سر شہاب الدین کا رنگ سیاہ تھا۔ ایک دفعہ وہ سیاہ سوٹ پہن کر اسمبلی میں تشریف لے آئے۔ علامہ اقبال نے انھیں دیکھا، تو ہنس کے فرمایا: "چودھری صاحب! آج تو آپ ننگے ہی چلے آئے۔"
چودھری صاحب نے غور کیا، تو معلوم ہوا کہ لباس کے انتخاب کا معاملہ نظرِ ثانی کا محتاج تھا۔ سیاہ رنگت پر سیاہ سوٹ واقعی بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ لوگوں کو یہ معلوم کرنے میں دقت ہوتی ہے کہ کوٹ کا کالر کہاں ہے؟ اور ٹھوڑی کہاں؟ یہ سوچ کے سیاہ سوٹ کے بجائے سپید سوٹ پہننا شروع کر دیا۔ علامہ اقبال نے انھیں دیکھا تو سر سے پاؤں تک ایک نظر ڈالی اور بے اختیار ہنس پڑے۔ چودھری صاحب نے جھنجھلا کے کہا: "آپ ہنستے کیوں ہیں؟" ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: "میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ آپ ہیں یا کپاس کے کھیت میں اُرنا بھینسا۔‘‘
جالب کی توہین برداشت نہیں، شورش کاشمیری
ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزتی کردی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔ قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔ پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لئے مجھے جیل بھیج دو۔
پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑگیا. گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔ اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے’’شورش نے میری عزت بچالی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘
یہ واقعہ بزرگ صحافی محمد رفیق ڈوگر نے اپنی آپ بیتی ’’ڈوگرنامہ‘‘ میں لکھا ہے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آغا شورش کاشمیری اور حبیب جالب میں شدید نظریاتی اختلاف تھا لیکن جب کسی نظریاتی مخالف پر مشکل آن پڑتی تو نظریاتی اختلافات بھلا د ئیے جاتے تھے۔