بکھرے دکھ لکھ رہا ہے ‘وہاں کون ہے؟
اُس کی تنہائی کے سوا۔ فیضؔ نے ساری زندگی یہ تنہائی جھیلی ہے، خواہ وہ عین جوانی میں جیل کی صورت میں ہو‘ آخری عمر میں جلا وطنی کی صورت میں یا وطن میں رہتے ہوئے بھی ہم وطنوں کی بے آوازی کی صورت میں۔ وہ گفتگو کرتے بھی تو کن سے؟ جو صرف نعرے لگاسکتے تھے، توصیفی جملے کہہ سکتے تھے اور پھر پلٹ کر جبر کی قو ّتوں کو سہارا د ینے والوں میں جا بیٹھتے تھے۔ فیضؔ تو بے حد حسّاس شاعرتھے۔ اُنہوں نے لکھا تھا:
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
فیض ؔنے اپنی تنہائی اپنی قوت بنالی تھی۔ انہوںنے ساری عمر خود کو اسی میں قلعہ بند رکھا مگر اس پر ناخوش نہیں ہوئے۔انہیں یہ ادراک حاصل تھا جو انہوں نے اپنے خط میں لکھ دیا۔ ’’دکھ اور ناخوشی دو مختلف چیزیں ہیں یہ بالکل ممکن ہے کہ آدمی دکھ بھی سہتا رہے اور خوش بھی رہے۔‘‘ فیضؔ کی دانش نے ان پر منکشف کردیا تھا کہ یہ صرف انسان کا مقدّر ہے کہ وہ اپنے زخم، دل میں لیے جئے جاتا ہے کیوںکہ اس کے درد کا علاج مرنے سے نہیں‘ جینے سے ہوتا ہے۔ اسی کی خاطر اسے وہ نظر بخشی گئی ہے جو اپنی ذات سے پَرے اور اپنے عہد سے آگے دیکھ سکے۔ اسی کے سہارے وہ ہر دکھ اٹھائے جارہا ہے۔
امّیدِ تلطّف میں رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل، مَیں اور مری تنہائی
فیض کے یہ خیالات ان کے ایک خط میں بھی دیکھئے:
’’جیل میں آنے سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ اسیری کوئی شجاعانہ اور بلند مرتبہ بات ہے۔ اب پتہ چلا کہ اس میں نہ شجاعت کا کوئی مضمون ہے نہ عالی حوصلگی کا۔ اس میں صرف درد ہے اور ناقابل ِ بیان درد اور اس درد کا صحیح احساس، مجھے ایک گرفتار شکاری پرندے سے ہوا جس کی کچھ دنوں سے ہم دیکھ بھال کررہے ہیں۔ یہ چھوٹا سا ایک شکرا ہے جو کچھ دن پہلے ہمارے غسل خانے میں آپہنچا اور ہمارے خدمت گار قیدی نے پکڑ لیا… اُسی شام وہ کسی طرح ٹوکرے سے نکل گیا اور اُڑ کر ہمارے صحن کے ایک درخت پر جا بیٹھا۔
اُس کی رسّی شاخوں میں الجھ گئی… اس کی ٹانگ کئی جگہ سے ٹوٹ چکی تھی۔ اب نہ وہ لڑسکتا ہے نہ شکار کرسکتا ہے… ایک دن اُس کی آواز سے جن کو ّئوں، چڑیا اور مینائوں کی جان خطا ہوتی تھی‘ اب وہی پرے باندھ کر اس کے آس پاس جمع ہوتے ہیں اور بہ یک آواز اُس کی ہنسی اڑاتے ہیں اور آوازے کستے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس تذلیل پر شِکرے کی مغرور‘چمکدار آنکھیں درد سے دھندلا جاتی ہیں۔ پرندے رو تو نہیں سکتے لیکن اس بے چارے کی بے بسی دیکھ کر دل بھر آتا ہے… غالباً دو چار دن میں مر جائے گا… نظامِ فطرت میں بے زبان مخلوق کی بیکسی کا علاج یہی ہے‘ فطرت میں اُن کے درد کا مداوا موت ہے۔ یہ صرف انسان کا مقدّر ہے کہ وہ اپنا درد اور اپنے زخم دل میں لئے جئے جاتا ہے کیوںکہ اُس کے درد کا علاج مرنے سے نہیں‘ جینے ہی سے ہوتا ہے۔ اسی خاطر وہ ایمان اور وہ نظر بخشی گئی ہے جو اُس کی ذات سے پرے اور اس کے عہد سے آگے دیکھ سکتی ہے‘ اسی سہارے وہ دکھ اُٹھائے جاتا ہے اور اُمّید کئے جاتا ہے اُس دن کی اُمّیدجو شاید اُسے کبھی دیکھنا نصیب نہ ہو۔‘‘ (صلیبیں مرے دریچے میں، صفحہ 196)
فیضؔ کے ان جملوں میں وہ دانشور پہچانا جاسکتا ہے جو اپنے عہد سے آگے دیکھتاہے جس کا حسّاس وجود اپنے عہد سے غیرمطمئن ہوتا ہے۔ وہ تبدیلی چاہتا ہے اور اپنا عہد ایک اچھّے مستقبل کی راہ پر لگانے میں حصّہ داربنتا ہے۔ اس کی فکر جب اظہار پاتی ہے تو وہ رجعت پسندوں کے لئے خطرہ بن جاتا ہے۔ اُس کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں اور عام پس ماندہ ذہن رجعت پسندوں کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔
ایسے میں دانشوراپنی سچّائی کے ساتھ تنہا ہوجاتا ہے۔ تنہا ہونے کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ وہ اکیلا ہوتا ہے۔ یہ تنہائی چند لوگوں کی صحبت میں بھی ہوسکتی ہے اور بھری بزم میں بھی۔ فیضؔ صاحب کی شخصی تنہائی کا حال ’’رودادِقفس‘‘ کے عنوان سے اُن کے ساتھ اسیری کے ماہ و سال گزارنے والے میجر محمداسحٰق نے بڑی تفصیل سے کچھ یوں لکھا ہے۔
’’فیضؔ صاحب 9مارچ1951ء کو قید ہوئے اور اپریل 1955 میں رہا ہوئے۔ اِس طرح اُن کی اسیری کے دن کچھ اوپر چار سال بنتے ہیں۔ اس عرصے میں وہ پہلے تین مہینے سرگودھا اور لائل پور کی جیلوں میں اس کے بعد جولائی 53ء تک حیدرآباد(سندھ) جیل میں راولپنڈی سازش کیس کے باقی اسیروں کے ساتھ رہے۔ جولائی 1953ء میں ہم سب کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹ کر لاہور، منٹگمری، مچھ(بلوچستان) اور حیدرآباد کے جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ فیض صاحب کے لیے میرے کیپٹن خضرحیات کے ہمراہ منٹگمری سنٹرل جیل کا انتخاب کیا گیا لیکن وہ چونکہ بغرضِ علاج کراچی چلے گئے تھے اس لیے کہیں1953ء میں جا کر ہمارے پاس منٹگمری پہنچے۔
یہاں سے اکٹھّے رہا ہوئے۔ مجھے فیضؔ صاحب کی گرفتاری کے کوئی تین ماہ بعد مئی 1951ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس لیے خلقِ خدا کی سرگوشیاں سنتا رہا۔ فیضؔ صاحب کے ساتھ اس دوران،ان کے عزیزوں دوستوں کو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ نہ ہی وہ کسی سے خط کتابت کرسکتے تھے۔ ان کے متعلّق طرح طرح کی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں اور قید میں ان کے ساتھ سلوک کے بارے میں عجیب عجیب دلخراش قصّے مشہور تھے۔ جب پہلی بار اُن سے حیدرآباد جیل میں ملاقات ہوئی تو بارے اطمینان ہوا۔ وہی خندہ پیشانی، چمکتی ہوئی آنکھیں، وہی گوتمی مسکراہٹ جس کا نور سب طرف پھیل رہا تھا، اور پھر وہ فاتحِ عالم محبت، جس سے اُن کے جاننے والے مانوس ہیں۔‘‘ (زنداں نامہ، صفحہ 17)
یہ تجربہ فیضؔ سے بھی سنئے اور محسوس کیجئے:
تھے بزم میں سب دودِ سرِبزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مے خانے میں عاجز ہوئے آزردہ دلی سے
مسجد کا نہ رکھّا ہمیں آشفتہ سری نے
سب جانتے ہوئے‘ سب دیکھتے ہوئے، سب سمجھتے ہوئے دکھ کو جھیلنا اور سمجھوتا نہ کرنا ہی تو دانشور کی پہچان ہے۔ آگہی کا دکھ اس کا مقدّر ہے جو فیضؔ جھیلتے بھی رہے، لکھتے بھی رہے۔
یہ جامۂ ِصد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے
فیض نے جامۂِ صد چاک نہیں بدلا تو ایک پورے عہد کی چاک گریبانی ان کی شاعری میں منعکس ہوگئی۔ یہ عہد کسی ایک خطّۂ زمیں کی جغرافیائی حدوں کا نہیں، یہ سرحدوں، زبانوں اور قومیت میں بھی محدود نہیں۔ یہ ایک ایسے تخلیق کار کا عہد ہے جو اپنے ہم عصر لکھنے والوں کی فکر کا بھی حصّہ دار بنتا ہے۔ جو خطّۂ ارض کے ہر کونے میں جہاں انسان بستے ہیں، ان کے آلام محسوس کرتا ہے۔
ان کی اچھّائیاں سراہتا ہے، برائیوں پر افسردہ ہوتا ہے۔ بیروت ہو، فلسطین ہو، ایران ہو، چلی ہو، روس ہو، فیض ؔنے ہر ملک کے لوگوں سے محبت کی ہے، ان کے شاعروں اور ادیبوں سے دوستی کی ہے۔ ان کی تحریریں پڑھیں اور اپنے عہد کی رَو پکڑنے کے لیے اُن کے کاروان میں شامل رہے۔ یہ ہمسفری ہی عصری فکر کو ان کے کلام کا حصّہ بنا گئی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’باکمال اہلِ سخن کی صحبت میں اظہار کے کئی نئے پیرائے، لیلائے سخن کے کئی نئے روپ ذہن میں اجاگر ہوتے رہے جن کو شعر میں ڈھالنے کی انگیخت ہوتی رہی۔ مثلاً انتساب والی نظم جو وقتاً فوقتاً کئی مہینوں تک لکھی جاتی رہی، اس کا کوئی بند ماسکو میں ہوا ، کوئی سوچی میں، کوئی لندن اور کوئی کراچی میں۔ یہ نظم دراصل پابلون رودا کی صحبت سے ذہن میں آئی تھی اور انہی کے تبتّع میں لکھی گئی۔ ’’رنگ ہے دل کا مرے‘‘، ’’آہستہ‘‘ اور ایک دو نظموں میں ناظم حکمت کا عکس ہے۔
اپنے بارے میں جو کچھ کہنا تھا فیضؔ نے خود کہہ دیا ہے۔ بڑی آسانی سے بڑی سچّائی سے وہ ایسے ہمہ گیر احساسات بیان کرگئے کہ ان کی شاعری کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ پڑھئے محسوس کیجئے اور اس حصارِ فسوں میں داخل ہوجائیے، جہاں تنہائی اچھّی لگتی ہے۔